سفیر صدیقی کے شعری مجموعے ’خوابوں کے مرثیے‘ پر میں نے جتنے بھی تبصرے پڑھے ہیں ان میں سے تقریباً ہر ایک کا خیال ہے کہ اس مجموعہ میں ایک ایسے انسان کے رنج و الم اور اس کی زخم خوردگی کا بیان کیا گیا ہے جو زندگی سے مایوس ہے اور اس سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے۔یہاں تک کہ وہ موت کو عزیز سمجھتا ہے اور خودکشی کرنے کا خواہش مند ہے۔وہ اس فانی دنیا کو اپنے لئے بے کار اور بے سود سمجھتا ہے۔یعنی سفیر صدیقی کی شاعری میں قنوطیت کا پہلو جا بجا ابھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔خود سفیر صدیقی بھی اپنے مجموعہ کے پیش لفظ میں کہتے ہیں:
”میں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اس میں سوائے موت کی گوناگوں شکلوں کے اور کچھ نہیں پایا۔ میں نے موت کو زندگی کے حسین ترین لمحوں میں سب سے زیادہ خوش دیکھا ہے۔ زندگی کی ترقی سے سب سے زیادہ خوشی موت کو ہی ہوتی ہے۔“
بہر حال یہ شاعر کی اپنی شاعری سے متعلق گفتگو ہے۔ جس کو پڑھنے کے بعد قاری اسی دائرے میں رہ کر اشعار کے معنی اخذ کرتا ہے۔لیکن میرا یہ خیال ہے کہ شاعر کا کام صرف شعر کو تخلیق کرنا ہے۔اس کو اپنے اشعار کی تشریح نہیں کرنا چاہئے۔کیوں کہ فن پارہ تخلیق ہونے کے بعد یہ شاعر کی ملکیت نہیں رہتا۔بلکہ قاری کے جذبات و احساسات سے منسلک ہوجاتا ہے۔اب قاری اپنے علم،تجربات کی بنا پر اس کے الگ الگ مفاہیم نکالتا ہے۔
اگر اس کتاب کو انسانی نفسیات کے پہلوؤں پر نظر رکھ کر مطالعہ کیا جائے تو سفیر صدیقی کی یہ کتاب بہت سی نفسیاتی باتوں اورذہنی کشمکش کی ترجمانی بھی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔لیکن اس کے لئے سفیر صدیقی زندگی اور اس کی نفسیات کا بھی مطالعہ کرنا ہوگا۔آخر شاعر کس ذہنی کیفیت سے گزر رہا ہے جو اس نے اس کم عمری میں اس طرح کا ادب تخلیق کیا ہے۔سائنس کے نقطہئ نظر سے اس کتاب کا مطالعہ کرنامیرے نذدیک سفیر صدیقی کی شاعری کے نئے رنگ اور مفاہیم سے قاری کو آشنا کرانا ہے۔
جنگوں، مختلف تنازعات، انسانی لالچ،ہوس کاری اور ترقیات کی خواہش نے اس زمین کے قدرتی ماحول کو بربادی کی راہ پر گامزن کر دیاہے۔جنگوں میں استعمال ایٹمی ہتھیاروں نے نہ صرف انسانی شہروں،بستیوں کو تباہ و برباد کیا ہے بلکہ وہاں کی آب و ہوا کو بھی متاثر کیا ہے۔انسانی لالچ اور زیادہ منافع کمانے کی ہوس نے قدرتی ماحول،جنگلات،حیوانات،پرندوں وغیرہ کی زندگی کو بھی خاتمہ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ انسان نے اس بات پر غور وفکر نہیں کی کہ انسانی زندگی کی بقا کے لئے ان جنگلات اور دیگر ذی حیات کی کتنی اہمیت ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ سے بڑی بڑی فیکٹریاں،کارخانے بنائے گئے لیکن ان سے نکلنے والے زہریلے کیمیکل اور گیسوں نے ہوا،پانی،اور مٹی کو بری طرح متاثر کیا۔آج ہم اس مقام پر آگئے ہیں کہ زندہ رہنے کے لئے ہوا اورپانی خریدنے پر آمادہ ہیں۔جو ہم کو قدرت کی طرف سے تحفہ میں عطا کئے گئے تھے۔سفیر صدیقی کیوں کہ اسی ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔اور ان مسائل سے دوچار ہیں اس لئے وہ اپنے ایک شعر کے ذریعے ماحول کی اس تباہ کاری پر اظہار افسوس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
آؤ دیکھیں سفیر! ؔقسمت میں
اور کتنی تباہ کاری ہے
