آج سے کوئی پینتیس چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ ٹیلیویژن پر کوئی طویل دورانیے کا کھیل چل رہا تھا۔ نام یاد نہیں۔ کہانی تو اس کی بالکل ہی یاد نہیں بس کچھ اتنا یاد ہے کہ ڈرامے کی ہیروئن روحی بانو شاید کوئی مریضہ ہے اور ایک کمرے میں بند رہتی ہے۔ جب بہت زیادہ تنہائی ستاتی ہے تو وہ کچھ سوچنے لگتی ہے۔ اس کمرے میں ایک دروازہ ہے جس سے عام لوگ آتے جاتے ہیں لیکن ایک اور دروازہ ہے جسے کھول کر وہ کسی اور دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ اس کے خیالوں کی دنیا ہے۔
خیال کی دنیا کے یہ دروازے ہمارے ذہن کے کونے کھدروں میں بھی کہیں نہ کہیں موجود ہوتے ہیں۔ میرے لئے تو یہ دروازے بلکہ یہ خیالی دنیا سب سے بڑی نعمت ہیں۔ میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ۔ مجھے جو کچھ درکار ہے وہ مجھے اس دنیا میں مل جاتا ہے جس کا میں بلا شرکت غیرے مالک ہوں۔ جہاں میں جانا چاہوں، جہاں میں رہنا چاہوں، جس سے ملنا چاہوں ، جو کچھ میں کرنا چاہوں، مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ میری سوچ بھی میری اوقات سے زیادہ نہیں۔ میں کتنی بھی اچھی جگہ پر گھر بنانا چاہوں تو اپنے موجودہ گھر سے دوچار کمروں سے زیادہ نہیں بنا پاتا کہ مجھے اتنے بڑے گھروں کی ضرورت ہی نہیں۔ میری ہمت مدھوبالا، مادھوری ڈکشٹ یا کترینہ کیف کو اپنی شریک حیات بنانے کی نہیں ہوتی کہ میں خود بس آدمی کا بچہ ہوں اور شکل صورت واجبی سی ہے چنانچہ اپنے ہی محلے کی کوئی پھا تاں، نذیراں، بلو، ہاجرہ یا پینو ہی میری خیالی گھر والی بن پاتی ہے۔
لیکن بہرحال ملک خدا تنگ نیست ، یعنی میری خیالی دنیا میری ضرورت کے مطابق ہے۔ اور یہ دنیا میرے بچپن سے میرے ساتھ ہے۔میں نے اپنے آپ کو اس دنیا میں ہر من چاہے روپ میں دیکھا ہے۔ خواہشوں کا یہ سفر میرے ساتھ ساتھ ہی جاری ہے۔ آئیے آج اپنا دل کھول کر آپ کو بھی دکھادوں کہ میں نے کیا کیا کچھ بننا چاہا تھا ۔
یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ میرا ظہور پرنور عروس البلاد یعنی کرانچی شہر میں پچاس کی دہائی کے درمیانی برسوں میں ہوا تھا۔ لیاری جہاں میں نے آنکھ کھولی وہاں سے شہر آنے جانے کے لیے گیارہ نمبر کی بس چلا کرتی تھی۔ یہ بسیں وہ تھیں جو بس بنانے والی کمپنیوں کو بھی یاد نہیں کہ کب بنائی تھیں۔ جب یہ چلتی تھیں ( اور یہ کم ہی چلتی تھیں ، یا تو آدھے رستے میں کھڑی ہوجاتیں یا پھر مسافر اسے دھکا دے کر منزل مقصود تک پہنچاتے۔ اس صورت میں یہ زیادہ تیز چلتی تھیں) تو ان کے عقب میں دھویں کے گہرے سیاہ بادل ہوتے۔ ان کا جھکاؤ بائیں جانب ہوتا اور اکثر تو ان کے پائیدان سڑک چھو رہے ہوتے۔ بس کے نرخروں سے عجیب سی آوازیں آتیں لیکن یہ آوازیں اکثر بیچ راستے میں دم توڑ دیتیں۔
