خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کو حال ہی میں بین الاقوامی سطح پر شہرت اس وقت ملی، جب جنوبی کوریا سے آئے ہو ئے بدھ مت کے پیروکاروں نے اسے جنوبی کوریا کےYeonggwang یونگ وانگ شہر کی ’سسٹر سٹی‘ یعنی ہمشیرہ شہر کا نام دیا۔
اس اعزاز کی وجہ صوابی کے مختلف علاقوں سے دریافت کیے جانے والے بدھ مت سے تعلق رکھنے والے آثار قدیمہ کے نوادرات بتائے جاتے ہیں۔ صوابی کے مختلف علاقوں سے ملنی والے آثار قدیمہ کے نوادرات اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صوابی اور بدھ مت کابہت گہرا رشتہ رہا ہے۔ اس بارے میں ’ہنڈ میوزیم‘ کے انچارج محمد آصف رضا کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا اور دوسرے ممالک کے بدھ مت کے پیروکار اکثر ’چھوٹا لاہور‘ جس کا پرانا نام سلاتورہ ہے، میں سیاحت اور عبادت کے لیے آتے ہیں۔ ان کے بقول اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔
”سنسکرت زبان کی گرامر کے بانیوں میں سے ایک کا نام پانینی تھا وہ چھوٹا لاہور کا باشندہ تھا، اس کی وجہ سے یہ علاقہ اہمیت کا حامل ہے اس لیے وہ (کوریائی) لوگ یہاں آتے ہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں بدھ مت کا بہت بڑا سٹوپہ تعمیر ہواتھا اور تیسری وجہ یہاں کی اہمیت کی یہ ہے کہ ان کا (بدھ مت کے پیروکاروں کا) ایک پیغمبر تھا جو اس مذہب کو یہاں سے وہاں لے کر گیا تھا، پنیرات اس کا نام تھا اور وہ بھی چھوٹا لاہور کا رہنے والا تھا تو ان وجوہات کی وجہ سے بھی جو بدھ مت کے پیروکار ہیں ان کے لیے یہ ایک مقدس مقام ہے۔ “
محمد آصف نے ہنڈ میوزیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں پر بہت سے اقسام کے نوادرات موجود ہیں لیکن حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کو کچھ ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے، جن سے یہ علاقہ بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی توجہ حاصل کرے۔
بیس سالوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد صوابی ہی میں واقع عزیز ڈھیر ی کے مقام پر پاکستان میں تیسرا بدھ مت سٹوپہ دریافت کرلیا گیا ہے جو تیسری صدی بعد ازمسیح سے متعلق بتایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پہلا سٹوپہ سال 1931 میں ایک انگریز ماہر سرجون مارشل نے ٹیکسلا میں دریافت کیاتھا۔ اس کے بعد 1948 کے دوران سوات میں دوسرا سٹوپہ دریافت ہوا تھا۔ ان دونوں سٹوپوں کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر شہرت ملی۔ اب حال ہی میں صوابی ہی کے علاقے عزیز ڈھیری سے پاکستان کا تیسرا سٹوپہ دریافت ہوا ہے۔ ڈاکٹر نعیم قاضی یہاں آثار قدیمہ ڈھونڈنے کے عمل کی نگرانی کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ ایک عظیم الشان شہر تھا اور یہاں لاتعداد عبادت خانے مو جود تھے۔ ’’حالیہ کھدائی کے دوران 309کے قریب سکے اور 105 تک مہریں اور دوسرے مجسمے ملے ہیں‘‘۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقوں اور افغانستان میں بدھ مت کے بہت سے آثار موجود ہیں
ان کا کہنا ہے کہ یہاں آثار قدیمہ کی تلاش کا معاملہ تحقیق کے طالب علموں کے لیے بہت اہم ہے۔ ان کے بقول آثارقدیمہ کی دریافت سے پاکستان میں سیاحت کے شعبے کو بھی فروع ملے گا اور جنوبی کوریا جیسے ممالک سے سیاحوں کی آمد ان حالات میں حوصلہ افزا ہے۔ ڈاکٹر نعیم قاضی کی نظر میں اس دریافت کی درست طریقے سے دیکھ بھال نہیں کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’یہاں دو تین چیزوں کا بہت بڑا خطرہ ہے، بارش کا پانی نیچے چلاجاتا ہے اور جذب ہوجاتا ہے وہ ان آثار کو نقصان پہنچا رہا ہے، اس کے علاوہ دیمک بھی اس کو نقصان دے رہا ہے“۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ آثار نہ صرف صوابی شہر بلکہ پورے پاکستان کی تاریخی اہمیت کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرسکتے ہیں۔
رپورٹ: دانش بابر، صوابی
ادارت: شادی خان سیف سرچ میاں علی نواز مدے خیل
“