سفیر صدیقی نے نہ صرف اس شعر میں مخاطبانہ لہجہ اختیار کر کے قاری کے ذہن کو ماحول کی تباہی کی طرف مرکوز کیا ہے۔بلکہ تمام عالم انسانیت کے سامنے ایک سوال بھی رکھا ہے کہ اور کتنی تباہ کاری انسان کی قسمت میں باقی ہے؟۔اگر اسی طرح انسان اپنے قدرتی ماحول کے ساتھ کھلواڑ کرتا رہا تو اس کے بد سے بد تر نتائج نکلیں گے۔اور یہ زمین انسان کے رہنے لائق نہیں رہے گی۔ممکن ہے اس زمین سے پوری طرح انسانیت کا خاتمہ ہوجائے۔ماحول کی بقا کا یہ احساس سفیر صدیقی کی دوسری غزلوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔جہاں ان کے اشعار ”خوابوں کے مرثیے” نہیں رہتے بلکہ ” کائنات اور ماحول کی تباہ کاری کے مرثیے” ہو جاتے ہیں۔اس نقطہ نظر سے دیکھنے پر ان کی شاعری کے نئے رنگ سے قاری کی آشنائی ہوتی ہے۔اس بات کے ثبوت کے طور پر ایک دوسری غزل کا شعر دیکھیں یہاں بھی انھوں نے مخاطبانہ لہجہ اختیار کیا ہے:
وہ میں ہوں جو کبھی اپنا بھی ہو نہیں پایا
وہ تو ہے،جس نے مکمل کیا ہے مرا وجود
یہاں ایسا لگتا ہے کہ سفیر صدیقی اپنے اطراف کے قدرتی ماحول سے مخاطب ہیں۔اور اس سے کہہ رہے ہیں۔کہ”وہ میں ہوں ” یعنی انسان جو کبھی اپنا نہیں ہو پایا۔اور لالچ اور ہوس میں آکر اس قدرتی ماحول کو تباہ کر دیا۔اور ”وہ تو ہے” جس نے میرا وجود مکمل کیا ہے۔یعنی اس زمین پر انسانوں کو حیات بخشی اور اسے ہمارے رہنے کے لائق بنایا۔یہاں یہ شعر صرف زمین اور اس کے ماحول تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس میں کائنات عظیم کے مسائل بھی سمٹ آئے ہیں۔کیوں کہ انسان نہ صرف زمین کے قدرتی ماحول کو تباہ کر رہا ہے بلکہ اس نے خلا میں بھی قدم جمانے کے بعد وہاں بھی آلودگی شروع کر دی ہے۔
سفیر صدیقی صرف کائنات اور اس کے قدرتی ماحول کے ہی ترجمان نہیں ہیں۔وہ انسانی زندگی کی عظمت پر بھی اشعار لکھتے ہیں۔کیوں کہ انسان خود اس کائنات کی ایک اکائی ہے،کہتے ہیں:
اگر تمھیں ایسا لگ رہا ہے کہ مجھ کو اوروں میں ڈھونڈ لو گے
تو جاؤ دنیا کھنگال ڈالو، نہیں ملوں گا نہیں ملوں گا
یہاں بھی سفیر صدیقی نے خطابیہ انداز اختیار کیا ہے۔اور گویا سائنسدانوں کو چیلنج کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ سائنسداں دن رات خلا میں مختلف اجرام فلکی،کہکشاؤں اور سیاروں میں تحقیق کر کے زندگی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔لیکن ابھی تک ایسا نظام ِحیات اور انسانی مخلوق کو تلاش نہیں کر سکے جو اس کائنات میں واحد زمین پر موجود ہیں۔سفیر صدیقی کا یہ انداز بیان ”تو جاؤدنیا کھنگال ڈالو نہیں ملوں گا نہیں ملوں گا” اسی بات کا عکاس ہے۔اس لئے انسان کو اپنی زندگی اور اس کے ماحول کی حفاظت کرنا چاہئے کیوں کہ یہ کائنات کی نایاب تخلیق ہے جو ابھی تک کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملی۔
