انسانی زندگی کا کوئ تقریباً ایک تہائ حصہ نیند میں گزرتا ہے ۔ میرا تو خیر کوئ آدھے سے زیادہ حصہ سونے میں گزرتا ہے ۔ کہتے ہیں جو سو گیا وہ کھو گیا اور میں نے تو اس کھونے سے سچ پوچھیں بہت کچھ پایا ۔
ایک مشہور امریکی خاتون لکھاری ایلیس روب نے پچھلے سال اس موضوع پر بہت زبردست کتاب why we dream کے نام سے لکھی ۔ امریکہ کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کے یہاں کی ٹاپ یونیورسٹیاں کسی نہ کسی انسانی پہلو پر ۲۴/۷ ریسرچ کر رہی ہوتی ہیں ۔ ہمارے ہاں تو ابھی تک سر سید کے زمانے کے کورس پڑھائے جا رہے ہیں ۔ ریسرچ کی بجائے سفارش ، چاپلوسی اور رشوت استادوں کی یونیورسٹیوں میں ترقی و تقرری کا سبب بنتی ہیں ۔ اس وقت ایلیس کے نزدیک پورے امریکہ میں کوئ ۲۵۰۰ نیند کی sleep labs ہیں جو ۱۹۹۸ میں صرف چار سو تھیں ، اور یہ ساری لیبارٹییاں کوئ لوگوں کے گھروں میں نہیں ہیں بلکہ امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں اور ریسرچ کے اداروں میں قائم کی گئ ہیں ۔
خواب کئ قسم کے ہوتے ہیں ، جیسے علامہ اقبال کا برصغیر میں مسلمانوں کی الگ ریاست کا خواب ، نواز شریف اور زرداری کی لُوٹ مار کا خواب ، عمران خان کا نئے پاکستان کا خواب اور میرا اپنے وطن کی خدمت کا خواب ۔ یہ سارے خواب ہم دن میں دیکھتے ہیں اور اکثر پورے بھی ہو جاتے ہیں لیکن عموما دن میں تارے دکھانے کے بعد ۔ اصل خواب رات کے دوسرے یا تیسرے پہر آتے ہیں جو نہ صرف سچ ہوتے ہیں بلکہ اس دنیا میں زندگی کو آگے بڑھانے کا زریعہ بنتے ہیں اور وہی روح کی awareness ہوتی ہے ۔
ایک دن ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا کے اس نے یہ خواب دیکھا کے وہ ساتھ واے کمرے میں سویا ہوا ہوتا ہے اور اٹھ کر کسی عورت کے ساتھ باہر جاتا ہے ۔ اس کے خاوند نے کہا کے ایسا واقعہ ہی ہوا تھا لیکن اس کا باہر کسی دوشیزہ کے ساتھ جانا بھی ایک خواب تھا ۔ دراصل دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے شعور یا consciousness میں چلے گئے تھے جہاں سے یہ ممکن تھا کے ایک دوسرے کی انرجی فیلڈ میں جا کر سوچوں کا اشتراک ممکن ہو سکے ۔ سوچ انرجی ہے اور روح اس کا محور ۔ نیند میں دماغ تو ریسٹ ضرور کرتا ہو گا لیکن سوچ نہیں ۔ سوچ کے بھنور دن کے کام نمٹاتے ہیں اور مستقبل کے معاملات کو احاطہ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں اکثر سورج غروب ہونے پر سو جاتا ہوں اور طلوع پر اٹھتا ہوں ۔ نیند شاید کسی بھی اور چیز سے اس دنیا میں بہت زیادہ ضروری ہے ۔ یہاں امریکہ کے شہر نیویارک میں ہی ایک دن ایک شخص نے مسلسل آٹھ دن جاگتے رہنے کا ریکارڈ قائم کیا اور کچھ سال بعد ایک اور نے جب گیارہ دن کا ریکارڈ بنایا تو Guinness world نے جاگتے رہنے کا ریکارڈ ہی بند کر دیا کیونکہ اس سے جان کے جانے کا خطرہ تھا ۔ اس میں ماہر نفسیات کو پتہ لگا کے جاگنے کے کتنے زیادہ نقصانات ہیں ۔