لیکن یہ نہ سمجھئیے کہ شہر کے دوسرے علاقوں میں کوئی بہت جدید اور تیز رفتار بسیں چلا کرتی تھیں ۔ شہر کے خوشحال ترین علاقوں یعنی ہاؤسنگ سوسائٹیز اور پی ای سی ایچ سوسائٹی، نرسری کے علاوہ پی آئی بی کالونی میں بھی چوہتر نمبر ، دس نمبر اور آٹھ نمبر کی نادر روزگار بسیں چلا کرتی تھیں جو کسی طرح گیارہ نمبر سے کم نہ تھیں۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ تو ہوا یہ کہ لیاری کی قسمت نے اچانک پلٹا کھایا اور یہاں کارپوریشن کی بسیں چلنا شروع ہوگئیں۔ یہ دراصل کے آر ٹی سی یعنی کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں تھیں جنہیں ہم پیار سے کارپوریشن کی بس کہتے تھے۔ اور کیوں نہ کہتے کہ یہ نویں نکور بسیں جن کا نچلا اور زیادہ تر حصہ سبز اور چھت پیلے رنگ کی تھیں اور جس میں دروازہ درمیان میں ہوتا تھا۔ یہ خوب اچھی لمبی چوڑی ، صاف ستھری اور آرام دہ بسیں تھیں۔ ان بسوں کے کنڈکٹر اور ڈرائیور اودے ( گرے) رنگ کی صاف ستھری وردی میں ہوتے۔ اور خاکسار کا دل ان کنڈکٹر وں پر بے طرح آگیا۔ دل میں کنڈکٹر بننے کی خواہش بری طرح مچلنے لگی۔
اب جیسے ہی اسکول اور گھر کے کام ( ہوم ورک) اور کھیل کود سے فرصت ملتی میں اپنے خیالوں کی دنیا میں کھو جاتا اور اپنے آپ کو اس اودے رنگ کی یونیفارم میں دیکھتا۔ اس کا سب سے متاثر کن حصہ وہ ہوتا جب میں ٹکٹوں کے چمڑے والے بستے میں ریزگاری کو چھناچھن تھپتھپاتے ہوئے، “ ٹکس،ٹکس” کی آواز لگاتا۔ حالانکہ بس کی اندرونی دیوار میں چھت کی جانب بس کا مکمل روٹ درج ہوتا جس کے ساتھ ہی ہدایات درج ہوتیں کہ “ ایک روپئے سے زاید ریزگاری نہیں ملے گی، میں گیٹ سے لٹک کر سول ہسپتال، لائٹ ہاؤس، بندر روڈ ، بولٹن مارکیٹ ، ٹاآرٹآر( ٹاور)ماڑی، ماڑی ( کیماڑی) کی آواز لگا رہا ہوتا۔ بس کے چلنے کے بعد دوڑتے ہوئے لٹک کر سوار ہونا مجھے انتہائی رومان انگیز لگتا۔
اور خوابوں کی دنیا کا سب سے قابل فخر حصہ وہ ہوتا جب میں اپنے ابا اور چچا وغیرہ کو بس میں دیکھتا اور جب وہ ٹکٹ خریدنے جیب کی جانب ہاتھ بڑھاتے تو انھیں منع کردیتا اور وہ ستائشی نظروں سے اپنے لال کی طرف دیکھتے جو اتنے بڑے عہدے پر فائز ہے کہ اس کے طفیل انھیں مفت سفر نصیب ہورہا ہے۔
کنڈکٹر کی زندگی کا یہ پر فسوں اور رومان پرور سفر جاری تھا کہ ہمیں ایک شادی میں شرکت کے لئے بمبئی جانا پڑا۔ ہم وہاں بھنڈی بازار کے پررونق علاقے میں ٹھہرے تھے جہاں ہمارے میاں بھائی منہ میں پان کی پیک لئے گھوم رہے ہوتے تھے۔ یہاں گھر کے قریب ایک پان والے کو دیکھا جو کسی چیز کی تلاش میں نیچے جھکا اور غائب ہوگیا۔ میں نے پنجوں کے بل اچک کر دیکھا تو اس کے کھوکھے کے نیچے ایک جانب خلا تھا اور نیچے اسٹور وغیرہ تھا۔ میں جب بھی اس دکان پر جاتا میری نظریں اس خلا کے نیچے کی دنیا کی کھوج میں ہوتیں۔ کچھ دنوں میں یہ بھی منکشف ہوا کے اسٹور کی ایک جانب ایک دری بچھی ہوئی ہے اور یہ اس پان والے کی کہ دنیا یعںی دکان اور مکان سبھی کچھ ہے۔
