عالمی خواتین کا دن تقریا” ایک سو سالوں سے تواتر سے منایا جارہا ہے۔اس دوران دو عالمی جنگوں سمیت کئی علاقائی مناقشوں ، وبائی امراض ،ناگہانی آفتوں اور قحط سالیوں کے نتجے میں جو جو دکھ و درد کا سامنا انسانیت نے کیا اس کا سب سے بڑا بوجھ خواتین اور بچوں کو اٹھانا پڑا۔ان معاملات سے نمٹنے کیلئے بنی نوع انسان کو اپنی زندگی کی معمولات میں کئی تبدیلیاں لانی پڑیں جس کے نتیجے میں معاشروں میں نئی جہتیں در آئیں۔1908 میں خواتین میں بدلتی زندگی کے ساتھ ہم سفر ہونے کے سامنے دشواریاں آنے لگیں۔ عورت کو ماں ، بہن اور بیٹی جیسے لطیف احساسات کے باوجود یہ احساس جانگزین ہونے لگا کہ جس برق رفتاری سے دولت کا ارتکاذ چند لوگوں کے پاس ہونے لگا ہے ۔اسی رفتار سے باوجوہ غربت انسانی رشتوں کا احساس بھی کمزور ہوتا جارہا ہے ۔ان کے نزدیک عورت کو بطور جنس کے جس برتاو کا سامنا صدیوں کے جاگیردارنہ نظام سے چلاآرہا ہے اس پرصنعتی انقلاب نے مرہم نہیں رکھا ۔ بلکہ عورت گھروں، کھیتوں، اور کارخانوں میں ان ہی ناہموار رویوںسے زندگی بسرکر رہی ہے۔گوکہ یہ روئیے اپنا ایک ماضی رکھتے تھے مگر نئے صنعتی دور میں شعور کا ارتقا اس تاریخی پس منظر کو سمیٹنے کی بجائے اس میں شدت لارہا ہے۔چنانچہ 15000 خواتین نے 1908 میں امریکہ کے شہر نیویارک میں پہلی دفعہ کاموں کے اوقات میں تخفیف ، مناسب تنخواہوں اور ووٹ کے حق کیلئے ہڑتال پر نکلیں۔ اگلے سال 1909 کو امریکن سوشلسٹ پارٹی نے پورے امریکہ میں 28 فروری کو خواتین کا دن منایا۔یہ دن بعد میں 1913 تک فروری کے آخری اتوار والے دن کو منایا جاتا رہا۔
دوسری طرف یورپ میں بیداری کی لہر چل نکلی چنانچہ 1910 کو عالمی سطح پر ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں کام کرنے والی خواتین کی کانفرنس منعقد ہوئی۔جس میں جرمن خاتون کلاراہیزن نے ہر سال عالمی دن منانے کا تصور پیش کیا۔اس پر ڈنمارک کی حکومت نے پہلی دفعہ خواتین کیلئے عالمی دن کو منظور کیا۔جس کی تقلید بعد میں آسٹریہ، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کی حکومتوں نے بھی کی۔
اسی سال دنیا میں دس لاکھ خواتین نے عورتوں کے ووٹ کے حق ، جمہوری عمل میں نامزدگیوں ، تربیتی مراکز کی سہولت، سرکاری ملازمتوں کے اختیارات سمیت بہترمواقع اور امتیازی سلوک کے خلاف بھر پور مظاہرے کیئے۔اس دوران نیویارک میں ایک آتشزدگی کے نتیجے میں 140 پناہ گزین اطالوی اور یہودی خواتین لقمہ اجل بن گئیں۔اس اندوہناک واقعے نے خواتین کی تحریک کیلئے مزید زمین ہموار کی۔چنانچہ خواتین نے اس موقع پر ایک مشہور سیاسی نعرہ عورت کو ” روٹی اور پھول” چاہیئں ناکہ بھوک اور نفرت کے روئیے سے برتا جائے۔ووٹ کے حق کے حصول کی مشہور سرگرم خاتون سیاسی ورکر “ہیلن ٹوڈ” نے اپنے جلسوں میں مشہور شاعر “جیمز اوپن ہیم ” کی نظم ” روٹی اور پھول” کا کلام گنگنا شروع کیا۔اس نظم نے خواتین کے جوش و جزبہ کو آسمانوں تک پہنچادیا۔ نعروں سے متاثر ہوکر مزدور، امریکن ٹیکسٹائل مل لارنس میں دومہینے تک کیلئے ہڑتال پر چلے گئے۔اس لیئے اگر خواتین کے حقوق کی تحریک کو مزدوروں کی تحریک سے نہ جوڑا جائے تو یہ حقائق کو چھپانے کی مترادف ہوگا۔
