خوابوں کا بستہ
بچپن کی یادوں میں ایک منظر جو اکثر دھیان میں ابھرتا ہے وہ اسکول کے راستے کا ہے۔ ہلکی ہلکی بارش اور ریتیلے راستے میں اتنے زیادہ کینچوے اور مینڈکوں کے چھوٹے چھوٹے اچھلتے کودتے بچے ہیں کہ قدم رکھنے کی جگہ نہیں۔ میں احتیاط سے دیکھ دیکھ کر چل رہا ہوں مبادا کوئی کینچوا یا مینڈک کا بچہ قدموں تلے آ جائے۔ چند بڑے لڑکوں کی ٹولیاں تیزی سے آتی ہیں اور راستے کے بہتے پانی میں چھپ چھپاتی، چھینٹے اڑاتی آگے نکل جاتی ہیں۔ میرے کپڑے مزید بھیگ جاتے ہیں۔ یکایک بارش تیز ہو جاتی ہے اور میں تقریباً بھاگتے ہوئے، پانی میں شرابور کپڑوں اور بھیگے ہوئے سیاہی ٹپکاتے بستے کے ساتھ اسکول کے ایک کمرے میں داخل ہوتا ہوں، جہاں ہر جماعت کے چھوٹے بڑے لڑکے جمع ہیں۔ ماسٹر جی لیٹ آنے پر مجھے سزا کے طور پر بارش میں کمرے سے باہر نکال دیتے ہیں۔ بڑے لڑکوں کی ہنسی کے فوارے چھوٹتے ہیں اور میں خفت سے اندر تک بھیگ جاتا ہوں۔
بس اتنا یاد ہے
رستے کی مٹی ریتلی تھی
جس پہ میرے ننھے پاؤں چل رہے تھے
تیز بارش تھی
زمانے پانیوں میں ڈھل رہے تھے
کینچوے تھے
اِس قدر اتنے زیادہ
لجلجاہٹ جسم کے اندر اترتی جا رہی تھی
مینڈکوں کے چھوٹے چھوٹے اَن گنت بچے
پھدکتے تھے
کہیں کوئی جگہ خالی نہیں تھی
مَیں جہاں اپنے قدم رکھتا
بڑے لڑکے چَھپا چَھپ زور سے چھینٹے اڑاتے جا رہے تھے
اُن کے ڈر سے مَیں
پھسل کر گر پڑا تھا
سر تا پا کیچڑ میں لت پت
بھیگتا اسکول میں داخل ہُوا تھا
میرے بستے سے سیاہی بہہ رہی تھی
دیکھتے ہی ماسٹر جی ہنس پڑے تھے
میری حالت دیدنی تھی
پھر بھی جیسے جوش تھا اک سر خوشی تھی
ماں رسوئی میں
مجھے غیبی نظر سے دیکھتی تھی
دل ہی دل میں مسکرا تی، واپسی کی منتظر
میرے لیے روٹی پکاتی تھی!
میرے بچپن کا زیادہ حصہ گاؤں میں گزرا جہاں اُس وقت بجلی تھی نہ سڑک۔ صرف لڑکوں کا ایک پرائمری اسکول تھا۔ تیسری جماعت تک میں گاؤں کے پرائمری اسکول میں پڑھتا رہا۔ اسکول میں ٹاٹ بھی نہیں تھے اور گھاس اگی زمین پر یا درختوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھائی کی جاتی تھی۔ کمروں کی تعداد تین چار ہی تھی جہاں کبھی کبھار بارش کے دن پکی اینٹوں کے فرش پر بیٹھنا نصیب ہوتا تھا۔ کچھ بچے بیٹھنے کے لیے اپنی اپنی پٹ سن کی بنی ہوئی بوری یا ٹاٹ کا ٹکرا ساتھ لاتے تھے۔ اسکول ماسٹر اپنے ہی گاؤں یا قریبی دیہات سے تعلق رکھتے تھے۔ اسکول ڈاکخانے کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا اور ہیڈ ماسٹر بطورِ پوسٹ ماسٹر بھی کام کرتا تھا۔ ماسٹر صاحبان خطوط اور منی آرڈر لوگوں کے گھروں تک خود یا شاگردوں کے ذریعے پہنچایا کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے والدہ دن میں ایک بار اسکول کا چکر ضرور لگاتی تھیں اور میرے سیاہی میں لپڑے ہاتھ اور منہ دھلاتی اور کھانا کھلاتی تھیں۔ گاؤں کے ایک ماسٹر صاحب کے بائیں ہاتھ کی ایک انگلی مستقل ٹیڑھی تھی۔ وہ اس ٹیڑھی انگلی والے ہاتھ سے ایسا زناٹے دار تھپڑ مارتے تھے کہ تھپڑ کھانے والے کے گال پر اس مُڑی ہوئی انگلی سے گڑھا پڑ جاتا تھا جو کئی دن تک ماسٹر جی کی مار کی نشانی کے طور پر نظر آتا رہتا تھا۔ ایک بار کسی بات پر انہوں نے مجھ پر بھی تھپڑ آزمائی کر دی۔ میں تو کسی طور درد برداشت کر گیا اور تھوڑی دیر نم آنکھوں کے ساتھ منہ بسور کر چپ ہوگیا لیکن والدہ جب مجھے کھانا کھلانے آئیں تو ان کی نظر گال پر بنے تازہ تازہ گڑھے اور آنکھں کی سوجن پر پڑ گئی۔ انھوں نے سارے اسکول کے سامنے ماسٹر جی کی وہ بےعزتی کی کہ انہوں نے ہمیشہ کے لیے ٹیڑھی انگلی والے ہاتھ سے تھپڑ مارنے سے توبہ کر لی۔ اسکول سے فارغ خدمت ہونے تک وہ اپنی توبہ پر قائم رہے۔ اسکول میں ایک یک چشم ماسٹر جی بھی تھے جن کا بید کا ڈنڈا بڑا ظالم تھا جہاں پڑتا تھا لمبی لمبی سرخ لاٹیں ڈال دیتا تھا۔ شکر ہے کہ ان کا "بید مال" کبھی میری طرف نہیں اٹھا تھا کیونکہ وہ جاٹوں کے خاندان اور ابا جی سے ڈرتے تھے۔
جب میں تیسری جماعت میں تھا تو اردو عبارت لکھنے پڑھنے میں طاق ہو گیا تھا۔ گاؤں کی عورتیں خطوط لکھوانے اور پڑھوانے میرے پاس آتی تھیں۔ ان میں زیادہ تر نو بیاہتا یا ایک دو بچوں والی ہوتیں جو دور دراز شہروں میں ملازمتوں پر گئے اپنے شوہروں کو سسرال کی، دیوروں اور نندوں کی شکایتیں لکھواتیں، جلد چھٹی آنے اور اپنے اور بچوں کے لیے الگ خرچہ کا مطالبہ کرتیں۔ یا پھر بوڑھی مائیں ہوتیں جو اپنے بیٹوں کو ان کی بیویوں کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کرتیں اور گھر کے اور دیگر افرادِ خانہ کے جائز ناجائز مسائل اور مطالبات کی فہرست لکھواتیں۔ یا ان خطوط میں کسی کی پیدائش، کسی کی وفات اور کسی کی منگنی بیاہ کی باتیں ہوتیں یا فصلوں، وائی بیجی، بھینسوں، گایوں، بَیلوں، بکریوں کا ذکر ہوتا۔ کچھ تو مرغیوں، ان کے انڈوں بچوں اور گدھے گدھیوں کے قصے بھی لکھواتیں۔ بارانی علاقوں کے زمین دارے میں گدھی کی بڑی اہمیت ہوتی تھی اور ہر گھر کے مویشیوں میں ایک عدد گدھی ضرور شامل ہوتی تھی۔ بعض خطوط میں گاؤں کے معاشقوں کی داستانیں ہوتیں۔ یوں میں انسانوں سے لے کر جانوروں تک سارے گاؤں کے رازوں اور معاملات سے واقف ہو جاتا تھا لیکن میں سب کے رازوں کی مکمل پاسداری کرتا تھا۔ یہاں تک کہ والدہ کو بھی نہیں بتاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دور دور گھروں کی عورتیں بھی خطوط لکھوانے پڑھوانے میرے پاس ہی آتی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اس عمل سے ایک نامانوس سی لذت محسوس کرتا تھا اور ایسکیلس (ایشی لس) کے یونانی ڈرامے کی طرح جس کا اُس وقت مجھے علم نہیں تھا، ایک خاص نوع کا حظ اٹھاتا تھا اور نہ سمجھتے ہوئے بھی ایک تخلیقی کیتھارسس جیسے عمل سے گزرتا تھا۔ یوں میں نے دیہاتی ہونے کے باوجود از خود تزکیہ نفس کی کیفیات اور نجی زندگی، خلوت، پوشیدہ معاملات اور اخفا جیسے سنہری اصولوں کو شروع ہی میں جان لیا تھا ۔ نوعمری ہی میں زندگی کے تلخ ترین حقائق فطرت اور دِیہات کے امتزاجی منظر نامے سے اخذ کر لیے تھے۔ لیکن میرا بچپن فکری تنہائی کا تھا۔ دور و نزدیک کوئی علمی و ادبی ہستی نہیں تھی۔ فطرت کی تمام تر خوبصورتیوں کے باوجود بے رحم قسم کی دیہاتی زندگی، پس ماندگی، چچوں، تایوں، ماسیوں، خالاؤں، تائیوں کی لڑائیاں، گاؤں اور زمینوں کے جھگڑے، ذات پات، گوت کی بنیاد پر نسل در نسل دشمنیاں ۔۔۔۔۔۔ اپنی عمر سے پہلے بڑا ہو جانے کے تمام لوازمات کے ساتھ میں اکیلا فطرت کی تخلیقی قوت کی زد پر تھا۔
اور تم نہیں جانتے تھے
کہ رات زندگی سے قدیم ہے
اور تمھاری ہری بھری شاداب فصلیں
میری روح کو غذا
