جس تانیثی فکر کی نقش گری کا آغاز ادا جعفری ، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید
پروین شاکر اور فاطمہ حسن وغیرہ سے ہوا تھا وہ آج ایک مضبوط حوالہ بن چکی ہے
زہرا نگاہ اردو شاعری کا ایک معتبر حوالہ ہیں، ان کی تخلیقات میں پیچیدہ
اور تیزی سے بدلتی دنیا کے متنوع مسائل کا نفیس اسلوب میں اظہار ملتا ہے
اردو نظم کے تانیثی تناظر نے ادب کے بے رنگ خاکے کو بہا ر کے رنگوں سے مزین کیا ہےجہاں ن م راشد اور میرا جی نے نظم میں ہیئت کے تجربے کیے تو وہیں زاہد ہ خاتون شروانیہ نے نظم کو نسائی اظہار کا ذریعہ بنایا
فرد کا سماجی نظریہ اُن تجربات سے تشکیل پاتا ہے جو اس نے گزارے ہیں۔ عورت جس طرح زندگی کو دیکھتی اوربسر کرتی ہے وہ مرد سے مختلف ہے اس طرح عورت کا زمانی احساس بھی مختلف ہے۔ اس کے باوجود دنیا کو ایک طویل عرصے تک
Androcentric Lens (مردانہ زاویہ نگاہ) سے ہی دیکھا جاتارہا۔ تانیثی نقطہ نظر ان سماجی مسائل کو اجاگر کرتا ہے جو پہلے سے موجود سماجی نظریات کے ذریعے اکثر نظرانداز یا غلط شناخت کیے جاتے ہیں۔ فیمنیسٹ تحریک نے عورت کی ذات سے گریز کے شعار کو رد کیا اور اثباتِ ذات کی جانب پیش قدمی کی۔ اس پیش قدمی کے دوران خواتین جن حالات سے گزریں جس نفسیاتی دباؤ اور کش مکش سے نبرد آزما ہوئیں وہ سب ان کی نظموں میں استعاراتی صورت میں ڈھل کر ہمارے سامنے آیا۔
اردو نظم جس کے ابتدائی نقوش قلی قطب شاہ کے دیوان میں ملتے ہیں اس نظم کو نظیر اکبر آبادی نے گنگا جمنی تہذیب کا آئینہ بنادیا ۔ نظیر کی نظمیں اپنے عہد کے مجموعی مزاج سے بالکل الگ ایک نئی روایت کی حامل ہیں۔تنوع اور رنگا رنگی کے لحاظ سے نظیر اکبر آبادی کا کلام آج بھی بے مثال ہے۔حالی اور آزاد نے نظم کو جدت اور موضوعات کی وسعت عطا کی ،اقبالؒ نے اردو نظم کو فلسفیانہ فکر سے روشناس کیا ان کی نظم نگاری غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔ جہاںن م راشد اور میرا جی نے نظم میں ہیئت کے تجربے کیے تو وہیں زاہدہ خاتون شروانیہ(1894-1922 (نے نظم کو نسائی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے نہ صرف خواتین بلکہ ہر اس طبقے کے حق میں آواز بلند کی جس کا استحصال ہورہا تھا۔ان کی نظموں میں اپنے عہد کی ترجمانی کے ساتھ ان خدشات کا طنزیہ اظہار بھی ہے جو مردوں کوخواتین کی تحریک کے حوالے سے لاحق تھے:
ان کو رہ رہ کے ستاتا ہے یہ بے اصل خیال
گھر میں پڑھ لکھ کے خواتین کا رکنا ہے محال
کہیں اٹھے نہ مساوات کا غم خیز خیال
کہیں ہو جائے نہ مردوں کی حکومت کا زوال
یہ مجموعی طور پر برصغیر پاک و ہند کے معاشرتی مائنڈ سیٹ کی ایسی تصویر ہے جو معمولی سی کمی بیشی (مثبت و منفی) کے ساتھ آج بھی جوں کی توں ہے۔ کہا یہ جا تا ہے کہ دنیا مریخ پر جا پہنچی ہے اور مابعد تانیثیت کے عہد میں تانیثیت تو قصہ پارینہ بن چکی ہے۔