1914 میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو روسی خواتین نے 23 فروری کو پہلا عالمی دن اپنی سر زمین پر منایا۔چونکہ جنگوں سے سب سے زیادہ مشکلات بچے اور خواتین سہتی ہیں اسلیئے امریکہ، یورپ اور روس میں خواتین کا جنگ بدی کیلئے مظاہروں کا ناتھمنے والا سلسلہ چل پڑا۔چنانچہ 1917 میں روسی خواتین نے 20 لاکھ افراد کی جنگ میں ہلاکت پر چار دن کی مسلسل “روٹی اور پھول ” کے ہی نعرے پر ہڑتال کی۔بلاخر زار نے اقتدار چھوڑا اور پھر صوبائی حکومت نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا۔ اقوام متحدہ نے 1977 میں جنرل اسمبلی کی منظوری سے پہلی دفعہ تمام ممبر ریاستوں کو اپنے اپنے طور پر ہر سال خواتین کے حقوق کے طور پر یہ دن منانے کا اعلان کردیا۔ تاہم 1999 کو اس دن یعنی 8 مارچ کو یکساں طور پر پوری دنیا میں منانے پر اتفاق ہوا۔ اب یہدن خواتین کا عالمی سطح پر سماجی ، معاشی، برابری اور انصاف کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے۔ جن کے مقاصد میں صنفی مساوات کے بارے میں آگاہی اور معاشرے میں نسوانی فلاح کیلئے فنڈ اکٹھا کرنا بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ ہر سال کیلئے اس دن کی مناسبت سے ایک موضوع یعنی “تھیم” پوری دنیا کیلئے وضع کرتی ہے۔اس سال 2022 کیلئے اس کا عنوان ” تعصب کو توڑو” رکھا گیا ہے۔یہ تعصب ارادی یا پھر غیرارادی جس شکل میں بھی ہو وہ عورت کے آگے بڑھنے کی راہ میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔یہ جانناکہ صنفی عدم مساوات کا تعصب مردوں کے حاکمانہ طرزعمل میں موجود ہے۔کافی نہیں بلکہ اس کے خلاف اقدامات اٹھانا ضروری ہے تاکہ خواتین کو بھی برابری کا مقام مل سکے۔
خواتین کے دن کو 1908 سے ہی تین رنگوں جامنی ، سبز اور سفید رنگ کی قوس کی شناخت دی گئی جس میں جامنی رنگ انصاف اور وقار ، سبز رنگ امید اور سفید پاکیزگی کی نمائندگی کرتا ہے۔
چنانچہ 8 مارچ کو حتمی طورپر ہر سال خواتین کے حقوق کا عالمی دن اسلیئے ڈکلیر کیاگیا ۔ کیونکہ اسی دن 1917 میں روسی خواتین نے روس میں اپنے حقوق کی تحریک کو موثر انداز میں چلاکر اپنے بڑے احداف حاصل کیئے۔جس پر روسی حکومت نے عام تعطیل کا اعلان کیا۔
صنفی مساوات سے مراد تمام صنف رکھنے والے انسان ایک جیسی برابری کا استحقاق رکھتے ہوں۔ان کی ذمہ داریاں اور مواقعوں کی فراہمی بھی ایک جیسی ہو ۔انسان کو انسانیت کا شرف ،اس کی تقریم اور روزمرہ کے حقوق چھوٹے بڑے خاندان، عمر، عقیدے اور مختلف رنگ ونسل کی بجائے مساوات کی بنیاد پر ہونے چاہیئں۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو کم و پیش ایک جیسے مسائل کا سامنا خواتین کرتی آئی ہیں۔جن میں چند ایک درج زیل ہیں۔
1 خواتین کو ووٹ کا اختیار و آزادی
2 تولیدی مسائل اور اس سے جڑی مشکلات
3 چلنے پھرنے اورمناسب ماحول کے حقوق
4 صنفی مساوات
5 جنسی تعصب پر متششدانہ رویوں کا سامنا
6 کام کے دوران جنسی ہراسانی
7 دفتروں اور کام والی جگاہوں پر مرودوں کے مقابلے میں امتیازی سلوک
8 تعلیم کےحصول میں سماجی رکاوٹیں
9 روزگار کے حصول میں نابرابری
10 تولیدی صحت کی مشکلات اور اس سے متعلق حقوق
11 ماں کی صحت
12 خوراک، صاف پانی اور آلودہ ماحول کی پریشانی
13 بچپن کی شادیاں
پاکستان کا آئین اپنے آرٹیکل نمبر 25 اور 26 میں بچوں اور عورتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔اسی طرح آرٹیکل 27 برابری اور روزگار کے یکساں مواقعوں کو تحفظ دیتا ہے۔جبکہ آرٹیکل نمبر 11 اور 37 خواتین کی جبری ٹریفکنگ اور جسم فروشی کی ممانعت کرتا ہے۔
