بیس کروڑ عوام….جن میں سے چند مراعات یافتہ خاندانوں کو الگ کر دیں تو باقی سارے کے سارے مظلوموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پولیس کسی بھی وقت ان سے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ جس دفتر میں جاتے ہیں ان کا کام نہیں ہوتا۔ سرکاری اہلکار ان کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مہنگائی گلے گلے تک ہے۔ انتہا یہ ہے کہ انہیں کسی بھی وقت سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے، دھوپ ہو یا طوفان، برف باری ہو یا بارش…. وہ ایک انچ آگے نہیں جا سکتے، اس لیے کہ روٹ لگا ہوا ہے۔ صدر یا وزیراعظم یا کسی اور حاکم کی سواری گزر رہی ہے۔ سواری کیا ہے، ایک ایک حاکم کے آگے پیچھے بیسیوں قیمتی گاڑیاں جو فراٹے سے گزرتی ہیں اور رکے ہوئے مجبور عوام کے چہروں پر غلامی کی دھول پھینکتی جاتی ہیں۔
افسوس! ان مظلوم لوگوں کی کسی کو پروا نہیں۔ پنڈی گھیب تلہ گنگ کے علاقے کا ایک محاورہ ہے: ما پِنّے تے پتر گھوڑے گھِنّے۔ یعنی ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری میں مگن ہے۔ یہ محاورہ مجھے اُس وقت یاد آیا جب میں نے دیکھا کہ میرا ایک دوست ٹی وی سکرین پر مسلم یونین کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر یورپ کی یونین بن سکتی ہے تو مسلمان ملکوں کی یونین کیوں نہیں بن سکتی؟ وہ سخت جذباتی ہو رہا تھا۔ اس قدر کہ جذبات کی شدت میں اُس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پوری طرح سمجھ میں نہیں آ رہے تھے۔ اُس کا کہنا تھا کہ کوئی پاسپورٹ نہ ہو۔ بس مسلمان ملکوں میں چلتے جائیں!
یہ ایک خاص کلاس ہے جنہیں ملک کے اندر کی کوئی پروا نہیں۔ کوئی اخباروں میں لکھتا ہے تو ہمیشہ ترکی اور مصر کی بات کرتا ہے اور بیس کروڑ پسے ہوئے عوام کو فخر سے یہ بتاتا ہے کہ عالمِ اسلام کے فلاں فلاں لیڈروں سے میرے تعلقات ہیں اور فلاں فلاں افغان حریت پسند میرے ہاں قیام پذیر رہے۔ کوئی عالمِ اسلام کے اتحاد کا ایسا خوبصورت نقشہ کھینچتا ہے کہ سبحان اللہ۔ وہ کہے اور سنا کرے کوئی۔ خواب بیچنے والے! سراب کو پانی بنا کر پیش کرنے والے! کسی کو پروا نہیں کہ سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے۔ ادارے ختم ہو رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے لاہور، پشاور اور کراچی تک سفر کرنا ایک دردناک عمل ہو گیا ہے۔ ریل ہے نہ جہاز۔ تین ماہ میں خارش زدہ ایئرلائن کی چار ہزار پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں۔ اغوا برائے تاوان کی انڈسٹری زوروں پر ہے۔ پانی نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی راشن بندی کا شکار ہے۔ نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل رہیں۔ بزنس وہ کر نہیں سکتے۔ جہاں چند خانوادوں کے ہاتھ ہی میں سب کچھ ہو، وہاں ایک عامی کا بچہ کیا بزنس کرے گا؟ لوہے کے کارخانوں سے نکل کر اب ان خانوادوں کے کھرب پتی بچوں نے مرغبانی تک کو اپنی اجارہ داری میں لے لیا ہے۔ ریاست کی ساری سہولیات ان کے قدموں میں غلاموں کی طرح پڑی ہیں۔ ان سسکتے عوام کو خواب اور سراب دکھائے جا رہے ہیں کہ آپ بغیر پاسپورٹوں کے مسلمان ملکوں میں سفر کریں گے!!
مسلمان ملکوں کا اتحاد! خواب تو یہ میرا بھی ہے لیکن کیا زمینی حقائق میرے خوابوں کا ساتھ دے رہے ہیں؟ پچپن مسلمان ملکوں میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں مسلمان جا کر اس طرح آباد ہوں جیسے وہ یورپ اور امریکا میں آباد ہو رہے ہیں۔ آخر مشرق وسطیٰ کے امیر ممالک مسلمانوں کو شہریت کیوں نہیں دیتے؟ کیا ”کفیل“ سسٹم غلامی کا دوسرا نام نہیں؟ کیا بے شمار ایسی مثالیں موجود نہیں کہ تیس تیس سال تک کامیاب بزنس کرنے والے مسلمان، ان ملکوں میں، راتوں رات قلاش ہو گئے اور جیلوں میں پہنچا دیئے گئے۔ صرف اس وجہ سے کہ ”کفیل“ صاحب ناراض ہو گئے! آپ وہاں ایک دکان، ایک ٹیکسی حتیٰ کہ ایک مربع فٹ زمین اپنے نام نہیں کرا سکتے۔ اس کے مقابلے میں ”کفار“ کے ملکوں میں آپ کی جائیداد بھی ہے اور حقوق بھی۔ آپ کی ملازمتیں بھی ہیں اور کاروبار بھی۔ یہاں تک کہ آپ سوشل سکیورٹی (گزارہ الاﺅنس) لے کر ماشاءاللہ تبلیغ دین کا کام بھی کر رہے ہیں! (اس کی شہادتیں موجود ہیں، تفصیل پھر سہی!)
