اگرچہ جدید طبی ٹیکنالوجی کی وجہ سے زندگی کے اوسط دورانیہ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انسانوں پر مجموعی طور پر سیلیکشن پریشر ختم ہو گیا ہے- (کچھ ڈی این اے میوٹیشنز انواع کی ماحول سے مطابقت بڑھا دیتی ہیں جبکہ کچھ دوسری میوٹیشنز ماحول سے مطابقت کم کر دیتی ہیں- ماحول سے مطابقت کم کرنے والی میوٹیشنز کے حامل افراد کے لیے زندہ رہنا اور اپنے جینز اگلی نسل تک پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے- گویا ان میوٹیشنز پر فطری چناؤ منفی دباؤ ڈال رہی ہے جس وجہ سے یہ میوٹیشنز معدوم ہو جاتے ہیں- اس مظہر کو سیلیکشن پریشر کہا جاتا ہے)- اب منفی میوٹیشنز کے حامل لوگ بھی نہ صرف نارمل زندگی گذارتے ہیں بلکہ شادیاں بھی کرتے ہیں اور بچے بھی- یعنی ایسے لوگ بھی کامیابی سے اپنے جینز اگلی نسل میں منتقل کر پاتے ہیں-
تاہم اگر ہم مجموعی طور پر انسانی ڈی این اے کا تجزیہ کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انسانوں میں ارتقاء بدستور جاری ہے- نہ صرف انسانی ڈی این اے میں میوٹیشنز جاری ہیں بلکہ بہتر میوٹیشنز کی سیلیکشن بھی ہو رہی ہے- بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں جدید طبی سہولیات کا فقدان ہے جس وجہ سے ایسے معاشروں میں آبادی پر شدید سیلیکشن پریشر پایا جاتا ہے- اگر ایسے معاشروں میں کوئی وبا پھوٹ پڑے تو ایسے لوگوں کے بچنے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں جن میں جینیاتی طور پر اس وبا کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہو- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے غریب ملکوں کی آبادی میں Lassa fever (افریقی وبائی بخار) اور ملیریا کی خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے-
بہت زیادہ بلند علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں کئی ایسی میوٹیشنز پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے کم آکسیجن میں بھی زندہ رہنا ممکن ہو جاتا ہے- مزے کی بات یہ ہے کہ تبت، ایتھوپیا اور اینڈیز کے رہنے والے لوگوں میں یہ قابلیت بالکل مختلف میوٹیشنز کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے- گویا ان علاقوں میں بالکل مختلف میوٹیشنز کی وجہ سے کم آکسیجن کے ماحول میں رہنا ممکن ہو گیا ہے-
تمام انسان بچپن میں دودھ کو ہضم کرنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن بلوغت کے وقت یہ صلاحیت ختم ہو جاتی ہے- ایک زمانہ تھا جب اکثر بالغ انسان دودھ کو ہضم کرنے کے قابل نہیں ہوتے تھے- دودھ میں ایسے پیچیدہ مالیکیولز ہوتے ہیں جنہیں لیکٹوز کیا جاتا ہے اور جنہیں بالغ انسانوں کا معدہ توڑنے کے قابل نہیں ہوتا- اسے lactose intolerance کہا جاتا ہے- لیکن اب سے چند ہزار سال پہلے یورپ کے باشندوں میں ایک ایسی میوٹیشن ہوئی جس کی وجہ سے ان کا جسم lactase نامی اینزائم بنانے لگتا ہے جو لیکٹوز کے مالیکیول کو توڑ کر ان میں سے غذائیت حاصل کر سکتا ہے- چنانچہ اب یورپ کے اسی فیصد سے زیادہ لوگوں میں یہ میوٹیشن پائی جاتی ہے جس وجہ سے یورپ کے لوگ گائے کا دودھ آسانی سے ہضم کر سکتے ہیں- اس کے برعکس مشرقی ایشیا کے بیشتر لوگوں میں یہ میوٹیشن نہیں پائی جاتی اور وہاں کے لوگ بلوغت کے بعد دودھ کو ہضم نہیں کر سکتے- یورپ میں یہ میوٹیشن ارتقاء کی بدولت چند ہزار سالوں میں ہی تمام یورپ میں پھیل گئی- آج بھی دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات سب سے زیادہ یورپ میں استعمال ہوتی ہیں-
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ فطری چناؤ ڈی این اے کے صرف اس حصے پر عمل کرتا ہے جس سے پروٹینز بنتی ہیں- ہم جانتے ہیں کہ ڈی این اے کا 92 فیصد سے زیادہ حصہ کوئی پروٹین نہیں بناتا- چنانچہ اگر اس non-coding ڈی این اے میں میوٹیشنز ہو تو عموماً ان کا انسان پر کوئی مثبت یا منفی اثر نہیں پڑتا یعنی ڈی این اے کے اس حصے پر کوئی سیلیکشن پریشر نہیں ہوتا- چنانچہ اس حصے میں میوٹیشنز کی شرح ہمیشہ تقریباً ایک سی رہتی ہے- اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اس 92 فیصد میں بھی کچھ حصے ایسے ہیں جو تمام انسانوں میں قریب قریب ایک سے ہوتے ہیں یعنی ان حصوں پر بھی سیلیکشن پریشر موجود ہے جو انہیں تبدیل ہونے سے روکتا ہے- اسی طرح کچھ اور حصوں میں تبدیلیاں بہت تیزی سے رونما ہو رہی ہیں یعنی ان حصوں پر سیلیکشن پریشر نہیں ہے جس وجہ سے اس حصے میں زیادہ تبدیلیاں ہو رہی ہیں-