سالوں کے تجربے سے ثابت ہوا ہے جس دھیمی رفتار سے صنفی مساوات پر پیشرفت ہورہی ہے ورلڈ اکنامکس فورم کے تخمینے کے مطابق صحیح معنوں میں صنفی مساوات کے خاتمے میں کئی صدیاں لگ سکتی ہیں۔چند اہم مشکلات کی تفصیلات اسطرح ہیں
1 روز گار کی عدم فراہمی ؛ 190 ممالک میں سے صرف 6 ملکوں کی خواتین کو مردوں کے برابر قانونی حقوق حاصل ہیں۔بہت ساری معیشتوں میں صرف تین چوتھائی خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں۔اسٹڈیز بتاتی ہیں اگر روزگار کے یکساں مواقع دیئے جائیں تو جنسی عدم مساوات کی کمی پر مثبت اثرات پڑسکتے ہیں۔
2 تعلیم حصول میں ناہموار رویوں کا سامنا : پوری دنیا میں خواتین کو ابھی تک تعلیم کے مواقع کم میسر ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ایک چوتھائی جوان بچیاں 15 سے 24 سال کی عمر تک تعلیم حاصل کیئے بغیر اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔امنگوں اور توانائی سے بھرپور عمر کا یہ گروپ مجموعی دنیا کی خواتین کا 58 فیصد بنتا ہے۔ جو بنیادی علم کے بغیر زندگی گزارتا ہے۔اس طرح مجموعی ناخواندگی میں خواتین کا حصہ
مردوں کے مقابلے میں دوتھائی تک جاپہنچتا ہے۔
3 قانونی تحفظ کا فقدان ؛ پوری دنیا میں ایک ارب خواتین کو قانونی کی کمزور عملداری کی وجہ سے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔جس میں خصوصا” گھریلو تشدد ، جنسی زیادتی اور اس کے روک تھام میں عملی میکینزم کی کمی سر فہرست ہے۔یہ دونوں ایسے عوامل ہیں جس نے خواتین کو اعتماد سے ترقی کی طرف بڑھنے سے روک رکھا ہے۔ان ہی عوامل کی وجہ سے خواتین اسکولوں سے لیکر عوامی مقامات تک میں محفوظ نہیں رہتیں ۔جس کی وجہ سے وہ گھروں میں مقید ہوکر رہ جاتی ہیں اور اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر مفاہمت اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
4 اپنے جسم پر اختیار کی قدغن؛ خواتین کی اکثریت تو اپنے وجود کے تحفظ اور اس کی دیکھ بھال پر بھی اختیار نہیں رکھتیں۔خصوصا” جب وہ مائیں بنتی ہیں۔ اکثر بہت زیادہ بچوں کی پیدائش سے ماں تیزی سے صحت اور جسمانی توازن کھو دیتی ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق تقریبا” 20 کروڑ خواتین کو مانع حمل طریقے اپنانے کی اجازت نہیں ملتی۔جس سے 40 فیصد حمل بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے ہوجاتے ہیں۔ان میں سے 50 فیصد خواتین کو اسقاط حمل کرنے والی ہزیمت و کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔اور 38 فیصد خاندانوں کو ناچاہتے ہوئے بھی بچے پیدا کرنا پڑتے ہیں۔یہ سارا عمل ماں کو معاشی اور جسمانی مجبوریوں کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیتا ہے۔
5 عورتوں کیلئے مخصوص و محدود نوکری کرنے کی حد بندی؛
جنسی عدم مساوات کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین کے بارے میں تصور کرلیاجاتا ہے کہ ذمہ داری والا کام ان کی استعداد سے باہر ہے۔اس بنا پر اکثر کارخانوں اور دفتروں میں ان کیلئے ایسے شعبوں میں ملازمتیں مختص کی جاتی ہیں جہاں ان کی صلاحیتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔اس طرح اہم کاموں سے متعلق ان کو فیصلہ سازی سے باہر رکھا جاتا ہے ۔نتیجتا” ناصرف ان کا سروس کیریئر تباہ ہوجاتا ہے بلکہ وہ کم آمدنی والے شعبوں تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں جہاں تنخواہیں اور اوور ٹائم جیسے منفع بخش سرگرمیوں سے وہ محروم رہ جاتی ہیں۔