اور بدن کو روشنی فراہم نہیں کر سکتیں
تم نے بارہا مجھے پکارا
اور میں خاموش رہا
کہ خاموشی میں عافیت تھی
سروں اور ہاتھوں کی فصلیں کاٹنے والے
قلم کی تراش
اور موقلم کی خراش سے نابلد ہوتے ہیں
مٹی راستہ بننے سے پہلے
رنگوں کا بلیدان مانگتی ہے
لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے
ریوڑ ہانکتے ہوئے
دانش اپنے آپ میں تنہا ہوتی ہے
تنہا اور بے امان ۔۔۔۔
اسکول کے راستے اور گاؤں کے اطراف کا لینڈ اسکیپ بہت مسحور کن تھا۔ اونچے نیچے کھیت، ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں، ناہموار گھاس کے رقبے، لسوڑے، پیپل، شرینہ، بیری اور شیشم کے گھنے درخت، کیکروں کے جھنڈ، گل عباسی، سرکنڈوں اور جڑی بوٹیوں کی بہتات، برساتی نالے، کھائیاں، ٹِبے، کٹاؤ، جنگل، بیلے، مویشیوں کے ریوڑ، قسم قسم کے جانور، پرندے اور صاف و شفاف پانی کی ندیاں جہاں بھیگے بدنوں والی نیم برہنہ عورتیں دھوپ میں کپڑے دھوتیں اور سُکھاتیں اور لڑکے بالے اِدھر اُدھر منہ پھیر کر کھیلتے رہتے اور بیچ بیچ میں تجسس بھری کن اکھیوں سے عورتوں کی طرف بھی دیکھتے رہتے۔ گاؤں سے باہر واحد کنواں جہاں سارے گاؤں کی عورتیں گھڑے سروں پر اٹھائے یا بغل میں دبائے پانی بھرنے آتیں اور مرد مویشیوں کو پانی پلانے قطار در قطار کنویں کا طواف کرتے۔ میں اسکول آتے جاتے اکثر بستہ اور بستے میں رکھے خواب بھول کر ان مناظر میں گم ہو جاتا تھا۔ یہیں سے کہیں شاعری نے میرے اندر راستہ بنا لیا تھا۔ میرا ننھیالی گاؤں ددھیال کے گاؤں سے چند کوس کے فاصلے پر تھا۔ میں اکثر وہاں چلا جاتا تھا۔ نانا جی کے ساتھ کھیتوں میں گھومتے ہوئے، بیلے میں ان کے ساتھ بکریاں چَراتے ہوئے، کیکروں کی چھاؤں میں اچار اور لسی کے ساتھ روٹی کھاتے ہوئے اور ان کی درویشانہ خاموشی سے باتیں کرتے ہوئے میں نے شاعری کو، اس کے اصلی روپ میں، سر تا پا برہنہ دیکھ لیا تھا۔ تب مجھے معلوم نہیں تھا کہ ارسطو نے نیچر کو تخلیقی قوت اور کائنات کے تخلیقی اصول کا نام دیا ہے، اور ارسطو ہی نے کہا ہے کہ استعارے پر قدرت ہونا سب صلاحیتوں سے بڑھ کر ہے۔
نانا جی کے ساتھ
کھیتوں میں کام کرتے ہوئے
برساتی ندی کے پار بیلے میں
بکریاں چَراتے ہوئے،
مکو کی جھاڑیوں کو چھیڑتے ہوئے
اور کیکر کی چھاؤں میں بیٹھ کر
اچار کے ساتھ روٹی کی سرشاری میں
نشیبی نالے سے پانی پیتے ہوئے
میں نے دیکھا شاعری کو
انتہا پر، اپنے اصلی روپ میں
ابتدا کا تو معلوم نہیں
تب پتا تھا نہ اب
لیکن انتہا کو پہلے دیکھ لینا
عینک کے بغیر
حقیقت کی بےلباسی میں،
سر تا پا برہنہ
زندگی اور موت کے باہم آمیز نشے سے کم نہ تھا
آج جب میں اپنی اُس وقت کی عمر کے نواسے کو دیکھتا ہوں کہ اسے اردو کا ایک جملہ بھی صحیح طرح لکھنا اور پڑھنا نہیں آتا حالانکہ وہ زمین یا ٹاٹ پر نہیں بیٹھتا، پیدل اسکول نہیں جاتا، بارش میں نہیں بھیگتا بلکہ شہر کے بہترین اسکول میں پڑھتا ہے تو مجھے اپنا بچپن ایک خواب سا لگتا ہے۔ اس کے لیے یہ سب باتیں رات کو سونے سے پہلے سننے والی طلسمی کہانی کی طرح ہیں۔ اُس نے بارش میں کیچوے اور مینڈکوں کے بچے نہیں دیکھے۔ اُس کی زبان کارٹونوں والی اور منظر نامہ اینی میٹڈ فلموں والا ہے۔ میری یادوں کے بستے میں بھرے ہوئے خوابوں کا بوجھ کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“