consciousness false میں زندہ رہنے والا سماج عورت کو سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے والی entity کی حیثیت ہی نہیں دیتا ، ایسے میں عورت کو درپیش مسائل کا بھرپورادراک کجا۔
اردو کی نظم گو شاعرات کی تخلیقات میں سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا ادراک موجود ہے۔ ان شاعرات نے اپنی نظموں کو حیات کے کسی ایک پہلو تک محدود رکھنے کے بجائے حیات و کائنات کی متنوع کیفیات سے آراستہ کیا ہے ان کی شاعری ذاتی کیفیات کی ترجمانی سے لے کر عہد حاضر کے تمام معاشرتی، سیاسی اور عالمی حالات و واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اردو کی ان نظم نگار شاعرات نے ملکی و عالمی مسائل کو نئے زاویے سے اپنی نظموں میں پیش کیا۔ زندگی کی حقیقتوں پر نظر ڈالنے سے خود بینی وجہاں بینی کا ایک نیا انداز وجود میں آیا۔ حالات کے کرب کو اِن شاعرات نے جس لب ولہجہ و انداز کے ساتھ اپنی نظموں میں سمویا وہ بے مثال ہے۔خواتین نے نہ صرف اپنی تخلیقات کے معرفت اپنے مشاہدات، تجربات، احساسات کاکھل کر اظہار کیا بلکہ ان کی تحریروں کی وساطت سے اردو زبان و ادب کو جو تقویت ملی وہ اردو کی ادبی تاریخ کاناقابل فراموش حصہ ہے۔
جس تانیثی فکر کی نقش گری کا آغاز ادا جعفری ، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید ،زہرا نگاہ، پروین شاکر، فاطمہ حسن وغیرہ سے ہوا تھا وہ آج ایک مضبوط حوالہ بن چکی ہے۔ادا جعفری کا پہلا مجموعہ 1950 میں شائع ہوا۔ان کے کلام میں فرسودہ روایات سے بغاوت کا مجموعی رجحان موجود ہے۔جذبے،زبان و بیان کی لطافت اور نسوانی احساسات کا منفرد امتزاج ان کے کلام خاصا ہے. نظم "آشوب آگہی ” ملاحظہ کیجیے:
جیسے دریا کنارے
کوئی تشنہ لب
آج میرے خدا
میں یہ تیرے سوا اور کس سے کہوں
میرے خوابوں کے خورشید و مہتاب سب
میری آ نکھوں میں اب بھی سجے رہ گئے
میرے حصے میں کچھ حرف ایسے بھی تھے
جو فقط لوح ِجاں پر لکھے رہ گئے
اکیسویں صدی کے پاکستانی ادبی منظر نامے میں اگر ہم یہ کہیں کہ کشور ناہید اور تانیثیت مترادف ہیں تو یہ کچھ غلط ہو گا کیونکہ کشور ناہید نے جس تانیثی فکر کا اظہار و پرچار کیا وہ مغرب سے مستعار نہیں بلکہ indigenes (سو دیشی )ہے وہ اپنی شعری اور نثری تحریروں میں ان تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہیں جن سے آج کی عورت دوچار ہے۔کشور ناہید کی نظم” نور مقدم کی روح کا بیانیہ ” در حقیقت اخلاقی طور پر انحطاط پذیر سماج کا نوحہ ہے۔
زہرا نگاہ اردو شاعری کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ ان کی تخلیقات میں پیچیدہ اور تیزی سے بدلتی دنیا کے متنوع مسائل کا نفیس اسلوب میں اظہار ملتا ہے۔ مثال کے طور پر نظم "سناہے” کے چند مصرعے ملا حظہ کیجیے:
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھائوں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
خداوندا!جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر
عذرا عباس نے اردو نظم کونئی وسعتوں سے روشناس کیا۔’’نیند کی مسافتیں’’،’’میز پررکھے ہاتھ ‘‘اور’’حیرت کے اس پار‘‘ ان کے چند شعری مجموعے ہیں۔ عذرا کی کلیات "اداسی کے گھائو” کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے۔ان کی نظم :” ایک زندگی اور مل جائے ” کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے:
پہلے ہم زندگی کو ٹکڑوں میں
تقسیم کرتے ہیں
اور پھر
ان ٹکڑوں کو رکھ
کر بھول جاتے ہیں
زندگی گزر جاتی ہے
اور گزرجانے کے بعد
ٹکڑے آپس میں مل جاتے ہیں
یا کوئی دوسرا انہیں جمع کر لیتا ہے
شاہدہ حسن کی نظموں میں عورت کو زندگی بھر جو سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں ان سمجھوتوں کی خلش کا میچور اظہارموجود ہے۔ یاسمین حمید عورت کے مسائل کی فلسفیانہ تفہیم کر تی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی نظمیں ’’کشف "،’’ اسی فطرت میں روشن ہیں” اور’’تنہائی کا وعدہ‘‘ بہت اہم ہیں۔ شاہین مفتی کی شاعری تانیثی حوالے سے اہم ہے۔ وہ ملکی مسائل کو اپنی نظموں کا موضوع بناتی ہیں۔ دہشت گردی اور بم دھماکوں کے حوالے سے ان کی نظم "آخری دن سے ذرا پہلے ” معاشرے کے اجتماعی درد کی تصویر ہے۔ سیما غزل، تنویر انجم ،حمیدہ شاہین ، رخشند ہ نوید ،نوشی گیلانی، عنبرین حسیب عنبر ، مہ جبین غزل، راحت زاہد،ریحانہ قمر،صدف مرزا، سدرہ سحر،فاطمہ مہرو اور سدرہ افضل وغیرہ کے کلام میں تانیثی زاویے سے پورے سماج کے مسا ئل اور الجھنوں کو موضوع بنا یا گیا ہے جسے سمجھنے اور دیکھنے کے لیے ’’ہائپر ریئلٹی ‘‘سے باہر نکلنا ہوگا۔
خواتین قلم کاروں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے ہمارے معاشرے کی تمام تر پیچیدگی اور پابندیوں کے باوجود اپنے محسوسات و فکر کا اظہار کیا۔اردو ادب کی تاریخ اہل قلم خواتین کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔خواتین نے ادب کی ہر صنف پر قلم اٹھایا اور اسے خوب نبھایا۔ان نسائی تحریروں نے ادب کے بے رنگ خاکے کو بہا ر کے رنگوں سے مزین کیا ہے۔خواتین شاعرات کی نظموں میں عصری شعور کے ساتھ ساتھ تانیثی رجحانات بہت واضح ہیں جو جدید اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔آ خر میں کشور ناہیدیہ نظم دیکھئے۔
گھاس بھی مجھ جیسی ہے
پاؤں تلے بچھ کر ہی زندگی کی مراد پاتی ہے
مگر یہ بھیگ کر کس بات گواہی بنتی ہے
شرمساری کی آنچ کی
کہ جذبے کی حدت کی
گھاس بھی مجھ جیسی ہے
ذرا سر اٹھانے کے قابل ہو
تو کاٹنے والی مشین
اسے مخمل بنانے کا سودا لیے
ہموار کرتی رہتی ہے
عورت کو بھی ہموار کرنے کے لیے
تم کیسے کیسے جتن کرتے ہو
نہ زمیں کی نمو کی خواہش مرتی ہے
نہ عورت کی
میری مانو تو وہی پگڈنڈی بنانے کا خیال درست تھا
جو حوصلوں کی شکستوں کی آنچ نہ سہہ سکیں
وہ پیوند ِزمیں ہو کر
یوں ہی زور آوروں کے لیے راستہ بناتے ہیں
مگر وہ پر کاہ ہیں
گھاس نہیں
گھاس تو مجھ جیسی ہے!