خواب حقیقت نہیں ہوتے، حقیقت میں بدلے جاتے ہیں ۔
کل میں Hugo Chavez کہ بارے میں پڑھ رہا تھا ۔ مجھے اس کی دو چیزوں نے ہمیشہ بہت متاثر کیا ، ایک انداز خطابت اور دوسرا غریب کا مقدمہ لڑنا ۔ امریکہ جیسی ہمسایہ طاقت کو للکارنا کوئ آسان کام نہیں تھا ۔
شاویز ایک اسکول ٹیچر کا بیٹا تھا اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔ فوج میں چلا گیا وہاں coup کی کوشش میں اندر ہو گیا اور باہر آنے کہ بعد تقریباً عین اسی وقت جب عمران خان نے پاکستان میں تحریک انصاف بنائ ، شاویز نے fifth Republic movement کِہ نام سے ایک انقلابی جماعت بنائ ۔ وینیزویلا اگر آپ کو یاد ہو beauty pageants اور تیل کی وجہ سے مشہور رہا ہے ۔ وہاں سے ابھی تک چھ مس universe ہیں اور پانچ مس ورلڈ ۔ دو تہائ آبادی contest بڑے شوق سے دیکھتی ۔ ۱۶ سال کی عمر کی لڑکیاں معدہ اور آنتڑیوں کا آپریشن کرواتیں کہ کھایا کم جا سکے یا دانتوں میں bags رکھواتین جن سے کھانا مشکل ہوتا ۔ شاویز کا مقابلہ بھی ۱۹۹۸ میں سابقہ مس یونیورس چھ فُٹ ایک انچ لمبی Irene Saez سے ہوا ۔ دنیا بھر کہ پنڈت saez اور اس کی اتحادی جماعتوں کو کلین سویپ دے رہے تھے ۔ ایسا نہ ہوا ، شاویز ۶۰% سے زیادہ ووٹوں سے جیتا ۔ آتے ہی اس نے جج فارغ کر دیے ۔ آئین توڑ دیا اور حلف بھی ایک نئے انوکھے انداز میں لیا ۔ اپنے مخالفوں کے head fry کرنے کا وعدہ تو اس نے عالمی پریشر کی وجہ سے پورا نہ کیا لیکن وینیزویلا کہ غریبوں کی زندگیاں بدل گیا ۔ ان کو ایک امید دے گیا ۔ لٹریسی ریٹ بڑھا گیا اور infant mortality ریٹ کم کرنے میں کامیاب ہوا ۔ breast enlargement کی سرجری پر پابندی لگائ ۔ ہر اتوار کو ٹی وی پروگرام ‘hello president ‘ میں عوام کی عدالت میں پیش ہوتا ۔ عوام سے مخاطب ہوتا ۔ ان کہ تلخ سوالوں کہ جواب دیتا ۔ پروگرام کئ گھنٹے چلتا کیونکہ خاتمہ کا کوئ وقت مقرر نہیں تھا ۔ اگر شاویز کینسر سے ۲۰۱۳ میں نہ مرتا تو شاید آج بھی وینیزویلا کا صدر ہوتا ۔ شاویز کی بہت ساری پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا اُمراء کا گٹھ جوڑ توڑنا قابل دید تھا ۔ وہ کوئ ایک فیصد طبقہ وینیزویلا کو کئ سال سے لُوٹ رہا تھا ۔ شاویز کی نیشنالئزیشن پالیسی بھٹو کی طرح مار کھا گئ ۔ شاویز نے پروفیسر عسکری جیسا آدمی قومی تیل کمپنی کا ہیڈ بنا دیا بجائے ایک بزنس ایکسپرٹ کہ ۔ اور اپنے سابقہ ملٹری کہ دوستوں کو اہم منصب دینا بھی backfire کر گیا ۔ لیکن شاویز نے وینیزویلا کیا پوری دنیا کو ہلا کہ رکھ دیا ، اپنے حکومت کہ انوکھے ماڈل سے۔ طالبان کا ملا عمر کا دور بھی افغانستان میں کافی حد تک شاویز جیسا تھا ، گو کہ اس میں مزہبی انتہا پسندی کا عنصر بہت زیادہ تھا ، شاویز کہ میں ڈٹرٹے کی طرح اخلاقی اقدار پر زیادہ زور دیا گیا ۔ لیکن تینوں نے اپنے آپ کو عام آدمی کے ساتھ relate کیا ۔ نواز شریف نے تو ۴۵ کروڑ کی گھڑی باندھ کر غریب کو گالی دی۔
پاکستان میں پرسوں الیکشن ہیں ، جو لگتا ہے ایک انوکھی طرز کی سوچ رکھنے والے ، عمران خان کو ایک بڑی جیت دے جائیں گے ۔ پاکستان میں بھی امیر لوگ پچھلے ستر سال سے قابض ہیں اور تعداد ۲% سے زیادہ نہیں ۔ باقی ۹۸ % نہ صرف ان کہ غلام بلکہ دشمن ۔ ان پر نسل در نسل استحصال نے ان کی کمر توڑ دی ہے ۔ عمران خان شاویز کی طرح غریبوں میں سے نہیں ، بلکہ اس elite کلاس سے ہے جس کہ خلاف اس کی جنگ ہے ۔ عمران بھی Saez کی طرح ورلڈ فیم کا ورثہ ہے لیکن اس celebrity status سے بھی وہ بغاوت کر گیا ، اور لندن کی شاہانہ زندگی اور محل چھوڑ کر اسلام آباد کہ پہاڑوں پر بسیرا کیا ہوا ہے اقبال کہ شاہین کی طرح ۔ عمران بھی نظام بدلنے آیا ہے ۔ لگتا ہے اب اس ۱۹۷۳ کہ آئین سے بھی جان چھڑانی پڑے گی جس کا amendments نے حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے ۔ عدلیہ کا نظام بھی بدلنا پڑے گا تا کہ شوکت اور فرخ جیسے جج بھرتی نہ ہو سکیں ۔ فوج کے سول معاملات میں رول پر بھی از سر نو جائزہ لینا پڑے گا ۔ جنرل باجوہ اس پر تیار ہیں ۔
عمران کی سب سے بڑی طاقت اوورسیز پاکستانی ہو سکتے ہیں ۔ ان کے پاس پیسہ بھی ہے اور پروجیکٹس بھی ۔ عقل بھی ہے اور تجربہ بھی ۔ وہ اپنی ماں دھرتی کے لیے کچھ کر جانا چاہتے ہیں ۔ میرے حب الوطنی پر یہ بلاگ کہ سب سے زیادہ مداح بھی وہ ہیں ۔ ان کہ دل میں میرے سے بھی سو گُنا زیاد شوق ہے پاکستان کہ لیے کچھ کر جانے کا ۔
وہ سارے عمران کی ایک آواز پر لبیک کہیں گے ۔ عمران کہ چیریٹی پراجیکٹ میں بھی ان کا رول بہت زیادہ رہا ہے ۔ میں اور وہ سب ، پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں اور عمران کی تبدیلی میں اس کا ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں ۔ ہمیں وہاں سے اشرافیہ نے نکالا، جس نے جو ادھر رہ گئے اب ان کا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔ یہ ایک معاشرتی جنگ ہے ۔ شاویز کہ ۱۹۹۸ کے الیکشن کی طرح انقلابی الیکشن ہیں ۔ شاویز اور ڈٹرٹے کی طرح ووٹ کہ زریعے آ کر عمران خان کو status quo توڑنا ہو گا ، اسی میں پاکستان کی جیت ہے اور علامہ اقبال کہ خواب کی تعبیر ۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