ہجوم اُس گھر کی طرف بڑھ رہا تھا!
بستی کے نام نہاد شرفا‘ سردار اور چوہدری بھی ہجوم میں تھے اور غنڈے‘ لقندرے اور تلنگے بھی تھے۔ یہ کس طرح ممکن تھا کہ بستی میں خوبصورت نوجوان آئیں اور بچ کر نکل جائیں‘ خواہ وہ مہمان ہی کیوں نہ ہوں! ہجوم نے گھر پر ہلہ بول دیا۔ میزبان نے انہیں سمجھایا‘ ڈانٹا‘ منت سماجت کی اور آخری چارۂ کار کے طور پر پوچھا کہ ’’کیا تم میں کوئی رجلِ رشید‘ کوئی بھلے مانس‘ کوئی سمجھانے والا نہیں؟‘‘
یہ میزبان ‘ جس کے گھر میں مہمان آئے تھے‘ خدا کا پیغمبر تھا۔ اگر اُس ہجوم میں‘ جس میں سردار بھی تھے اور عام گامے ماجھے بھی‘ کوئی بھلے مانس ہوتا‘ کوئی رجلِ رشید ہوتا‘ تو اس قوم کا انجام تباہی نہ ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا پوری پیپلز پارٹی میں کوئی رجلِ رشید نہیں جو زرداری صاحب کو اور اُن کے پسند کردہ وزیراعظم کو سمجھائے کہ جس راستے پر وہ چل رہے ہیں‘ تباہی کا راستہ ہے۔
پیپلز پارٹی کے بھلے مانسوں کا یہ حال ہے کہ پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات کو جس بات پر اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ عدالتیں راتوں کو نہیں لگتیں اور حکومت کے وزیر اطلاعات فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے آئین کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔‘‘
پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات اور حکومت کے وزیر اطلاعات جو کچھ بھی نہیں‘ اُن سے اسی کی توقع ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ پریشانی کی بات اور ہے!
پیپلز پارٹی اس وقت بلاشبہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جسے چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا ہے۔ کراچی سے لے کر گلگت تک اور واہگہ سے لے کر پشاور اور کوئٹہ تک ہر شہر اور ہر قصبے میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن موجود ہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ان لاکھوں کارکنوں اور رہنماؤں میں کوئی شخص ایسا نہیں جو پارٹی کے شریک چیئرمین کو سمجھائے‘ سیدھا راستہ دکھائے‘ تنبیہہ کرے یا منت سماجت کرے!
آپ تھوڑی دیر کیلئے غور کریں۔ کیا یہ بات پریشان نہیں کن نہیں؟ صدر زرداری نے چیف جسٹس کی تجاویز یا سفارشات مکمل طور پر پس پُشت ڈال کر‘ اپنی مرضی کے ججوں کی تعیناتی کی اور سپریم کورٹ نے چند گھنٹوں کے اندر اندر صدر کے احکام کو معطل کر دیا۔
اتنی بڑی غلطی جو اندھوں کو بھی نظر آ رہی ہے اور جس سے بچے بھی آشنا ہیں‘ کتنی عجیب بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے طول و عرض میں کسی کو نظر نہیں آئی نہ آ رہی ہے! آخر اس کا سبب کیا ہے؟
یہ تو ممکن نہیں کہ پارٹی میں ذہین لوگ نہ ہوں۔ بلاشبہ پارٹی میں عالی دماغ حضرات موجود ہیں۔ بڑے بڑے قانون دان‘ بڑے بڑے سمجھ دار‘ سوچنے سمجھنے والے‘ نفع نقصان کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر لینے والے اور دن میں روشنی اور رات کو اندھیرے کا احساس کر لینے والے لوگ موجود ہیں۔
افسوس! تشخیص کوئی نہیں کر رہا اور اگر کوئی تشخیص کر بھی رہا ہے تو مصلحتوں نے زبانوں پر مُہریں لگائی ہوئی ہیں۔ مفادات کے کپڑے منہ میں ٹھنسے ہوئے ہیں۔ جو جانتا ہے وہ تو جانتا ہے‘ جو نہیں جانتا وہ جان لے اور سمجھ لے کہ جن سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں ہوتی اُن میں پارٹی کے سربراہ سے اختلافِ رائے کی جرأت کوئی نہیں کر سکتا! یہ ہے وہ تشخیص اس بیماری کی جس بیماری میں پوری پارٹی میں کوئی رجلِ رشید نہیں میسر آتا!
اگر آپ اس تشخیص کو تسلیم کرنے میں تامل کر رہے ہیں تو ازراہِ کرم اس بات کو ایک زاویے سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ جب ملک میں ڈکٹیٹر کی حکومت تھی تو کیا اُسکے حواری اُس سے اختلاف کرنے کی جرأت کرتے تھے؟ نہیں! ہرگز نہیں!
