ہم اعظم سواتی کے فارم ہاؤس کے پہلو میں پہنچے تو سورج غروب ہو رہا تھا ۔ فارم ہاؤس نہیں یہ ایک محل تھا ۔ اونچی فصیل اور فصیل پر لگی خاردار تار دیکھی تو پشتون ایکشن کمیٹی کے چیئر مین ریاض بنگش نے میرا بازو پکڑ کر کہا : وہ گائے تھی یا جہانگیر ترین کا جہاز جو اس فصیل کے اوپر سے شاہ معظم کے محل میں داخل ہو گئی؟
اسلام آباد میں چک شہزاد کے علاقے میں رؤسا کے یہ فارم ہاؤسز اصل میں انسانیت کی توہین ہیں ۔ اسلام آباد شہر بنا تو سینکڑوں کنال پر مشتمل یہ فارم ہاؤسز ریاست نے الاٹ کیے تا کہ شہرکو سبزیوں اور پھلوں کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو ۔ جنہیں یہ فارم ہاؤسز الاٹ ہوئے انہیں بتا دیا گیا کہ اس الاٹمنٹ کا مقصد یہ ہے ۔ آج عالم یہ ہے کہ ان فارم ہاؤسز کے سامنے سے گزریں تو محسوس ہوتا ہے ان کے مکین ہماری ریاست کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور باقی سب ان کی رعایا ہیں ۔ بجائے اس کے کہ ایسے عالیشان محلات میں رہنے والوں پر بھاری ٹیکسز عائد کیے جاتے ، یہاں ریاست نے خود ہی یہ محل انہیں الاٹ کیے اور اس کے بعد سبھی ہنسی خوشی رہنے لگ گئے ۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ یہ فارم تو سبزیاں اگانے کے لیے تھے یہاں محلات کیسے بن گئے ۔ دو دو مرلوں کے مکانات پر قانون قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے لیکن ان محلات کے مکینوں سے واسطہ پڑتا ہے تو قانون کی ٹانگیں کپکپانا شروع کر دیتی ہیں ۔ عمران خان دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے سے مخلص ہیں تو ذرا معلوم تو کریں کس فارم میں کتنی سبزی کاشت ہوتی ہے ؟ اعظم سواتی ہی سے پوچھ لیں وہ ہر ماہ کتنے کلو بھنڈی توری اور کتنے کلو کدو اور بینگن مارکیٹ میں بھیجتے ہیں۔
پشتون ایکشن کمیٹی کا یہ ایک جرگہ تھا جو اعظم سواتی کے عتاب کا نشانہ بننے والے خاندان سے ملنے وہاں پہنچا ۔ اعظم سواتی کے محل کی فصیل کے ساتھ ساتھ کافی نیچے اتر کر ایک ڈیرہ تھا ۔ خیال آیا کہ یہی وہ گھر ہے جس کے بچے بچی اور ماں ابھی جیل میں ہیں ۔ لیکن معلوم ہوا یہ اعظم سواتی کے ملازمیں کا ڈیرہ ہے۔ غالبا یہی وہ ڈیرہ ہے جو اعظم سواتی نے ناجائز قبضہ کر کے بنا رکھا ہے اور جو کئی کنالوں پر مشتمل ہے ۔ آپ اس طبقے کے کمالات دیکھیے اتنا وسیع و عریض فارم کا مالک ہونے کے باوجود فارم کی فصیل سے باہر سی ڈی اے کے کئی کنال زمین پر نوکروں کا ڈیرہ بنا دیا ۔
سواتی صاحب ہی کے ملازم نے ہماری رہنمائی کی اور بتایا کہ جس کے گھر آپ جانا چاہتے ہیں وہ آگے ہے ۔ ہم اس گھر پہنچے تو عجیب سوگوار منظر تھا۔ کچے گھروندے ، صرف دو کمرے ، کسی کمرے میں کوئی چارپائی نہیں تھی ، بستر زمین پر پرے تھے ۔ تزئین و آرائس کی ایک ہی چیز ملی ، خوبصورت رنگوں میں کمرے کی دیوار پر بڑے حروف میں لکھا ہوا : ماشا ء اللہ ۔ ایک کونے میں تین فٹ کا ایک باورچی خانہ جس کی دیوار توڑ دی گئی تھی ۔ پریشان حال ایک آدمی اور سہمے ہوئے چند معصوم اور خوبصورت بچے ۔ کسی ایک کے پیروں میں جوتا دکھائی نہیں دیا ۔ یہ تھی وہ کل کائنات جس سے ایک وفاقی وزیر نے ٹکر لی ۔
