ملک میں خواتین کی حالت زارکچھ موزوں نہیں رہا۔مگرکہانی80کی دھائی اورضیاالحق سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔بلکہ اسکی بنیادقیام پاکستان کیساتھ رکھی گئی۔11اگست1947کی تقریرمیں قائد نے سیکولر ریاست کے خدوخال بیان کئے۔مگراسکی نفی قائدنےخود20اکتوبر1947کوکردی تھی۔اسکی وجہ قائدکی ناکام کشمیرپالیسی تھی۔
10دسمبر1947کوAPPنےخبردی آل انڈیامسلم لیگ کا نام بدل کرنیشنل لیگ رکھاجارہا ہے۔13دسمبر1947کوکراچی میں لیگ کااجلاس ہوا۔نیشنل لیگ کا مقصد ایک سیکولر جماعت کا قیام تھا۔مگراس تجویزکی مخالفت کی گئی۔لیگی راہنماؤں کے بقول نیشنل لیگ کاقیام دوقومی نظریہ کی نفی ہے۔اب اس نظرئیے کوچھوڑنا ممکن نہیں۔
21مارچ1948کو ڈھاکہ میں قائد کے خطاب کے بعد اسلامی نظام کا زور پکڑ گیا۔تقریر میں قائد نے اسلامی نظام کو پاکستان کی بقاقراردیااور اردوکوقومی زبان۔اس تقریرکےبعداسمبلی کےاندراورباھرعلماء حضرات کےخواتین پرحملے بڑھ گئے۔عبدالستارنیازی نےپنجاب اسمبلی میں موجودخواتین اراکین پررکیک حملے کئے۔
علماءحضرات کےبقول جوخواتین پردہ نہیں کرتی ہیں۔وہ سب طوائفیں ہیں۔علماءکےجواب میں خواتین نے3اپریل1948 کولاھورمیں اجتماع منعقدکیا۔جسکی صدارت بیگم رعنالیاقت نےکی۔جس میں قراردادکےزریعےاسمبلی میں عورتوں کیخلاف غیرپارلیمانی زبان کی مذمت کی گئی۔یہ پاکستان کاپہلا خواتین مارچ تھا۔
بیگم رعنالیاقت کےبقول تحریک پاکستان کےدوران ہمیں کہاجاتاتھاباھر نکلو،مظاھرےکرو،جیل جاؤ۔اب جب ملک بن گیاتوکہاجارہاہےبرقع کرو۔15اپریل1948کواپنےایک انٹرویو میں رعنالیاقت نےکہامردوں کوحق نہیں کہ خواتین کی زندگی مفلوج کریں۔اگرحکومت نےپردہ کولازمی قراردیا تووہ اسکونہیں مانیں گی۔
پاکستان میں خواتین کوپردےکرانےکی تحریک نےآغازمیں ہی زورپکڑلیاتھا۔27 اگست1947کواحراری راہنماصاحبزادہ فیض الحسن نےشیخوپورہ میں خطاب کرتے ہوئےکہا"بیگم لیاقت علی اورپاکستان کی وہ ساری خواتین جوپردہ نہیں کرتی ہیں وہ رنڈیاں ہیں۔"فیض کیساتھ ستارنکازی اس کاوش میں پیش یش تھے۔
عبدالستارنیازی نےمحمدشفیع کیساتھ ملکرخلافت گروپ تشکیل دیا۔جسکےمنشورمیں یہ بات لکھی شرعی نظام کےبعدحکومت کوزوجہ اندوزی کی طرف توجہ دینی چاھیے۔پاکستان میں بسنےوالےہندوؤں،سکھوں اوردیگراقوام سےفالتوعورتیں چھین لی جائیں۔ہرمردکو4بیویاں رکھنےکاحکم دیاجائے۔اس سےاقلیتوں میں تشویش بڑھی۔
