انائس نن (Anais Nin)
انائس نن، فرانس کی اہم کہانی اور ناول نگار خاتون 1903ء میں پیدا ہوئیں۔ پرورش امریکہ میں ہوئی۔ ان کی ڈائری کئی جلدوں میں شائع ہوکر قبولیتِ عام حاصل کرچکی ہے۔ مندرج اقتباس انہی ڈائریوں میں سے ہے۔
*
مجھے ایریکا ژونگ نے کہا "اب خوابوں سے آگے جاؤ!"
یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ جس لفظ کو ہم عمومی کی حد تک لے جائیں، اس کی بنیاد کی جانب بھی ملتفت ہوں۔ خواب کی تعریف کیا ہے۔ یہی ناکہ وہ خیالات اور تصورات کہ جو وجدان کے بس میں نہ ہوں، مرتکز ہو کر آپ کا منظر نامہ بنیں۔ ضروری تو نہیں کہ یہ ساری باتیں اور خیالات نیند کی صورت ہی میں آپ کے سامنے متشکل ہوں۔ یہ تو صرف وہ خیالات ہوتے ہیں جو آپ کے شعور، معنویت اور وجدان کے دائرہء اختیار سے نکل جاتے ہیں۔ اس لیے خواب کی صف میں، دن میں سوچے جانے والے وہ مناظر، وہ خواہشیں اور تصورات بھی آتے ہیں، جو آپ کے لاشعور کی تہہ سے اپنے وجود کا بیج حاصل کرتے ہیں۔ ادب کے حوالے سے ہم ان کے ساتھ تعلقات کی سطح کی بنیاد کا کھج لگاتے ہیں۔ نروسس کے حوالے سے مدافعانہ حدیں استوار ہوتی ہیں۔ مختصر یہ کہ ایک ادیب، تحریر کے حوالے سے، بلا خوف و خطر ایک سطح خیالات سے دوسری جانب نہ صرف سفر کرتا ہے، بلکہ ان کو خاکستر بھی کردیتا ہے۔
نفسیاتی تطہیر نے ثابت کیا کہ خواب ہمارے لاشعور کی کلید ہوتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات جس رشتے کو لاشعور کے حوالے سے مربوط کرتا ہے، شاعر کو اپنی تحریر کے حوالے سے پہلے ہی جانتا، پہچانتا اور اس پر عملدرآمد بھی کرتا ہے۔ استعارے کا مطلب ہوتا ہے کہ بہت سی مختلف حقیقتوں کا ارتباط کرنا۔ بہت سے کہانی کار، خواب کو آرائش زبان کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اس میں روزمرہ کا مرحلہ ہی نہیں آنے دیتے۔ مگر آجکل کے ہم عصر لکھنے والے ایک دوسرے کی تحریر کے اثرات کا جائزہ لینے میں دقیق نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
مجھے یاد ہے میں جب گیارہ سال کی تھی، میں نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں ایک ڈرامہ لکھا تھا، جس کا انجام بڑا غیر متوقع تھا۔ ڈرامے کا موضوع ایک اندھا باپ اور اس کی بہت چاہنے والی بیٹی اور پھر انکی ناقابلِ برداشت مفلسی کا حصار و اندمال تھا۔ مگر وہ لڑکی ہمیشہ اس غربت، اس تنگی اور تاریکی کو خوبصورت منظروں، باغوں اور ماحول کے بیان کے حوالے سے اپنے اندھے باپ کے لیےطلسم باندھا کرتی تھی۔ پھر کیا ہوا ایک ڈاکٹر آیا، اس نے باپ کا آپریشن کیا، اس کی بینائی واپس آگئی مگر المیہ یہ ہوا کہ جو کچھ وہ سنتا رہا تھا، اس کے برعکس مفلسی و لاچاری کی وسعتیں اس کے آنگن میں پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ یہ دیکھ کر رویا نہیں، بے ہوش نہیں ہوا، بلکہ اس نے اپنی بیٹی سے کہا "تم نے مجھے جو بتایا اور بتاتی رہیں، وہ یہاں مجھے زندگی میں نظر تو نہیں آتا، مگر اب ہم اپنی زندگی کو انہی خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کریں گے۔ تمہارے خواب کو حقیقت بنانا ہوگا۔"
