وہ سڑک کتنی ہموار اور حسین تھی جس کے دونوں اطراف انواع واقسام کے پھولوں کی ڈالیاں لٹک لٹک کر بس کی چھت کو چھو رہی تھیں ،بس کی کھڑکی میں سے ہاتھ باہر کو نکالتی تو کوٸی نہ کوٸی پھول پوروں کو چھو جاتا اور میں پوروں کو سونگھ کر پھول کی قسم کا اندازہ کر رہی تھی ،ہر چلتے قدم کے ساتھ جو پھولوںکی ڈال پوروں کو چھوتی اس کی خوشبو ہی نرالی تھی اور رنگ کی کیا بات ہو رنگ اتنے نرالے کہ آنکھ بھر کر دیکھتی تو لمحہ بھر میں چلتے چلتے کوٸی دوسرا انوکھا سا جنت مکاں رنگ آنکھوں کی پتلیوں میں ٹھہر جاتا جس کی پہچان میرے بس میں نہ تھی ،ایسے ہی رنگ و خوشبو سے کھیلتے کھیلتے بس کے سامنے والے بڑے شیشے سے سامنے والے سڑک کو جو دیکھتی تو سامنے اونچی نیچی پگڈنڈیاں نظر آتیں ،دور تک جاتا ہو اصاف شفاف راستہ کسی منزل مقصود کی طرح واضح دکھ رہا تھا ،پچھلی سیٹ سے ماں کی آواز بھی سناٸی دے رہی تھی جو اپنی نصیحتوں کی پوٹلی کھولے کچھ نہ کچھ حسب عادت بولے جارہی تھیں میں ان کی باتیں سنے بغیر ”ٹھیک ہے“ کہہ کر اپنی موج میں راستے کے دلفریب منظر میں کھوٸی آنے والی منزل کی تصویر کشی میں مصروف تھی کہ راستے اتنے ہموار اور مدبھری خوشبو سے مہک رہے ہیں تو منزل کتنی حسین ہوگی ، پھر ایک جگہ بس رک گٸی شاٸد منزل آگٸی سب مسافر بس سے اترنا شروع ہوگۓ اور میں بھی پرشوق نگاہوں میں خواب سجاۓ بس سے نیچے اتری اور نیچے اتر کر کھڑی ہوگٸی کہ ماں ابھی نہیں اتری تھیں بس سے ،مگر یہ کیا ساری بس خالی ہوگٸ مسافر اتر کر بکھر گیۓ مگر ان سب میں ”ماں“ نہیں تھیں ، میں ڈر کر کانپ گٸ اور اچانک آنکھ کھل گٸ ،وہ راستہ وہ خوشبو وہ منزل وہ ماں کی پیار بھری ڈانٹ آنکھ کھلتے ہی غاٸب ہوگئی اور میں بس ان لمحوں کے وجود کو خود میں کہیں چھپانے میں کوشاں ہوں کہ وہ لمحے کسی طرح وجود میں رنگ بن کر پھیل جاٸیں
نہ جنوں رہا نہ پری رہی
جو رہی تو بس بے خبری رہی