پنجاب میں1950کےآغازمیں بیگم رعنالیاقت کیخلاف اتنےپروپگنڈہ ہواکہ وہ بدنام زمانہ ہستی قرارپائیں۔امریکہ روانگی سے3ہفتےپہلےاپواءکامشاعرہ ہوا۔جس میں خواتین شریک ہوئیں۔انکےلباس پراعتراض ہوا۔19اپریل1950کوخواتین کاہاکی میچ ہوا۔لڑکیاں نےسکرٹ پہن رکھےتھے۔جس پرباقاعدہ احتجاج ہوا۔
اپریل1950میں خلافت پاکستان نے پفلٹ جاری کیا۔جسکےمطابق پاکستان کی لاج رکھنی ہےتواینگلوانڈین نوابوں کونکالاجائے۔پفلٹ میں لیگی قائدین اورانکی بیگمات پررکیک حملےکئے۔اسی دوران پردہ لیگ کاقیام عمل میں آیا۔اسی عرصےمیں انجمن غیرت اسلام قائم ہوئی۔جس نےبےپردہ عورتوں کےبال کاٹنےشروع کرديئے۔
ستمبر1948میں خانیوال میں ہیبت ڈاہاکےزیرانتظام جلسےسےپیرمانگی اورستارنيازی نےخطاب کیا انہوں نےاسلامی نظام کامطالبہ کیا۔خواتین کوپردہ کرنےاورگھررھنےکاکہا۔ہیبت ڈاہانےعدالت میں پٹیش دائرکی تھی لیگ نےاسلام کےنام پرلوگوں کوگمراہ کرکےووٹ حاصل کئے۔اسکےخلاف کاروائی کی جائے۔
اپریل،جولائی اوراگست1950میں تعلیمات اسلامیہ بورڈنے3رپورٹیں پیش کیں۔جسکےمطابق اسلام میں عورت کااصل کام یہی ہےاپنےگھرکاانتظام کرے۔بچوں کی پرورش کرے۔اگرہنگامی حالات کےپیش نظرباھرنکلناپڑےتونمودنمائش اورخوشبولگانےسےپرہیزکیاجائے۔اگر اسمبلی کی رکن بنےتواسکی عمر50سال ہواورپردہ کرتی ہو۔
قیام پاکستان کےابتدائی برسوں میں نوائےوقت نےاسلام پسندوں کاکھل کرساتھ دیا۔یہاں تک کہ اخبارنےقائدسےمطالبہ کیاوہ اپنےوعدےکےمطابق پاکستان میں اسلامی نظام نافذکریں۔اس بات کی تائیدمولانا مودودی نےکی تواخبارنےانکوہیروبنادیا۔نوائےوقت میاں افتخارکےاخبارکیخلاف کام کرتاتھا۔
12جنوری1951کوتمام مکاتب فکرکےنمایاں علماءنےاسلامی دستورکاخاکہ پیش کیا۔اس کمیٹی کی قیادت سلیمان ندوی نےکی۔آئین کےمطابق ملک کاسربراہ باشرع مسلمان مردہی ہوسکتاتھا۔اس کمیٹی میں سلیمان ندوی،مفتی محمدشفیع،مفتی جعفرحسین،مولاناظفرانصاری،پروفیسرعبدالخالق اورمولانامحمدمظہرشامل تھے۔
1951میں فوج کےاندرلیاقت علی کیخلاف بغاوت ہوئی۔یہ بغاوت لیاقت کی پالیسزکیخلاف تھی۔مگرعلماءنےاسےقادیانیوں کی سازش قراردیا۔انکےبقول سازش کامرکزی کردارجنرل نذیرقادیانی تھا۔علماءنےوزیراعظم سےسخت ایکشن کامطالبہ کیا۔1951میں پنجاب کےصوبائی الیکشن ہوئے۔مذھبی جماعتوں کوشکست ہوئی۔
اکتوبر1951کولیاقت علیخان قتل ہوئے۔انکےمبینہ قاتل سیداکبرکےگھرکی تلاشی لی گئی تووہاں ان اخبارات کےتراشےملےجورعنالیاقت کیخلاف تھے۔اسلام پسندرعنالیاقت کواسلامی نظام کےراستےمیں رکاوٹ سمجھتےتھے۔لیاقت کےقتل کی ایک وجہ یہ بھی قرارپائی۔پہلےوزیراعظم کےقتل میں مذھب اہم محرک ٹھہرا۔