ہر مسلمان کی طرح میرا بھی خواب ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر…. مسلمانوں کی ایک مملکت ہو، ایک خلیفہ ہو۔ ایک اکائی ہو۔ پوری دنیا کے نصاریٰ اور یہود و ہنود پر لرزہ طاری ہو جائے۔ ایک مرکزی اتھارٹی کے تحت اجتہاد کرنے والا ادارہ ہو، جس کی آرا پورے عالمِ اسلام پر نافذ ہوں۔ لیکن زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ شام اور مصر کا اتحاد نہ چل سکا۔ الگ ہو گئے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان اکٹھے نہ رہ سکے۔ شام 1970ءمیں اردن پر حملہ آور ہوا۔ عراق نے 1980ءمیں ایران پر فوج کشی کی۔ شام نے 1976ءمیں لبنان پر قبضہ کر لیا۔ شمالی اور جنوبی یمن دس سال تک ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے۔ عربوں کی آپس میں لڑائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد، ان مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے جنہیں اسرائیل کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کرنا پڑا۔ آج ہم مانیں یا نہ مانیں، جب امریکا ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بات کرتا ہے تو ان مسلمان ملکوں میں، جو ایران کے مغرب میں واقع ہیں، اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ دوسری طرف سے ایران اپنے انقلاب کو برآمد کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ لبنان، شام اور دوسرے مسلمان ملکوں میں اپنے حمایتی گروہوں کی ہر طرح کی مدد کرتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عرب ممالک نے اسرائیل کی طرف تعلقات کا ہاتھ بڑھانا شروع کر دیا۔ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے بعد مصر اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات تو قائم ہو ہی گئے تھے، 1994ءمیں دوسرے عرب ملکوں نے بھی ان خطوط پر سوچنا شروع کر دیا۔ اسی سال اکتوبر میں اردن اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ ہوا اور سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ مراکش اور اسرائیل نے ”رابطہ دفاتر“ کھول لیے۔ اسی سال تیونس اور اسرائیل نے اپنے اپنے ملکوں میں قائم بیلجیئم کے سفارت خانوں کے ذریعے ایک دوسرے سے باقاعدہ رابطے قائم کیے۔
یہ رونا آج کا نہیں ہے۔ مسلمان بادشاہ امیر تیمور نے ہندوستان کے تغلق بادشاہ کو تباہ کرنے کی پوری کوشش کی۔ اسی تیمور نے مصر کے مملوک حکمرانوں اور سلطنتِ عثمانیہ کے فرمانروا بایزید اوّل کے پرخچے اڑا دیے ۔ حلب اور دمشق میں خون کے دریا بہائے۔ بابر نے کسی ہندو راجہ سے نہیں، ہندوستان کا تخت ابراہیم لودھی سے چھینا اور سلطان ٹیپو کے خلاف، نظام حیدر آباد نے جو فوج انگریزوں کی مدد کے لیے بھیجی، اُس کی قیادت ایک ایرانی کمانڈر کر رہا تھا۔
اللہ کے بندو! پہلے اس ملک کی فکر کرو جو تم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا اور جہاں آج سب کچھ ہے صرف اسلام نہیں۔ اس لیے کہ اسلام انصاف کا نام ہے، برابری کا نام ہے، قانون کی حکمرانی کا نام ہے۔ اسلام یہ نہیں کہ صبح کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلو تو اسلام کو مسجد میں مقفل کر دو کہ اب ظہر کی نماز پر ملاقات ہوگی اور دن بھر ہم معاملات اپنی مرضی سے طے کریں گے۔ لاکھوں لوگوں کی زبان سے یہ الفاظ تم نہیں چھین سکتے کہ اسلام فلاں فلاں ملکوں میں رائج ہے اور خود مسلمان، مسلمان ملکوں میں رہتے ہیں! خدا خوش رکھے حافظ سعید کو جو وی آئی پی کلچر کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں گئے اور کہا کہ برطانوی وزیراعظم چار بیڈ کے پرانے گھر میں رہتا ہے جو چند مرلوں میں بنا ہے اور چھوٹی سی گلی میں واقع ہے۔ انہوں نے برملا کہا کہ یہ ہے اسلامی طرز !
پہلے اس ملک کی فکر کرو اور حکمرانوں کا اس طرح احتساب کرو جیسے امریکہ، کینیڈا، سنگاپور اور آسٹریلیا میں ہوتا ہے۔ خواب اور سراب بیچنے سے پہلے وہ کچھ تو کرو جو ہو سکتا ہے!!