ایلیس کی یہ کتاب خوابوں کے بارے میں بہت کچھ تفصیل اور دلیل کے ساتھ بتاتی ہے ۔ یہ خواب ہی بہت سارے تخلیقی لوگوں کو تخلیق کی معراج تک پہنچا گئے ۔ بیتھوون، شارلٹ برونٹے اور شیلے تو یہ تسلیم کرتے تھے کے وہ اپنی تخلیق رات کو خواب میں دیکھتے ہیں ۔ اب تو خواب شئیر کرنے کی دو بہترین ویب سائیٹس ڈریم بورڈ اور ڈریم کلاؤڈ کے نام سے موجود ہیں جہاں آپ باقی لوگوں کے ساتھ اپنے خواب اور ان کی تعبیر شئیر کر سکتے ہیں ۔
تبت کے بدھ ماتا کے گُرو کہتے ہیں کے جاگنے یا waking state کی جو آگہی یا consciousness ہے وہ بہت ہی کم درجہ کے state کی ہے ۔ اصل شعور خواب کی حالت میں ہے ۔ ایلیس انگلستان کے ایک شہر کی مثال دیتی ہے جہاں کوئلہ کی کان کے ملبہ کا پہاڑ ایک اسکول پر گر گیا اور سو سے زیادہ بچے نیچے دب کر مر گئے ۔ اس گاؤں میں پتہ لگا کے اکثر لوگوں نے ایسے خطرے کا خواب دیکھا تھا ۔ اس سے متاثر ہو کر ایک premonition سینٹر کھولا گیا جہاں لوگ اپنے خواب بتاتے تا کہ مستقبل میں ان حادثات سے بچا جا سکے لیکن ان کی غلط بیانیاں اور یادداشت کی کمزوری کی وجہ سے سینٹر بند کرنے پڑے ۔
ایک مشہور نفسیاتی ماہر LeBarge نے کہا تھا کے خواب اور حقیقت دونوں ہی زہن کی تعمیر ہے ۔ ایلس نے اس کتاب میں بہت ساری ڈیبیٹ lucid dream کے بارے میں کی ہے ۔ مجھے ان خوابوں کا بہت تجربہ ہے اور میرے زیادہ تر نیند کے خواب اس کیٹیگری کے ہی ہوتے ہیں ۔ میرے اکثر خواب بہت زیادہ میری awareness کے کنٹرول میں ہوتے ہیں ۔ میں اپنے لاشعور میں یہ محسوس کر رہا ہوتا ہوں کے یہ محض خواب ہے ۔ خاص طور پر جب میں کوئ خوفناک قسم کا خواب دیکھ رہا ہوتا ہوں تو اس بات سے بھی ساتھ کے ساتھ آگہی ہو رہی ہوتی ہے کے یہ خواب ہے ۔ آگسٹائین ہیپو نے کہا تھا کے شعور یا consciousness جسم یا باڈی سے الگ بھی exist کرتی ہے اور جب جسم نیند میں ہوتا ہے یا موت واقع ہوتی ہے تو بھی وہ قائم رہتی ہے ۔ ارسطو نے سب سے پہلے نیند میں آگہی کی بات کی تھی اور سقراط نے تو کہا تھا کے ؛
Death itself is a dreamless sleep
اسی کو نتزشے نے اپنی کتاب Birth of tragedy میں کچھ جگہ مکالموں میں کہا کے یہ محض خواب ہے اور اسے مزید خواب میں رہ کر ہی حل ہونا ہے ۔ برطانوی ناولسٹ گراہم گرین جو خود بھی ڈیپریشن کا مریض تھا اور خواب درج کرنے کی ایک ڈائری رکھتا تھا بھی خوابوں کی حقیقت پر بہت یقین رکھتا تھا ۔ اس نے اپنی بیوی کو کہا تھا کے اس کی بیماری بھی اس کی تحریروں کا ایک اچھا خاصا مواد ہے اور گرین اکثر اپنی خوابوں کی ڈائری سے لکھتے وقت بھی مشاورت کرتا تھا بلکل اسی طرح جیسے پال میکارٹنے اور بیتھوون اپنی موسیقی کی کمپوزئشن خوابوں سے لیتے تھے ۔
موجودہ دور کی زندگی میں عجیب و غریب قسم کی distractions آ گئ ہیں جنہوں نے قدرتی زندگیوں کو تباہ و برباد کر رکھ دیا ہے ۔ واپسی کے راستے ابھی بھی موجود ہیں اگر ہم چاہیں کے ہم نے اپنی زندگیاں قدرت کے مطابق گزارنی ہیں ۔ لیکن ہمیں تو پڑی ہوئ ہے مقابلہ کی ، ایک دوسرے کو مارنے کی ، مال و دولت اکٹھا کرنے کی ، جو ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد تھا ہی نہیں ۔
عتیق اللہ کے ایک شعر پر ختم کروں گا ۔
“آئینہ آئینہ تیرتا کوئ عکس
اور ہر خواب میں دوسرا خواب ہے “
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...