انسانوں کے مختلف جینز میں تبدیلیوں کی شرح کی پیمائش کے لیے ہم ان جینز کا مقابلہ اپنے قریبی ارتقائی کزنز کے ڈی این اے سے کرتے ہیں- عمومی طور پر انسان اور چمپنزی کے ڈی این اے میں تقریباً 98 فیصد مماثلت ہوتی ہے- لیکن ایک جین جو دماغ کے مختلف حصوں کی تشکیل کرتا ہے (جسے Human Accelerated Region یا HAR1 کہا جاتا ہے) اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے کہ انسان اور چمنزی کے اس جین میں 15 فیصد سے زیادہ sequences مختلف ہو چکی ہیں-
ڈی این اے چار مختلف قسم کے نیوکلیوٹائڈز پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں C, G, A اور T کہا جاتا ہے- ڈی این اے میں اتفاقی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے مرمت کا نظام بھی موجود ہے- یہ نظام A اور T کے بجائے C اور G کا استعمال زیادہ کرتا ہے- گویا مرمت شدہ ڈی این اے میں C اور G کا استعمال A اور T کی نسبت زیادہ ہوتا ہے- انسان اور چمپنزی کے ڈی این اے کے تقابلی جائزے سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چمپنزی اور انسان کے ڈی این اے میں کہاں کہاں C اور G کا استعمال زیادہ ہوا ہے- یہ ڈی این اے کے وہ حصے ہوں گے جہاں حال ہی میں میوٹیشنز ہوئی ہیں- ڈی این اے کی مرمت کا یہ نظام ڈی این اے میں تیزی سے تبدیلی کا باعث بنتا ہے- اگر یہ تبدیلی کسی شدید بیماری کا باعث بنے تو یہ میوٹیشن اگلی نسل میں منتقل ہونے کا امکان کم ہوتا ہے یعنی فطری چناؤ اس میوٹیشن کو اگلی نسل تک نہیں پہنچنے دیتا- لیکن ترقی یافتہ ممالک میں جدید طبی سہولیات کی وجہ سے ایسی میوٹیشن کے حامل لوگ بھی بچے پیدا کر پاتے ہیں اس وجہ سے فطری چناؤ کا پریشر بہت کم ہو گیا ہے اور ایسی تمام میوٹیشنز اگلی نسل تک منتقل ہو رہی ہیں- دوسرے الفاظ میں انسانوں کے ڈی این اے میں مجموعی طور پر میوٹیشنز کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے
یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ انسان کے کسی عام خلیے میں کوئی میوٹیشن ہو تو وہ اگلی نسل میں منتقل نہیں ہوتی- صرف جنسی خلیوں یعنی سپرم اور بیضے میں میوٹیشنز ہی اگلی نسل تک منتقل ہوتی ہیں- جیسے جیسے انسانوں کی عمر بڑھتی ہے ویسے ویسے سپرم اور بیضوں میں میوٹیشنز کی تعداد بھی بڑھتی رہتی ہے- آج کل لوگ بچے دیر سے کرنے لگے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیادہ میوٹیشنز والے سپرم زیادہ میوٹیشنز والے بیضے کو فرٹیلایز کرتے ہیں- یعنی آج کل بچوں میں زیادہ میوٹیشنز والے جینز پائے جانے لگے ہیں- چنانچہ انسانوں میں مجموعی طور پر میوٹیشنز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے
اس بحث سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اگر فطری چناؤ کا عمل رک بھی جائے (جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں بہتر طبی سہولیات کی وجہ سے فطری چناؤ بہت سست ہو گیا ہے) تو اس سے ارتقاء رک نہیں جاتا- فطری چناؤ کے دباؤ سے نجات پانے کا ایک ضمنی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کے جینز میں میوٹیشن کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے نہ صرف نسبتاً زیادہ لوگ جینیاتی بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں بلکہ اگر مستقبل میں کبھی کسی آفت کی وجہ سے سلیکشن پریشر بڑھ جائے اور فطری چناؤ دوبارہ فعال ہو جائے تو اس قدر جینیاتی میوٹیشنز کی وجہ سے انسان تیزی سے ارتقاء پذیر ہونے لگے گا اور بدلتے حالات کے ساتھ خود کو تیزی سے ڈھالنے میں باقی جانوروں کی نسبت زیادہ کامیاب رہے گا
آرٹیکل کا لنک
https://theconversation.com/human-evolution-is-still-happen…
اردو زبان میں سائنس کے ویڈیوز دیکھنے کے لیے ہمارا یوٹیوب چینل وزٹ کیجیے