انسانی جسم کے خلیوں میں موجود ڈی۔این۔اے ایک حیران کن شے ہے۔انسانی زندگی کے وجود میں آنے سے لے کراور زندگی کے آخری لمحات تک یعنی تاحیات جسم کے افعال کو رواں دواں رکھنے کے لئے ڈی۔این۔اے کا اہم رول ہے۔اس کے ایک دوسرے پر لپٹے ہوئے دو دھاگوں پر وہ معلومات موجود ہوتی ہیں جنھیں سائنس کی زبان میں جینز (Genes) یا کوڈز (Codes) کہتے ہیں۔ اگر انسانی تخلیق کے وقت سے پہلے یہ معلومات موجود نہیں ہوں گی تو انسان ہی کیا کسی بھی ذی حیات کی تخلیق ممکن نہیں ہو سکتی۔ہر خلیہ میں ایک ڈی۔این۔اے سالمہ موجود ہوتا ہے اور ہر ایک ڈی۔این۔اے میں تین ارب مختلف موضوعات سے متعلق معلومات موجود رہتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہمارے جسم کے اندر موجود ڈی۔این۔ اے کی لمبائی بہت ہی حیرت انگیز اور دلچسپ ہے اگر اس کے ایک دوسرے پر لپٹے ہوئے دھاگوں (Double Helix) کو نکال کر ایک لائن میں رکھا جائے اور اس کی پیمائش کی جائے تو اس دھاگے کی لمبائی زمین اور چاند کے درمیان موجود فاصلے سے دس ہزار گنا زیادہ نکلے گی۔سفیر صدیقی کی غزل کا ایک شعر دیکھیں جس میں وہ ڈی۔این۔اے کے دھاگوں (Double Helix) کی وسعت کی ترجمانی بڑے منفرد انداز میں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
یہ جو تکفینِ جاں تک کا سفر ہے
زمیں سے آسماں تک کا سفر ہے
اس شعر میں سفیر صدیقی نے زمیں سے آسماں تک کے سفر کا ذکر کیا ہے۔جہاں سائنسی نقطہئ نظر سے دیکھنے پر ایسا لگتا ہے جیسے موصوف ڈی۔این۔اے کے دھاگے کی لمبائی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ چاند اور زمین کے درمیان کا فاصلہ 3,84,400 کلومیٹر ہے۔اور انسانی ڈی۔این۔ اے کی لمبائی اس فاصلہ سے دس ہزار گنا زیادہ ہے۔سفیر صدیقی کا یہ شعر اسی سائنسی حقیقت کا عکاس معلوم ہوتا ہے۔
ایک دوسرے غزل کے شعر میں موصوف ”صحیفہ” کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں لفظ ”صحیفہ” انسانی ڈی۔این۔اے میں موجود ان اربوں مختلف معلومات کا ترجمان ہوجاتا ہے۔جن کے سبب انسانی وجود کی تخلیق ہوئی ہے۔اس لئے سفیر صدیقی کہتے ہیں:
اپنے اندر لئے پھرتا ہے ہر اک شخص سفیرؔ
وہ صحیفہ جو کسی اور پہ نازل نہ ہوا
اپنے اندر لئے پھرتا ہے” یعنی خلیوں میں موجود ڈی۔این۔اے کی طرف پھر ذہن جاتاہے۔اور لفظ”صحیفہ” ڈی۔این۔اے میں موجود اربوں مختلف معلومات کی ترجمانی کا عکاس نظر آتا ہے۔جو ہر ایک شخص میں مختلف ہے۔جس کو وہ تاحیات اپنے وجود کے اندر لئے پھرتا ہے۔
جب انسان نے رات کے وقت آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کا مشاہدہ کیا تو ان کے بارے میں جاننے کا خواہشمند ہوا۔کہ آخر ستارے کیسے وجود میں آتے۔یہ اتنے چھوٹے اور چمکتے ہوئے کیوں دکھائی دیتے ہیں۔یہ وہ سوالات تھے جن کے جوابات انسان برسوں تلاش کرتا رہا۔لیکن جب ہماری سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی تو طاقتور دوربینیں اور سپر کمپیوٹرز کا وجود عمل میں آیا۔عصر حاضر میں ماہرین فلکیات نے بہت سے رازوں سے پردا اٹھایا ہے۔اور ستاروں کی وجود میں آنے سے لے کر کیسے ان کا خاتمہ ہوگا ان حقائق سے آشنا ہو سکے ہیں۔ ماہرین فلکیات کے مطابق ستارے اور سیارے ہماری خلا ء میں موجود گیس اور ڈسٹ کے ذرات کے انتہائی بڑے بادلوں سے بنتے ہیں۔جو کہ ہماری ’گیلکسی‘ میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔در اصل یہ گیس اور ڈسٹ کے ذرات سے بنے بادل اپنی کشش ثقل کے نتیجے میں سمٹ کر زیادہ کثیف ہوکر ایک اسٹرکچرکی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔لیکن پھر بھی ستاروں کے وجود میں آنے سے متعلق ایسی بہت سے حقائق ہیں جن کے بارے میں سائنسداں تفصیل سے نہیں جانتے کہ گیس اور دھول کس طرح مل کر ایک ستارے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں یا کیوں زیادہ تر ستارے ایک گروہ کی اندر ہی تخلیق ہوتے ہیں۔ان کے مطابق یہ ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ماہرین نے اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ جب ستارے وجود میں آتے ہیں تو ان گیس اور ڈسٹ کے ذرات سے بنے بادلوں میں ایک عجیب سی کھلبلی دیکھنے کو ملتی ہے۔سفیر صدیقی بڑے ہی منفرد انداز میں ستارے بننے کے اس رد عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں شعر دیکھیں:
عجب سی کھلبلی ہے آسماں میں
کہ اک ذرّہ ستارہ ہو رہا ہے
سائنسدانوں کے مطابق انسان نے جب اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو حیات سے لے کر موت تک اس کے جسم اور اعضا میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔یعنی وہ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی طرف بڑھتاہے۔روز ہمارے جسم میں بوڈی سیل مرتے ہیں اور ان کی جگہ نئے بوڈی سیل لے لیتے ہیں۔اس طرح ہماری زندگی کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔اورہر آتی،جاتی سانس کے ساتھ انسان اپنی زندگی کے مراحل طے کرتا ہے۔اس سائنسی حقیقت کو سفیر صدیقی کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
روز کچھ سانسیں چرا لیتا ہے وقت
روز تھوڑا تھوڑا مرجاتا ہوں میں
چارلس ڈارون نے 1859ء میں انسانی نظریہئ ارتقاء پیش کر کے انسانی ارتقا کے بارے میں بہت سے باتوں کی وضاحت سائنس کے مطابق کی۔اس کے نظریہ کے مطابق انسان بندر کی ارتقائی شکل ہے۔پہلے انسان بندر و ں کی طرح جنگلات میں زندگی گزارتا تھا۔بعد میں ماحول کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا گیا۔اور چمپینزی جیسے چوپائے سے دو پیروں پر چلنے والے عصر حاضر کے انسانی کی شکل اختیار کر لی۔عالم الانسان یا بشریات کے ماہرین(Anthropologists) انسانی ارتقائی عمل پربہت سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ انسان ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) کا بدلا ہوا روپ ہے۔جس کو عصر حاضر میں ہو مو سیپینز(Homo Sapeins) کہتے ہیں۔سفیر صدیقی کا ایک شعر دیکھیں جس کو انسانی ارتقائی عمل کی ترجمانی کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔وہ کس طرح مخاطبانہ لہجہ اختیار کر کے انسانی ارتقائی عمل کی وضاحت کر تے ہوئے نظر آتے ہیں:
بدلنے والوں سے کوئی گلہ نہیں ہے مجھے
کہ پہلے جیسا تو میں بھی نہیں رہا صاحب
الغرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ سفیر صدیقی کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔جس کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سفیر صدیقی کے نذدیک یہ ادھورے خوابوں کا مرثیہ ہے جو ابھی پائے تکمیل تک نہیں پہنچا۔لیکن میرے نذدیک صرف ان کی شاعری کو زندگی کی شکست و ریخت تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ادھورے خواب بھی زندگی میں بڑے بڑے سبق دے جاتے ہیں۔اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ اگلے مجموعے میں سفیر صدیقی اس رنج و الم اور قنوطیت سے باہر نکل کر رجائیت کے اشعار قلم بند کریں گے کیوں کہ شاعری پیغمبری کا کام ہے یہ انسان کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر امید کی روشنی سے آشنا کراتی ہے۔
انجینئر محمد عادل
ہلال ہاؤس، ذاکر نگر، علی گڑھ
موبائل:09358856606