یہ سب مجھے بے حد متاثر کن لگا۔ اسی وقت فیصلہ کیا کہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد یعنی چوتھی پانچویں جماعت کے بعد گھر والوں سے کہہ دوں گا کہ اب میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔میرا بھی ایسا ہی پان کا کھوکھا ہوگا جس کے نیچے میرا گھر ہوگا۔ دراصل اپنے علیحدہ کمرے کی خواہش بچپن سے دل میں بسی ہوئی تھی ( یہ اور بات ہے کہ یہ خواہش آج تک پوری نہ ہوئی، بچپن، لڑکپن میں بہن بھائیوں کو اور دوران ملازمت روم میٹ کو ساجھی دار بنانا پڑا اور جب خود مختار یعنی شادی شدہ ہوئے تو بیگم بھی کمرے میں آبراجیں)۔
کراچی واپسی پر بھی بہت دن پان کی دکان کا خمار چھایا رہا۔ پھر یوں ہوا کہ ہم لانڈھی کالونی منتقل ہوگئے۔ یہاں کچھ نئے کوارٹرز اور مارکیٹ وغیرہ بن رہے تھے۔ ابا اس ٹھیکیدار کے ساتھ کام کرتے تھے جو یہ کوارٹرز اور مارکیٹ بنوا رہا تھا۔ ابا اس کام کی نگرانی کررہے تھے۔ میں بھی کبھی کبھار وہاں پہنچ جاتا جہاں یہ تعمیراتی کام ہورہا تھا۔
یہاں راج مزدوروں کو دیکھتا۔ ان میں کچھ وہ بھی تھے جو اینٹوں اور دیوار وں پر مشک سے چھڑکاؤ کیا کرتے۔ ظہر کے قریب یہ مزدور کام روک دیتے اور کسی سائے میں بیٹھ کر اخباروں میں لپٹی روٹیاں نکالتے اور کسی ڈبے یا کٹوری میں لائی ہوئی چٹنی ، اچار یا پیاز ، یا کبھی کبھار دال یا سبزی وغیرہ کے ساتھ کھاتے۔ میں یہ سب دیکھتا رہتا اور پھر میں نے بھی راج مزدور بننے کا فیصلہ کیا۔ اس میں سب سے خوش کن تصور وہ تھا جب دوپہر کو سائے میں بیٹھ کر سر سے بندھے رومال یا کپڑے سے پسینہ پونچھ کر، اخبار سے روٹی نکال کر کھانا شروع کرتا لیکن چٹنی یا اچار کے بجائے امی سے ( تصور میں) گھر سے آملیٹ بندھوا کر لاتا۔ پھر ایک سائے میں دھری صراحی سے پانی پیتا۔
راج مزدور بننے کی خواہش جب زیادہ زور پکڑنے لگی تو ایک دن امی سے کہہ دیا کہ آج کل چھٹیاں ہیں کیوں نہ میں بھی ان مزدوروں میں شامل ہو جاؤں۔ اب میں چوتھی جماعت میں آگیا تھا اور میری عمر دس برس کی ہوگئی تھی۔ میں وہ ماشکی والا کام کرنا چاہتا تھا۔ امی نے تو کوئی جواب نہیں دیا البتہ ایک دن ایک ماشکی سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے چھڑکاؤ کے لئے مشک دیدے۔
ماشکی یہ مشک ایک قریبی حوض سے بھرا کرتے تھے۔ موبیل آئیل کا کنستر جس میں لکڑی کا دستہ درمیان میں بطور ہینڈل لگا ہوتا، اس میں حوض سے پانی بھر کر مشک میں انڈیلا جاتا۔ مشک بھر جانے کے بعد اس کے سرے سے منسلک رسی یا ڈوری سے مشک بند کرکے ایک جھٹکے سے اٹھا کر کمر پر لادا جاتا۔
نوجوان ماشکی نے مشک بھر کر رسی سے بند کی اور مسکراتے ہوئے مجھے مشک اٹھانے کی دعوت دی۔ میں مشک کا پٹا گلے میں ڈالا اور جھٹکے سے کھڑا ہوگیا۔۔۔ جی نہیں جھٹکے سے مشک کے برابر لیٹ گیا۔ بلکہ یوں کہئیے کہ حوض میں گرتے گرتے بچا۔ مشک میں پانی کا وزن میری طاقت اور اوقات سے بہت زیادہ تھا۔ مزدور بننے کا ابال بھی وہیں بیٹھ گیا۔
البتہ اس سے اگلے سال جب پانچویں جماعت میں ایک ایسے اسکول میں داخلہ لیا جو صرف دو کوارٹروں پر مشتمل تھا تو ایک دن اس کے مالک اور بڑے ماساب ( ہیڈ ماسٹر صاحب) نے سب لڑکوں سے کہا کہ چھٹی کے دن آئیں اور اسکول کی دیوار کے ساتھ کیاریاں بنا کرو ہاں درخت وغیرہ اگائیں۔ میرے لئے تو وہ انگریزی محاورے والی بات یعنی خواب سچا ہونے والی بات تھی۔ چھٹی والے دن امی سے آملیٹ بنوایا اور پراٹھے میں لپیٹ کو اخبار میں پیک کیا۔