ایک بچے پر نظر پڑی ۔ یہی چار سال کا ہو گا ۔ اس کے ماتھے پر زخم تھا، تازہ ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا اعظم سواتی کے لوگ جب گھر میں گھس آئے تو اسے بھی چوٹ آئی ۔ تفصیل پوچھی تو باپ کی آنکھیں بھر آئیں ۔ کہا اس کی ماں کو مار رہے تھے تو یہ چیخا اور ماں کی طرف بڑھا انہوں نے دھکا دیا تو یہ گر گیا ۔ ہماری خواتین نے تو کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا تھا اعظم سواتی نے انہیں جیل بھجوا دیا ۔ ہماری چھوٹی سی بیٹی کو جیل بھجوا دیا ۔ کیا یہ ہے عمران خان کا پاکستان؟
یہ سوچ کر کہ یہ آدمی شاید مبالغہ کر رہا ہو میں نے ایک بچی کو پاس بلایا اور کہا بیٹا آپ بتاؤ کیا ہوا تھا ۔ بچے کہانی بنا سکتے ہیں نہ اہتمام سے جھوٹ بول سکتے ہیں ۔ اس بچی نے جو سنایا اور جس طرح سنایا وہ میں نہیں لکھ سکتا ۔ جناب چیف جسٹس اس بچی کو بلا لیں اور بھری عدالت میں اس سے پوچھ لیں کیا ہوا تھا تو ایک المیہ وہاں بیان ہو گا ۔ اس ملک میں طاقتور طبقے نے ریاست کو اپنی جاگیر اور ریاستی وسائل کو مال غنیمت سمجھ رکھا ہے۔بستی سے دور ویرانے میں یہ گھر تھا ۔ مکینوں کا کہنا تھا ہم سترہ ہزار ماہانہ کماتے ہیں ۔ کرائے کا گھر نہیں لے سکتے نہ بجلی کے بل دے سکتے ہیں ۔ بچوں کو پڑھا رہے ہین اور یہاں سر چھپا کر بیٹھے ہیں ۔ ہمیں بار بار اعظم سواتی کے لوگ یہ جگہ چھوڑنے کا کہتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں ۔ہم کہاں جائیں ؟ ایک مقامی آدمی نے بتایا کہ اعظم سواتی نے اپنے فارم کے علاوہ سی ڈی اے کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ اب وہ مزید آگے اس قبضے کو لے جانا چاہتے ہیں اور بیچ میں یہ گھر آ رہا ہے ۔ یہ گھر اٹھ جائے تو ان کا قبضہ مزید بڑھ سکتا ہے ۔ ہو سکتا ہے مزید قبضے کی بات محض بد گمانی ہو مگر اس کے علاوہ ایک وفاقی وزیر کا ایک غریب سے کیا جھگڑا ہو سکتا ہے؟
شام ہو چکی تھی ۔ بچوں کیماں کی ضمانت ہو چکی تھی مگر وہ ابھی گھر نہیں پہنچی تھیں ، ا نہیں لینے لوگ گئے ہوئے تھے۔ بچے اپنی ماں کے منتظر تھے۔ ماحول کے تناؤ کو ختم کرنے کے لیے میں نے کہا وہ گائے تو دکھائیے جس نے وفاقی وزیر کو ناراض کر دیا ۔ معلوم ہوا کہ وہ گائے ابھی تک اعظم سواتی کے قبضے میں ہے۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ ملک میں شور مچا ہے ، سپریم کورٹ نوٹس لے چکی ہے ، حکومت کی عزت داؤ پر لگ چکی ہے اور اعظم سواتی کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک گائے اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے۔ کیا یہ ہے قانون کی حکمرانی ؟ برادرم شہر یار آفریدی کہاں ہیں؟
“