5 پاکستان کے پولٹیکل ڈھانچے میں عورت کا مقام:
الیکش ایکٹ 2017 میں عورتوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی ممانعت کو جرم قراردیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ الیکش کمیشن سیاسی جماعتوں کو بھی پابند کرتا ہے کہ وہ جنرل سیٹوں پر 5 فیصد ٹکٹیں خواتین کیلئے مخصوص کریں۔یہ اور بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں یہاں پر بھی خانہ پری کی خاطر ایسے علا قوں سے خواتین کی نامزدگی کرتی ہیں جہاں پر اس جماعت کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ایک اور صورت بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ وہ اپنے گھر کی سمجھ دار لڑکیوں کو اس لیئے بھی نظرانداز کرتی ہیں کہ اس طرح لڑکی کی شادی پرسیاسی وراثت کہیں لڑکی کے خاندان کے پاس نا چلی جائے۔
دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مختص سیٹوں پر بھی جماعتوں کے سرابرہ اپنے ہی خاندانوں کی خواتین کو نامزد کرتے ہیں تاکہ کابینہ اور سینٹ کی کرپشن میں بارگینگ پاور گھر میں ہی راز بنی رہے۔ اس وقت ملکی تناظر میں ورک فورس میں خواتین کی شراکت کا تناسب 22 فیصد ہے جس میں آفیسرز کی سطح 5 فیصدتک ہے۔ جوکہ بازات خود ہی کم تناسب ہے۔ اسمبلیوں میں بھی ان کی تعداد 5 فیصد ہی مقرر ہے ۔یہ تناسب کسی بھی حوالے سے اپنے ارد گرد کے جمہوری ممالک کے حوالے سے مطابقت نہیں رکھتا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ خواتین کی تعداد اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں 25 فی صد تک بڑھائی جائے۔ اس وقت بھی پاکستان دنیا میں خواتین کی اسمبلیوں میں نمائندگی کے اعتبار سے 160 ممالک کی فہرست میں سے 112 درجے پر کھڑا ہے۔ جوکہ تشویشناک حد تک عدم مساوات کی نشاندہی کرتا ہے۔
گلوبل جنڈر گیپ کی 2021 کی رپورٹ جس کو ورلڈ اکنامک فورم نے شائع کیا ہے۔ اس میں عدم مساوات اس سال پچھلے ادوار سے مزید کم ہوکر 55.6 فیصد تک گرگئی ہے۔اب پاکستان کی عالمی رینکنگ 2 درجے کم ہوکر یعنی 156 پر آگئی ہے۔اس اعتبار سے ہماری حالت صرف عراق،یمن اور افغانستان سے ہی کچھ بہتر ہے۔ یہ رپورٹ مزید بتاتی ہے ۔کہ 160 ممالک میں ہماری خواتین کی معاشی عدم مساوات کادرجہ 152, تعلیم میں 144, صحت عامہ 153 اور سیاسی اختیار میں محض 98 ہے۔ اس کو اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو جنوب مشرقی ایشیا کے آٹھ ممالک میں ہم
افغانستان کو چھوڑ کر آخری نمبر پر کھڑے ہیں۔ کوائف سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کو صنفی عدم مساوات ختم کرنے میں 136 سال لگ جائینگے۔ یہ اعداد شمار یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ خواتین معاشی طور پر غیر آسودہ ہیں۔اس غیر آسودگی کی وجہ انصاف کی عدم فراہمی ، جائیداد کی عدم ملکیت اور منافع بخش اثاثوں میں خواتین کی حصہ داری سے انکار خاندانوں کے اندر کی رکاوٹیں ہیں۔ایک اور تحقیق کے مطابق 85 فیصد خواتین کو زندگی میں ایک یا ایک زیادہ بار گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔بلوچستان کے کیس میں یہ اعداد مزید تکلیف دہ ہیں۔