“خواب کے ذریعے آرٹ کو واضح کرنا ، انیسویں صدی کے یورپ کے عقلیت پسندی پر کلی انحصار کا ردّ عمل تھا اورا سی ردّ عمل میں آرٹ کا ایک نیا نظریہ وضع ہوا۔ آرٹ اور خواب کا تعلق نئی بات نہیں تھی ،لیکن اسے باقاعدہ نظریے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش نئی کہی جاسکتی ہے۔ نطشے کہتا ہے کہ یہ خواب ہی تھے ، جن کے ذریعے پہلے پہل خداؤں کی عظیم الشان شبیہیوں نے انسانی روح کے روبروظہور کیا؛ا نسان خود سے برتر ہستیوں کا تصور کرنے کے قابل ہوا۔ نطشے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک فنکار کے لیے خواب کی وہی اہمیت ہے جو فلسفی کے لیے دنیا کی حقیقت کی ہوتی ہے۔ فنکار ، خواب کے ذریعے ، دنیا کی تعبیر کرتا ہے۔خواب میں صرف فوق بشر شبہییں ہی نظر میں نہیں آتیں ، بلکہ گھمبیر، مایوس کن ، اداس، تاریک چیزیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ بہ قول نطشے خواب میں زندگی کا مکمل ” طربیہ خداوندی “دکھائی دیتا ہے۔ ۔ خواب آدمی کی جنت بھی ہیں اور جہنم بھی ۔ خواب میں خود آدمی اپنی تمثال سازی کی غیر معمولی صلاحیت سے آگاہ ہوتا ہے (ا س لیے ہر شخص فنکار ہے )۔ خواب اور بیداری میں دو انتہاؤں کا فرق ہے۔ بیداری انسان کو اس کے اپنے وجود کی جزوی سچائی سے آگاہ کرتی ہے،جب کہ خواب میں اس کی ہستی کی ان گہرائیوں اور اعلیٰ ترین سچائیوں کی انکشاف ہوتا ہےجو بیداری کی حالت میں اوجھل رہتی ہیں۔ نطشے کی نزدیک یونانیوں کا اپالو دیوتا ، خواب کے تجربات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اپالو کا لفظی مطلب ” درخشاں رہنے والا” اور غیب گوئی کی صلاحیت کا حامل ہے۔ اپالو کو یہ صلاحیت خواب کے سبب ملی ہے ۔(تعبیر الرویا میں ایک حدیث نبوی درج ہے کہ سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے)۔ ۔ یہ صلاحیت اسے (اپالو کو)انفرادیت دیتی ہے۔ اپالوا نفرادیت کے اصول (principium individuationis) کی پرشکوہ علامت ہے۔
نطشے خواب اور آرٹ میں سب سے اہم مشتر ک نکتہ یہ پیش کرتا ہے کہ دونوں “نقش ” یعنی (semblance)ہیں۔ وہ حقیقی نہیں ہیں مگر ان کا ہونا التباس بھی نہیں ہے ، نہ ان کے دیکھنے سے ملنے والااثر التباس ہے۔ وہ شبہیں ہیں جنھیں وضع کیا گیا ہے تاکہ فطرت کی قدیمی و اصلی حقیقت سے ہمکنار ہوا جاسکے۔ بیداری کی حالت میں ،جسے غیر فنکارانہ حالت کہنا زیادہ مناسب ہے، آدمی جس حقیقت سے دوچار رہتا ہے ،وہ زمان و مکان کی پابند اور تجربی ہے ،لیکن خواب میں آدمی اس محدود حقیقت سے نجات پالیتا ہے۔ جس طرح شوپنہاور کے یہاں “ارادہ”دنیا کی اصل حقیقت ہے ،اسی طرح نطشے بھی قدیمی حقیقت (primal reality)کا تصور پیش کرتا ہے ، جس تک آرٹ کا نقش پہنچاتا ہے۔ واضح رہے کہ نطشے کے خواب سے متعلق تصورات ، فرائیڈ سے پہلے کے ہیں ، اس لیے ا س کے یہاں کسی شخصی یا اجتماعی لاشعور کا تصور نہیں ہے”۔
(اپنی کتاب “جدیدیت اور نو آبادیات ” (مطبوعہ اوکسفرڈ )سے اقتباس )
ناصر عباس نیّر
28 ستمبر 2022ء
اردو زبان میں اسم کی تعریف
۱۔ اسم اسم وہ لفظ ہے جو کسی کا نام ہو۔ اس کی دو قسمین ہین ۱۔ خاص ۲۔ عام...