خواب ، حقیقت اور متاع ِکوچہ
اچھے ناولوں کی بات کریں تو مارگریٹ میچل کا پُلزر انعام یافتہ ناول ’ گون وِد دی ونڈ ' 1936 ء (Gone with the Wind ) اوراس کا کردار ’ رہٹ بٹلر‘ ، اگر فلموں کی بات کریں تو اس ناول پر بنی 1939 ء کی اسی نام کی فلم ، جس نے 12ویں اکیڈیمی ایوارڈز میں دس آسکرز جیت کر ایک ریکارڈ قائم کیا تھا ، کا ذکر ضرور آئے گا ۔ اس فلم کی بات ہو گی تو کلارک گیبل ، جس نے اس فلم میں’ رہٹ بٹلر‘ کا کردار ادا کیا تھا ، کی بات نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے ۔ 1950 کی دہائی میں مشہور اداکارﺅں کی طرف آئیں تو مارلن منرو کے نام کے بغیر یہ فہرست نامکمل رہے گی ۔ کلارک گیبل نومبر 1960 ء میں 59 سال کی عمر میں فوت ہوا جبکہ 36 سالہ مارلن منرو کی پراسرار موت 5 اگست 1962ء کو ہوئی تھی ۔اتفاق کی بات ہے کہ یہ دونوں فلم ’ دی مسفِٹ ‘ (The Misfits ) میں اکھٹے تھے اور یہ ان دونوں کی آخری فلم تھی ۔ اس فلم سے ایک اور اہم نام بھی جڑا ہے جو اپنے زمانے کا ایک بڑا ڈرامہ نگار اور سکرین رائٹر تھا ۔ یہ آرتھر مِلر (Arthur Miller) تھا ۔ اِس فلم کا لکھا اُس کا سکرپٹ ماسٹر پیس کہلاتا ہے ۔ اس کا پلاٹ ایک مطلقہ عورت ، اس کے مغربی نیواڈا کے ایک’ کاﺅ بوائے ‘کے ساتھ تعلقات اور گھوڑوں کے کرتب دکھانے والے ایک دوست کے ارد گرد گھومتا ہے ۔ یہ فلم فروری 1961ء میں سامنے آئی تھی لیکن آرتھر مِلر اس سے بہت پہلے 1949ء میں ہی اپنے ڈرامے ’ سیلزمین کی موت ‘ ( Death of a Salesman) ، جس نے اُسی سال کا پُلزر انعام جیتا تھا ، کی بدولت شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچا چکا تھا ۔ آج یہ ڈرامہ بیسویں صدی میں لکھے گئے بہترین ڈراموں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے اور اس کی بازگشت کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طور سنائی دیتی رہی ہے لیکن اس سے پہلے کہ اِس ڈرامے پر مزید بات کی جائے ، یہ دیکھنا ہو گا کہ آرتھر مِلر اسے لکھنے سے پہلے کس زمانے اور اس کے حوادث سے گزرا تھا ۔
آرتھر مِلر17 اکتوبر 19155ء کو ایک پولش نژاد یہودی امریکی گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔ اس کے ہوش سنبھالنے تک امریکہ سرمایہ داری کے اس مالی بحران کا شکار ہونا شروع ہو گیا تھا جو بعد میں ’ گریٹ ڈیپریشن ‘ کہلایا اورجس نے امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک پر بھی اپنے گہرے اثرات چھوڑے تھے ۔ 1929ء میں وہ چودہ سال کا تھا جب اس بحران کا آغاز ہوا تھا اور اس سے امریکی معیشت اگلے دس سال بری طرح متاثر رہی تھی ۔ 1928 ء میں امریکہ میں بے روزگاری کی شرح لگ بھگ 5 فیصد تھی جو 1935 ء میں 20 فیصد سے اوپر چلی گئی تھی ۔ اس کا گراف دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے گر کر 4 فیصد سے نیچے تو آیا لیکن جیسے ہی جنگ ختم ہوئی یہ دوبارہ اوپر اٹھا اور 1949 ء میں یہ لگ بھگ7 فیصد تھا ۔ آپ اب بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ آرتھر مِلرکا ’ انسانی تجربہ ‘ کس زمانے کے عام امریکی پر بنیاد رکھتا ہے ۔ اس کا اپنا خاندانی تجربہ بھی اہم ہے ۔ اس کی ماں عورتوں کے کپڑے تیار کرتی تھی اور اس کے کارخانے میں سینکڑوں ملازم تھے ۔ نیویارک کے مینہٹن (Manhattan) علاقے میں رہتے ہوئے اس کے خاندان کے پاس ’ کوئینز‘ میں ایک ’ گرمیوں کا گھر ‘ (Summer House) بھی تھا ۔ گھر میں گاڑی تھی اور اس کے لئے ایک ڈرائیور بھی ملازم تھا ۔ 1929ء میں جب معاشی بحران کا آغاز ہوا تو اس خاندان کی امارت ہوا ہو گئی اور اسے’ بروکلین ‘ جا کرعسرت میں رہنا پڑا ۔ گھر کے مالی اخراجات پورے کرنے کے لئے آرتھر کو بھی محنت کرنا پڑتی تھی ۔ وہ سکول جانے سے پہلے لوگوں کے گھروں میں ’ ڈبل روٹی ‘ پہنچا کر پیسے کماتا تھا ۔ سکول کی تعلیم کے بعد بھی کالج کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اسے چھوٹے موٹے کام کرنا پڑتے ۔ مشیگن یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران بھی ، جہاں صحافت اس کا بنیادی مضمون تھا ، اسے ’ روزنامہ ’ مشیگن ڈیلی‘ کے لئے کام کرنا پڑتا تھا ۔ اسی عرصے میں اس نے اپنا پہلا ڈرامہ ’ No Villain ‘ لکھا تھا ۔ اس کی بعد کی زندگی کا بیان یہاں اہم نہیں ہے سوائے اس کے کہ مارلن منرو پانچ سال تک اس کی دوسری بیوی اور وہ اس کا تیسرا خاوند رہا تھا اور یہ بھی کہ اسے دیگر کئی ادیبوں کی طرح میکارتھی ازم کا بھی شکار ہونا پڑا تھا ۔ وہ 89 برس کی عمر میں فروری 2005 ء میں فوت ہوا ۔
آرتھر مِلر نے ’ فلیش بیک ‘ کی تکنیک برتتے ہوئے اس ڈرامے کا تانا بانا بُنا ہے ۔ آغاز تھکے ہارے پھیری لگا کر چیزیں بیچنے والے وِلی کی گھر واپسی سے ہوتا ہے کہ اب وہ طویل مسافتوں پرکار چلانے کے قابل نہیں رہا ۔ لنڈا ، اس کی بیوی ، جو اس کی ذہنی حالت اور کچھ دن پہلے ہوئے کار کے حادثے کی وجہ سے متفکر ہے ، وِلی کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ اپنے باس سے ایسے کام کی درخواست کرے جس میں اس کی سفر سے جان چھوٹ جائے ۔ وِلی اس بات کا شاکی ہے کہ اس کا بیٹا ’ بِف لومین‘ تاحال زندگی میں کچھ کر نہیں پایا ۔ وہ سکول میں ایک اچھا کھلاڑی تھا لیکن ریاضی میں پاس نہ ہونے کی وجہ سے کالج نہ جا سکا تھا ۔ بِف اور اس کا بھائی ’ ھیپی لومین‘ وِلی اور لنڈا سے ملنے آئے ہوتے ہیں اور دوسرے کمرے میں اپنے بچپن کی باتیں کرنے کے دوران اپنے باپ کی بگڑتی ذہنی حالت پر بھی گفتگو کرتے ہیں ۔ وِلی اپنی بیوی سے شکوہ کرتا ہے کہ اس کے بیٹوں نے اب تک کچھ کرکے نہیں دکھایا ۔ باپ کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے ’ بِف‘ اور ’ ھیپی‘ اسے بتاتے ہیں کہ اگلے روز ’ بِف‘ کاروبار شروع کرنے کے ایک منصوبے پر عمل کرنا شروع کر دے گا ۔ اگلے روز وِلی اپنے باس ’ ہوورڈ ‘ کے پاس اپنے ذمے کام کی تبدیلی کے لئے جاتا ہے اور بِف بھی اپنی کاروباری منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نکلتا ہے ۔ دونوں ناکام لوٹتے ہیں ۔ بیٹوں اور باپ کی ملاقات شام کو ایک ریستوراں میں ہوتی ہے ۔ بِف کی بات سننے کی بجائے وِلی ماضی میں کھو جاتا ہے ؛ اسے یاد آتا ہے کہ کس طرح ایک دن بِف اس کے کمرے میں در آیا تھا جب وہ ایک بار پھیری لگانے کے دوران ایک استقبالیہ پر کام کرنے والی لڑکی کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں بستر میں ہوتاہے ۔ باپ بیٹے کی اس پر تکرار ہوتی ہے اور بیٹا باپ کو جھوٹا اور دھوکے باز قرار دے کر کمرے سے نکل جاتا ہے ۔ یہیں سے بِف اور وِلی کے درمیان پاڑ پڑتا ہے ۔ بف ریستوراں سے بھی اسی انداز سے اٹھ جاتا ہے جس کی پیروی میں ھیپی بھی وہاں سے چلا جاتا ہے ۔ رات دیر گئے جب سب پھر سے گھر میں اکھٹے ہوتے ہیں تو بِف باپ سے اس کے غیر حقیقی رویے پر تنقید کرتے ہوئے اسے باور کراتا ہے کہ وہ سب معمولی لوگ ہیں اور انہوں نے عام سی سستی زندگی ہی جینی ہے ۔ وِلی بیٹے کی بات کا اصل مطلب سمجھنے کی بجائے پھر خیالوں میں بھٹکنے لگتا ہے اور ’زندگی میں کامیاب ’ ڈیو سنگل مین ‘ کے بارے میں سوچتا ہے ایسے میں مدتوں پہلے مرا بھائی ’ بین‘ بھی اس کے خیالوں میں در آتا ہے جو اسے ’ آپ گھات‘ کا مشورہ دیتا ہے ۔ وِلی یہ سوچ کر کہ اس کے مرنے پر بِف کو بیمہ کی رقم مل جائے گی اور وہ اس سے کچھ کر پائے گا ، اٹھتا ہے اور کار لے کر گھر سے نکل جاتا ہے ۔ ڈرامے کا اختتام وِلی کے جنازے پر ہوتا ہے ۔ ہر کوئی شش و پنج میں ہے کہ وِلی نے ایسا کیوں کیا خاص طور پر اس کی بیوی لِنڈا جس نے اسی روز مکان کی آخری قسط جمع کرائی ہوتی ہے ۔
وِلی جوادھیڑعمری میں غیر یقینی ذہنی حالت کا شکار ہے ، خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اور خود فریبی میں مبتلا ہے ۔ وہ اپنی زندگی میں بیتے واقعات کو پھر سے تخیل میں لا کر انہیں حقیقت سمجھتا ہے ۔ دھن دولت کے مالک ’ ڈیو سنگل مین ‘ کی طرح کا ایسا کامیاب بزنس مین بننا چاہتا ہے جو اپنی منشا کے مطابق کام کرنے کے لئے آزاد ہو۔ اپنے بھائی ’ بین ‘ کی طرح امیر بننا چاہتا ہے جو ایک بار افریقہ جا کر ہیروں کے کاروبار کی وجہ سے مالدار ہوا تھا ۔ چارلی ، اس کا ہمسایہ ایک انسان دوست انسان ہے لیکن وِلی اس سے حسد کرتا ہے کیونکہ اس کے بیٹے وِلی کے اپنے بیٹوں کے مقابلے میں زندگی میں کامیاب ہیں ۔ وہ وِلی کو نوکری کی پیشکش بھی کرتا ہے لیکن وِلی اسے ٹھکرا دیتا ہے ۔ بِف کا ’ امریکی خواب ‘ پھیری لگانے والے باپ کے الٹ ہے ۔ وہ کھیتی باڑی کرنا چاہتا ہے اور اپنے ہاتھوں کی محنت سے مستقبل سنوارنا چاہتا ہے۔ ادھر چارلی اور برنارڈ لگن اور محنت کی بدولت امریکہ کے کامیاب شہری ہیں ۔