ہمارے حوالے پھاؤڑے اور بیلچے کئے گئے تھے۔ ہم نہایت جانفشانی سے زمین کھودتے۔ منڈیر یاں بناتے، کھودی ہوئی زمین پر بالٹی سے پانی لاکر ڈالتے۔ جب کام مکمل ہوگیا تو وہ لمحہ آیا جس کے میں خواب دیکھتا آیا تھا یعنی سائے میں بیٹھ کر کھانا۔ پیشانی سے واقعی پسینہ ٹپک رہا تھا۔ سر پر رومال یا پگڑی تو نہیں تھی البتہ قمیض کی آستین سے پسینہ پوچھا۔ کچی زمین پر بیٹھ کر اخبار کھولا اور پراٹھے اور آملیٹ کا پہلا نوالہ منہ میں ڈالا تو اپنی بندہ مزدور والی محنت اور غربت کا خیال کرکے آنکھوں میں آنسو آگئے۔
لیکن اب تک سارے خواب اور خواہشیں بقول شخصے، کمی کمین یعنی نچلے درجے کے کاموں والی ہی تھیں کہ اس وقت تک جو “ کوالیفیکیشن” تھی اس میں یہی پیشے اپنائے جاسکتے تھے۔ اب اچانک ایک انگریزی خواہش انگڑائیاں لینے لگی۔
ہوا یہ کہ کراچی میں ایک کرکٹ ٹسٹ میچ ہوا۔ یہ پاکستان اور دولت مشترکہ ( کامن ویلتھ) کی ٹیموں کے مابین تھا۔ یہ غیر سرکاری ٹسٹ کہلاتے تھے۔ میرے چچا مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ ان کے اور دوست بھی ساتھ تھے۔ جب کھلاڑی سفید پتلون قمیض ، سفید جوتوں ، دستانوں اور پیڈز وغیرہ کے ساتھ ہاتھوں میں بلا لئے پویلئین سے برآمد ہوتے اور تماشائی ان کے لئے تالیاں بجاتے اور آپس میں چہ میگوئی کرتے “ ارے امتیاز اور برکی اوپننگ کررہے ہیں ۔۔” “ ابھی سعید اور مشتاق باقی ہیں “ انٹاؤ ڈی سوزا اور فاروق حمید باؤلنگ اوپن کرینگے” ۔۔تو یہ سب کھلاڑی بڑی ماورائی شخصیت نظر آتے۔
گھر آنے کے بعد ہر وقت یہی نظروں کے سامنے ہوتے۔ اور یہ کہنا تو بے کار ہی ہے کہ خود کو بھی ہر وقت اسی روپ میں دیکھتے بلکہ اپنے چچاؤں اور ابا کو بھی سفید قمیض پتلون میں میدان میں دیکھتے۔ ابا کے بال سخت اور مکرانیوں کی مانند گھنگریالے تھے۔ ابا میں ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کی جھلک نظر آتی۔ ہر وقت خود کو میدان کے بیچ کھڑا چوکے چھکے مارتا دیکھتا۔ لیکن بہت کوشش کے باوجود اسٹیڈیم کو بہت خوبصورت نہیں بنا سکا کہ ہم جہاں کھیلتے تھے وہاں گھاس تو نہیں تھی البتہ جا بجا جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ اب ظاہر ہے خواب چونکہ میرا اپنا تھا تو خود کو میسر سہولیات کے مطابق ہی دیکھ سکتا تھا۔
کرکٹر بننے کا جنون ساتویں آتھویں تک جاری رہا لیکن اب بچپن سے نکل کر لڑکپن بلکہ نوجوانی کی حدود میں قدم رکھ رہے تھے۔ پہلےکبھی کبھار سال میں ایک آدھ فلم دیکھتے تھے اور فلموں کے متعلق کوئی زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ اب ذرا دلچسپی لی تو دیکھا کہ اخبار ہوں یا سنیما کے پوسٹر، یا کوئی فلمی گفتگو ہو، ہر جگہ ایک ہی نام نظر آتا ہے اور وہ ہے وحید مراد کا نام۔