قبائیلی طرز معاشرت، عورت کی برابری میں ایک مستقل رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دو دھایئوں سے جاری شورش نے بھی اس فرق میں مزید اضافہ کردیا ہے۔پاکستان بھر کی خواتین میں خواندگی کا تناسب 52 فیصد ہے جبکہ بلوچستان میں یہ گھٹ کر 34 فیصد رہ جاتا ہے۔پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح ایک لاکھ میں سے 272 ہے جبکہ بلوچستان میں ان اموات کی تعداد تین گنا زیادہ یعنی 758 بنتی ہے۔یہ المناک صورت حال اس بات کی غماز کرتا ہے کہ بلوچستان میں ناصرف غربت زیادہ ہے بلکہ یہ خطہ اب کئی افریقی اور ایشیائی ممالک سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔ڈاکٹر مالک بلوچ کی مخلوط حکومت کے دور میں 2016 میں خواتین کے کام کی جگہوں پر ہراساں کرنے جیسے جرائم کی روک تھام کیلئے بلوچستان اسمبلی سے قانون سازی کی گئ تھی۔اس کے علاوہ تولیدی صحت کے تحفظ پر معمور 7265 ہیلتھ ورکرز کو ناصرف مستقل ملازمت کے آرڈر دئے گئے بلکہ ان کی مستقلی کے احکامات کو 2012 سے منظور کرکے واجبات بھی ادا کیئے گئے اور ان کو سروس سٹرکچر بھی دیاگیا ۔ 1500 بچیوں کو کمیونیٹی مڈ وائف کی تربیت دی گئی۔صوبہ بھر میں 5 مڈ وایئف اسکول کھولے گئے۔500 سرپلس پول میں رکھی فیمیل ڈاکٹرز کی پوسٹوں کا بجٹ منظور کرکے ان کو فیلڈ میں تعینات کیاگیا۔ویکسینیشن کا عمل جوابتر حالات کی وجہ سے رکا پڑا تھا اس کو واپس بحال کرکے مطلوبہ احداف پورے کیئے گئے ۔بچوں کو ماں کا دودھ پلانے اورآپسی شادیوں کی وجہ سے تھیلیسمیا جیسے مرض کو کنٹرول کرنے کیلئے پیشگی ٹیسٹ کی قانون سازی کی گئی۔ اہم تر بات یہ ہے کہ پہلی بار صوبے کے صحت کے بجٹ کو 4 فیصد سے بڑھا کر 8 فیصد کیاگیا۔پاکستان میں عموما” 1000 خواتین عزت کے نام سے قتل جیسے بھیانک تشدد کا سامنا کرتی ہیں جوکہ پوری دنیا کا پانچواں حصہ بنتا ہے ۔ان 1000 میں سے لگ بھگ 400 کا تعلق بدقسمتی سے ہمارے صوبے سے ہوتا ہے۔انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق ان 400 اموات میں 300 کے قریب خواتین ہوتی ہیں۔ اس پس منظر میں زمین اور دولت ہتھیانے، جبری رشتے کرنے اور قبائیلی رنجشوں جیسے جرائم کو بھی عزت کے لبادے میں چھپایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں عورت بے پناہ مسائل کا سامنا کررہی ہے اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں حوصلے، تدبر، دانا ، ایماندار اور ولولے بھرے خدا ترس راہنما کی ضرورت ہے وہ اس وقت ممکن ہوگا جب بہتر قانون سازی ہوگی اور اس پر عملدار کیا جاےگا۔ قانون سازی وہ کرے گا جس کو علم، خوف خدا، بیدارمغزاور آج کے تقاضوں کے مطابق معاملات کا ادراک ہوگا۔مگر بلوچستان میں ایسے قانون ساز سیاسی راہنماوں کو چننے کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں ۔یہاں انتخابات سے پہلے ٹھیکیداروں، اسمگلروں، بھتہ خوروں، جاگیرداروں، منشیات فروشوں اور بدنام زمانہ غنڈوں کی خاص مراکز میں لمبی لمبی میٹینگیں کی جاتی ہیں۔وہاں سے فہرستیں تیار ہوتی ہیں پھر انتخابات کی رات کو نتائج روک کر ان نمائندوں کے سروں پر ہما بٹھا دیا جاتا ہے۔ایسے میں یہاں کی خواتین کو عدم مساوات کا جن بھگانے میں 136 سال نہں 300 سال لگ سکتےہیں ناجانے کب تک یہاں کی بنت حوا الزام اور خوف کے ڈر سے زندگی گزارتی رہے گی۔
ختم شدہ