یہ ڈرامہ فروری 19499ء میں پہلی بار براڈوے تھیئٹرز کے سٹیج پر پیش ہوا تھا اور لگاتار سات سو سے زائد بار پیش کیا جاتا رہا ۔ تب سے یہ کئی بار سٹیج کی زینت بن چکا ہے اور فلم سازوں کی توجہ کا مرکز بھی رہا ہے ۔ اسے پہلی بار1951ء میں سٹینلے کریمر نے فلمی سکرپٹ میں ڈھال کر فلم بنائی تھی جس کا ہدایتکار ہنگرین ’ لیزلو بینیڈک ‘ تھا ۔ اس پر سوویت یونین (1960ء ) ، سویڈن (1961ء ) اور جرمنی (1968ء ) میں بھی نامور فلمسازوں نے فلمیں بنائیں ۔ اس پر امریکہ اور برطانیہ میں پانچ بار ٹیلی فلمیں بھی بنیں جن میں سے 1985ء والی امریکی فلم اہم ہے ۔ اس میں وِلی کا کردار ڈٹسن ہوفمین نے ادا کیا ہے ۔
2016 ء میں ایرانی فلم میکر و ہدایت کار اصغر فرہادی نے اس ڈرامے کو اپنی فلم ’ فروشندہ ‘ ((The Salesman ) میں استعمال کیا ہے ۔ ’ فروشندہ ‘ کی کہانی ایک نوجوان جوڑے ایماد اور رعناکی کہانی ہے ۔ ایماد ایک استاد ہے جبکہ رعنا ایک گھریلو خاتون ہے لیکن یہ دونوں ایک ڈرامہ گروپ کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں جو فارسی میں ڈھلے آرتھر مِلر کے ڈرامے کو پیش کر رہا ہے ۔ یہ جوڑا اس کے مرکزی کردار ادا کررہا ہے ۔ اس دوران اسے نقل مکانی کرنی پڑتی ہے کیونکہ جس عمارت میں وہ پہلے رہ رہا ہوتا ہے اسے گرایا جا رہا ہے ۔ ایماد اور رعنا جس نئے اپارٹمنٹ میں منتقل ہوتے ہیں اس میں پہلے ایک ایسی عورت رہ چکی ہوتی ہے جو شاید طوائف تھی جس کے طلب گار اس سے رات میں رابطہ کرتے تھے ۔ رعنا ایک رات دروازے کی گھنٹی بجنے پر ، یہ سمجھتے ہوئے کہ ایماد ہو گا ، دروازہ کھول کر غسل خانے میں چلی جاتی ہے لیکن یہ ایماد نہیں ہوتا ۔ یوں رعنا جنسی جبریت کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ شدید زخمی بھی ہو جاتی ہے ۔ یہ واقعہ ایماد اور رعنا کے درمیان رشتے میں دراڑیں ڈالنے کا موجب بنتا ہے اور ان کی ازدواجی زندگی مشکل میں پڑجاتی ہے ۔ آرتھر مِلر نے اپنے ڈرامے میں ماضی کوحال کے متوازی چلایا تھا جبکہ اصغر فرہادی نے اُس کے ڈرامے اور ایماد و رعنا کی زندگی کو بین بین چلایا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ وِلی اور ایماد میں کچھ ایسی مماثلت دکھانا چاہ رہا ہے؛ جیسے وِلی اپنے بیوی بچوں کو اچھی زندگی نہیں دے پاتا اسی طرح ایماد اپنی بیوی کو ’ ریپ‘ سے نہیںبچا پاتا ۔ فرہادی نے اس فلم میں دیواروں کے اکھڑے پلستر اور گرتی ہوئی عمارت کی دیواروں میں پڑی دراڑوں کو ان دراڑوں سے بھی جوڑا ہے جو ایماد اور رعنا کے تعلقات میں در آتی ہیں ۔
یہ بات بہت واضع ہے کہ اصغر فرہادی نے آرتھر مِلر کے ڈرامے کو بہت عمدگی سے اپنی اس فلم میں برتا ہے اور’ جدائی نادر از سمین‘ ( A Separation) جیسی اپنی ایک اور شاندار فلم تخلیق کی ہے لیکن’ فروشندہ ‘ دیکھ کرمجھے نہ جانے کیوں یا شاید بجا طور پر 1970ء کی ’اردو/ ہندی فلم ’ دستک ‘ یاد آ گئی جس کا سکرپٹ راجندر سنگھ بیدی نے لکھا تھا ۔ یاد رہے کہ یہ بیدی کے اپنے ہی ریڈیائی ڈرامے ’نقل مکانی‘ کے پھیلاﺅ پر مبنی ہے اور اس نے خود ہی اسے پروڈیوس کرنے کے علاوہ اس کی ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دئیے تھے ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10154035600556895