اور جب پہلی بار وحید مراد کی فلم دیکھی اور اس کے بعد بھی یکے بعد دیگرے اسی کی فلمیں دیکھیں تو خود کو بھی وحید مراد کے روپ میں دیکھنے لگے۔ میں نے بتایا ناں کہ صورت شکل سے تو بخشے ہوئے ہیں بس انسان کا بچہ ہیں۔ بالوں کو برل کریم سے چپیڑ کر اور پیشانی پر گرا کر سر پر سختی سے رومال لپیٹ کر وحید مراد بننے کی بہت کوشش کی لیکن خاندان یا محلے کی کسی لڑکی نے پھوٹے منہ بھی نہ کہا کہ وحید مراد لگتے ہو۔ پھر محمد علی صاحب کا عروج شروع ہوا ساتھ ہی ندیم نے میدان میں قدم رکھا اور ہم نے بھی پارٹی بدل لی اور محمد علی اور ندیم کے پر ستاروں میں شامل ہوگئے۔ لڑکیاں البتہ وحید مراد سے ہی عہد وفا نبھاتی رہیں۔
بس کنڈکٹر، پان والے اور راج مزدور والے خوابوں سے نکل کر ذرا ماڈرن خواہشات یعنی کرکٹر اور فلمسٹار بننے کی خواہشات ابھی جاری تھیں کہ کالج پہنچ گئے۔ اور اتفاق سے یہ وہ زمانہ تھا جب ذولفقار علی بھٹو پاکستان کی سیاست پر چھا رہے تھے۔ بھٹو صاحب نے سوشلزم اور ترقی پسندی وغیرہ سے متعارف کرایا۔ کالج میں بھی فیض اور جوش وغیرہ سے آگاہی ہونے لگی۔ اخبارات اور رسائل میں دائیں اور بائیں کی بڑی گرما گرم بحثیں ہوتیں۔ ساتھ ہی انگریزی فلموں اور انگریزی زبان کی شدھ بدھ بھی ہونے لگی۔
ایک راسخ العقیدہ خاندان کا فرد اور اندر سے پورا مولوی ہونے کے باوجود ہم بھٹو صاحب اور سوشلزم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بھٹو صاحب ہی نہیں ، مزاحمت اور بغاوت کا ہر استعارہ اب ہمارا ہیرو تھا۔ یاسر عرفات بھی ان دنوں عروج پار ہے تھے، ساتھ ہی ہم فیڈل کاسترو اور چی گویرا کے بارے میں سنتے۔ چی گویرا کی فلم بھی کرانچی میں لگی تھی۔ ادھر یورپ میں طارق علی صاحب نے طلبا کی سیاست میں دھوم مچا رکھی تھی۔ ان کے بڑے بڑے بال، کمانی دار مونچھیں وغیرہ ہمیں ترقی پسند کے لوازمات دکھائی دینے لگے۔ حسب استعداد بال اور قلمیں بڑھا کر اور مونچھوں کو ممکنہ حد تک کمانی دار بناکر، لنڈے سے ایک جینز کی جیکٹ بھی خرید لی جس کی دھلائی اس کی قیمت خرید سے کہیں زیادہ تھی۔ ان دنوں ایک “ بلا” (Medal) ملا کرتا تھا جس کے نیچے انگریزی میں PEACE لکھا ہوتا اور اکثر “ ہپی” اور کمیونسٹ اسے گلے میں لٹکائے پھرتے۔ ہم نے بھی وہ بلا گلے کی زینت بنایا اور اپنے آپ کو چی گویرا اور طارق علی کی صف میں لا کھڑا کیا۔
پھر یہ ہوا کہ کچھ سالوں بعد پڑھائی ختم ہوگئی اور نوکری وغیرہ کی تلاش شروع ہوئی۔ اب شاید پہلی بار حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا۔ اب خوابوں کی گنجائش نہیں تھی۔ اب وہی کچھ مل سکتا تھا جس کی سعی کرتے۔ اب بندہ مزدور کو اپنے حقیقی اوقات اور دال روٹی کا بھاؤ معلوم ہوا۔ اور تقریباً نصف صدی کی مشقت کے بعد اب جب ساری خواہشیں اور خواب دم توڑ چکے ہیں تو وقت گذاری کے لیے ادھر ادھر کی ہانکنا یعنی یہ لکھنا لکھانا شروع کیا۔
یہ مضمون مکمل کرکے مجھے باہر جانا ہے جہاں سے مجھے بیگم کے حکم کے بمطابق دہی اور ہرا دھنیہ اور پودینہ لانا ہے۔ اس کے بعد پودوں کو پانی دینا ہے اور جمعہ کی نماز کے لیے کپڑے استری کرنے ہیں۔ بالآخر نظام سقے کو اس کی مشک واپس مل گئی ہے۔