آج – 15/ نومبر 1951
دورِ جدید کے معروف شاعراور کہنہ مشق صحافی” خواجہ احسان الٰہی سہگلؔ صاحب “ کا یوم ولادت…
احسان سہگلؔ، 15 نومبر 1951ء کو ضلع لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لاڑکانہ ہی سے حاصل کی۔ اردو ادب میں ایم اے کیا اس کے علاوہ کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایک کہنہ مشق صحافی بھی ہیں اور ہمیشہ جمہوریت کی بالادستی کے لئے سرگرم رہے۔ 1978ء میں سیاسی کشمکش کے باعث نیدر لینڈ میں سکونت اختیار کرلی۔ سہگل صاحب کی پہلی کتاب ایک ناول تھی مگر بعد میں آپ کی شاعری کا مجموعہ منظر عام پر آیا جس میں زیادہ تر غزلیں موجود تھیں لیکن ساتھ ساتھ ربائی، نظم، قطعہ اور نعت پر بھی طبع آزمائی کی گئی تھی۔ آپ نے اخبار جہاں میں بھی کالم لکھے ہیں۔ ’’خوشی اور غم‘‘ کے نام سے آپ کا ناول 1968ء میں شائع ہوا اور شاعری مجموعوں میں ” شہرِ جذبات“،” پروازِ تخیل“،” اندازِ تخیل“،” سازِ تخیل“،” چراغِ درد“ اور” ضربِ سخن“ شامل ہیں۔
احسان سہگلؔ نے شاعری کی مختلف اصناف گیت، غزل، خمسہ، حمد، نعت اور منقبت پر طبع آزمائی کی ہے، بالخصوص ان کا دیوان ’’ضربِ سخن‘‘ علم و ادب کی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر احسان سہگلؔ کے یوم پیدائش پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین…
تو پورے شوق سے کر پوری بات اپنی
ترے قدموں میں رکھ دی ہے حیات اپنی
اسیر زلف بن کر کھو دی آزادی
اسیری میں نہ دن اپنا ،نہ رات اپنی
کہیں بہہ ہی نہ جائے اشک بن بن کر
ان آنکھوں میں ہے پنہاں کائنات اپنی
نچھاور کر دیا سب کچھ میں نے اپنا
وفا کر لے تو بھی تو کوئی بات اپنی
تُو اور کیا چاہتا ہے ہم سے اے فاتح
تری محفل میں ہار آئے حیات اپنی
مواقع تو بہت ملتے ہیں باتوں کے
نہیں ہوتی مکمل پھر بھی بات اپنی
زمانے کے ستم سارے تُو لکھ سہگلؔ
جھجک کیا ، ہے قلم اپنا ، دوات اپنی
✧◉➻══════════════➻◉✧
رات ہو کہ دن ہو وہ اشکبار رہتا ہے
شہر میں ترے بھی اک غمگسار رہتا ہے
منحصر ہے یہ سب کچھ اپنی گفتگو ہی پر
ٹھیک ہو زباں تو پھر زندہ پیار رہتا ہے
بے سلیقہ ہوتا ہے جو بھی ذات میں اپنی
بزم میں تری وہ ہی بے وقار رہتا ہے
اعتدال کے رستے پر چلا جو بھی راہی
اُس کا رابطہ سب سے استوار رہتا ہے
تُو چلا گیا میرے شہر سے، ہوئی مدت
ہے یہ دل کہ جو اب بھی بے قرار رہتا ہے
جھوٹ پر نہ ہو مبنی وعدۂ وفا تو دوست
دو دلوں میں پھر قائم اعتبار رہتا ہے
اس حیات میں آیا ہی نہیں کوئی سہگلؔ
پھر وہ کون ہے جس کا انتظار رہتا ہے
┅┈•✿ ͜✯ ━━━★ ★━━━✯͜ ✿•┄┅
عشق میں تڑپنے کی تب نظیر ہوتا ہے
دل کسی کی زلفوں کا جب اسیر ہوتا ہے
اور کسی کے بارے میں سوچتا نہیں ہے وہ
خواہشوں کا اپنی ہی جو اسیر ہوتا ہے
اور بھی حسیں ہوتے ہیں مگر مِرے نزدیک
یار میرا محفل میں بے نظیر ہوتا ہے
لوگ دوسرے تو تسلیم کرتے ہیں اُس کو
لیکن اپنوں ہی میں اپنا حقیر ہوتا ہے
سوچتا ہے جو اوروں کی بھلائی کا ہر دَم
اپنی ذات میں وہ ہی تو منیر ہوتا ہے
اپنی خامیاں کیسے دیکھے نکتۂ فن میں
شخص جو رسالے کا خود مدیر ہوتا ہے
وہ سمجھ نہیں سکتا آج کی نئی باتیں
اس لکیر کا سہگلؔ جو فقیر ہوتا ہے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
احسان سہگلؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