جنرل مشرف کی مثال دیکھ لیں اُس نے حماقت پر حماقت کی۔ چیف جسٹس کو قید کر دیا‘ پھرملک میں ازسرنو مارشل لا لگا دیا لیکن کیا کابینہ میں سے یا قاف لیگ میں سے کوئی اتنی جرأت کر سکا کہ غلط کو غلط کہتا! آج مشاہد حسین آصف زرداری کو ’’سیاسی خودکش بمبار‘‘ کا خطاب دے رہے ہیں اور وزیراعظم سے اپیل کر رہے ہیں کہ صدر کا جاری کردہ حکم نامہ واپس لے لیں لیکن کل جنرل مشرف نے جب یہی کچھ کیا تھا بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ تو یہ منقار زیرِ پر تھے۔
کل انہوں نے وزیراعظم شوکت عزیز سے اپیل نہیں کی تھی کہ جناب وزیراعظم! صدر مشرف کا جاری کردہ حکم نامہ واپس لے لیجئے۔
ہمارا مطلب … حاشا وکلا … یہ نہیں کہ جناب مشاہد حسین کی تنقید ناروا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جو کہا ہے کہ وہ صدر کا جاری کردہ حکم نامہ واپس لے لیں تو ہم اسکی سو فیصد تائید کرتے ہیں۔
ہم تو اس مثال سے اپنا یہ نکتہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آمریت ملک میں ہو یا پارٹی میں‘ اختلاف رائے کی جرأت کوئی نہیں کریگا۔
یہی حال اعجازالحق صاحب کا ہے اب وہ طویل و عریض مضامین اخبارات میں چھپوا رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ …
’’2007ء میں موجودہ چیف جسٹس کی اپنے عہدے سے معطلی یا برخواستگی انتہائی غیر قانونی اور قطعی غیر آئینی تھی‘‘ ۔
دیکھا آپ نے؟ جناب اعجاز الحق برملا اور ڈھکے چھپے الفاظ کے بغیر صاف صاف فرما رہے ہیں کہ 2007ء کا اقدام ’’انتہائی غیر قانونی اور قطعی غیر آئینی‘‘ تھا لیکن 2007ء میں جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو موصوف ’’قطعی‘‘ خاموش رہے اس لئے کہ بولتے تو ڈکٹیٹر انہیں کابینہ سے یوں نکال پھینکتا جیسے دودھ سے مکھی! بالکل یہی عالم ہماری سیاسی پارٹیوں کا ہے۔
آج اگر پیپلز پارٹی کا کوئی عہدیدار یا وزیر برملا کہے کہ صدر زرداری کا اقدام غیر قانونی ہے‘ تو پارٹی کا آمر سربراہ اُسے پارٹی سے نکال باہر کریگا اور صرف پیپلز پارٹی ہی کو کیوں مطعون کیا جائے‘ وہ ساری سیاسی جماعتیں جو آمریت کی بنیاد پر قائم ہیں‘ اپنے کسی عہدیدار‘ کسی کارکن کا اختلاف رائے برداشت نہیں کر سکتیں! نون لیگ میں رہنا ہے تو میاں نواز شریف کی ہر بات پر آمنّا و صدّقنا کہنا ہو گا۔ قاف لیگ میں بسیرا کرنا ہے تو چوہدریوں سے اتفاق کرنا ہو گا وگرنہ ہم خیال بن کر الگ ہو جائیں‘ ایم کیو ایم کے اندر رہ کر سیاست کرنی ہے تو جناب الطاف حسین کو قائد بھی ماننا پڑیگا اور انکے ہر ارشاد کو تسلیم بھی کرنا ہو گا۔
اے این پی کی ویگن پر سواری کرنی ہے تو جناب اسفند یار ولی کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کرنا ہو گا خواہ صوبے کا وزیر اعلیٰ اُن کا رشتہ دار ہو یا کراچی میں پارٹی کا سربراہ اُن کا قریبی عزیز ہو۔ جے یو آئی (فضل الرحمن گروپ) کے کندھے پر سوار ہو کر وزیر بننا ہے تو عالم دین ہونا ضروری نہیں لیکن مولانا صاحب کے ہر ارشاد کو ماننا ازحد ضروری ہے۔ پارٹیوں کے یہ سارے سربراہ بادشاہ ہیں اور بادشاہوں کے بارے میں سعدی ہدایات دے گئے ہیں کہ …؎
اگر شہ روز را گوید شب است این
بباید گفت اینک ماہ و پروین
اگر بادشاہ دن کو رات کہتا ہے تو آپ نہ صرف یہ کہ دن کو رات کہیں بلکہ یہ بھی کہیں کہ حضور! ستارے اور چاند بھی آسمان پر چمک رہے ہیں!
آج اگر صدر زرداری کو معلوم ہوتا کہ کل پیپلز پارٹی کے اندر ۔۔ نیا سربراہ منتخب کرنے کیلئے الیکشن ہو گا تو وہ یقیناً ایسے اقدامات کا ارتکاب نہ کرتے اس لئے کہ ایسا کرنے سے وہ پارٹی کے اندر ہونے والے انتخابات میں شکست کھا جاتے۔ اگر پارٹی کے اندر انتخابات ہونے کا کوئی امکان نہیں اور سورج مغرب سے نکلنے تک بھٹو خاندان ہی پارٹی کی سربراہی پر فائز رہنا ہے تو چیئرمین ۔۔ یا شریک چیئرمین ۔۔ پارٹی کے اندر کسی کو رجلِ رشید کیوں بننے دے؟