سائنسدانوں کے نزدیک خواب، انسانی زندگی کی ایک بنیادی اور واقعی ضرورت ہیں۔ یہ زندگی کے ستم زدہ راستوں پر چھاؤں بن کر ذہن اور خیال کو زندگی کرنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ ہم جب روحانی استقرار میں بھی کھوکھلا پن محسوس کرتے ہیں، تو ہماری زندگیاں، مشینی آلات کی طرح آٹومیٹک معلوم ہوتی ہیں۔ شاعر اور ادیب اپنی تحریروں کے حوالے سے تخلیقی اور متحرک علامات کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم ایک زندگی میں، کئی زندگیوں کی سطح پر زندگی کرتے ہیں، جیسے مختلف نہریں، سیلاب آنے کے رُوپ کو مقبدل کرتی ہیں۔ اس طرح فنکارانہ تحریریں اعصلابی سیلاب کو سیرابی میں منتقل کرتی ہیں۔ ہر چند نو مشق ڈوب جاتے ہیں، مگر ایک مشاق ادیب، شعوری ساخت کو توڑ کر ایک ہیولہ اور ایک رمزیاتی ماحول بناتا ہے۔ ایک نیم پاگل کے لیے شعور و لاشعور کا انتباط ایک مشکل اور لانیحل مسئلہ ہوتا ہے۔ مگر ادیب کہ جسے اس ارتباط کا علم اور تجربہ ہوتا ہے، وہ جزبے، حسیات، وجدان اور ادراک سب کا امتزاج کرنا جانتا ہے۔ لاشعور کی مصنوعی تصویر کشی اپنے فروعی ہونے کو فوراً ثابت کردیتی ہے۔
جو کام ماہرِ نفسیات کرتا ہے، وہی کام ایک ناول نگار کو کرنا ہوتا ہے۔ اتنا کھوج لگاؤ کہ آخر کو زنجیر کے ٹوٹے ہوئے سرے کا پتہ چلالو۔ ماہرینِ نفسیات ان ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں، زنجیروں اور رشتوں کو جوڑتے اور پھر ذاتی زندگی کے علم اور تجربے کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ آج کے بہت سے لکھنے والے ان دونوں کیفیتوں کو ملحوظ رکھ کر تخلیقی عمل سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ہم آج کی تحریروں میں خواب کا اثر حقیقت پر اور حقیقت کا اثر خواب میں دیکھ رہے ہیں۔ فن، ہماری زندگی کی مختلف سطحوں کو منکشف کرتا ہے۔ کافکا کا تقریباً تمام ناول اور دیگر تخلیقات جاگتے میں خواب کے عمل کا نتیجہ ہیں۔ پراؤسٹ نے "Remembrance of things past" میں سوتے جاگتے کے تجربے کو کمال کلاسیکی انداز میں بیان کیا ہے۔ میں نے خود خواب کی مختلف سطحوں کو یوں بیان کیا ہے۔
"خواب کی پہلی سطح پر علم تھا۔ پلکوں کےبند ہونے کے باوجود روشنی کو دیکھا جاسکتا تھا۔ جہاں قدموں کا کوئی نشان نہ تھا، جہاں ہنسی میں کوئی گونج نہ تھی، مگر جہاں بھوک اور خوف لاانتہا تھے۔ یہ وہ جگہ تھی کہ جہاں بادبان بغیر ہواؤں کے بھی ہلتے تھے۔ خواب ایک طرح کا تحلیلی عمل تھا۔ اس میں پوری دنیا کا دخل نہیں تھا۔ مگر رات اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ آتی تھی۔ تخلیقی کیفیت کہ جس میں وقت بھی جزبات کا محکوم تھا۔ میں نے قدم بہ قدم خواب کو ملبوس کیا۔ میں حیران بھی ہوئی کہ جب دن، اپنا ثانی لے لر واپس نہ آیا۔"
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...