خواب، آنکھ اور اجمال
ممتاز صحافی، مترجم فہیم اسلام انصاری کی ادارت میں نکلنے والا پرچہ قارئین کے ہاتھوں تک پہنچ گیا ہے، موصوف دریا دلی کے ساتھ پرچے کی تقسیم ایسے کرتے ہیں جیسے کسی زمانے میں بچوں کو ریوڑیاں بانٹی جاتی تھیں لیکن اب وہ بھی نہیں، گڑ مہنگا ہوگیا ہے، شوگر ملز مالکان کے مزے ہیں لیکن محنت کش خسارہ اٹھانے پر مجبور ہے۔
اسی طرح کاغذ کے دام بھی بڑھ گئے ہیں لیکن رسالے بھی شایع ہو رہے ہیں اور کتابیں بھی، کچھ عرصہ قبل ’’ماورا‘‘ لاہور سے شایع ہونے والی کتاب ’’خواب سونے نہیں دیتے‘‘ بذریعہ ڈاک موصول ہوئی، یہ غزلیات کا مجموعہ ہے اور اس کی مصنفہ شاہدہ لطیف ہیں جنھیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا ہے لیکن کسی بھی تخلیق کار کے لیے اس کا اعزاز اس کی خون جگر سے لکھی ہوئی تحریریں ہوتی ہیں جو قارئین کے دلوں میں جگہ بنا لیتی ہیں، ایسا ہی ایک شعری مجموعہ ’’آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ‘‘ اشاعت کے مرحلے سے گزرا ہے، شاعر شبیر نازش ہیں، اپنی شاعری ہی کی طرح وہ مہذب اور شائستہ لب و لہجے کے انسان ہیں، ’’آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ‘‘ غزلیں، نظمیں اور آزاد نظموں سے آراستہ ہے، کراچی کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی اس مجموعے کی تقریب رونمائی ہوچکی ہے اور شبیر نازش نے ان مواقعوں پر خوب داد و تحسین کے خوشنما پھول بھی سمیٹے ہیں۔
شعر و سخن اور نثر پڑھنے میں ایک چیز کی تفریق ہوتی ہے اور وہ ہے وقت، شاعری نہ کہ جلدی پڑھی اور اس سے محظوظ ہوا جاتا ہے، اس کی نسبت ناول، افسانہ، تحقیق و تنقید پڑھنے کے لیے بہت سارے لمحات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لہٰذا میں بھی اس منطق سے استفادہ کرنے کی کوشش کروں گی۔ تو پھر چلتے ہیں خوابوں کی دنیا میں جہاں بے قراری اور اضطرابیت ہے جو شاعرہ کو سونے نہیں دیتی۔
حساس دلوں کا نوحہ یہی ہے کہ وہ اپنے پرائے کے غموں کو شدت سے محسوس کرتا ہے اور پھر یہی احساس شاعری کے پیراہن میں ناکامی و محرومی کے ساتھ ڈھل جاتا ہے۔ یہ مجموعہ غزل اسی بات کا اعتراف ہے کہ شاہدہ نے روح کی گہرائیوں سے محبت کی ناکامی کے لمس کو چھوا ہے۔ کتاب میں 145 غزلیات شامل ہیں، چند کے علاوہ تمام ہی غزلیں محبت اور انا پرستی کے گرد گھومتی ہیں اور قاری کو ایک انوکھی لذت سے ہمکنار کرتی ہیں، شاہدہ لطیف کی شاعری پاکیزہ خیال اور سطوت الفاظ سے آراستہ ہے، ان کی ایک غزل کا مطلع ہے، جس میں انھوں نے اپنے افکار کی نشاندہی کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
وفا کا درد، پاس حیا بھی رکھتی ہوں
کہ میں خیالِ مزاج ہوا بھی رکھتی ہوں
اور مقطع کچھ اس طرح ہے:
میں شاہدہ ہوں اک ایسے جہاں کی باشندہ
مشاہدہ ہی نہیں تجربہ بھی رکھتی ہوں
بے شک شاہدہ لطیف کی شاعری تجربات کی بھٹی سے گزر کر کندن بن گئی ہے، اسی لیے قدر و قیمت بھی زیادہ ہے، ان کی شاعری عشق مجازی کی عکاس ہے، سچے جذبوں اور ندرت بیان نے اسے مزید دلکش بنادیا ہے، انداز تخاطب دل ربا سا ہے،انھی رنگوں کی آمیزش سے ان کی شاعری کی تخلیق ہوئی ہے۔ اپنی سوچ اور اپنی اہمیت کے احساس کو اس طرح اجاگر کیا ہے۔
تم نے غلط کیا پَر سُرخاب ہوگئی
میں دست یاب کب تھی جو نایاب ہوگئی
اتنی خوبصورت غزلیات لکھنے پر میں شاہدہ لطیف کو خلوص دل کے ساتھ مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
شبیر نازش کی آنکھ میں ٹھہرے ہوئے وہ لوگ ہیں جو شبیر سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور محبت ہوتی ہی انمول ہے، جسے یہ دولت میسر آجائے وہ پوری دنیا کا سب سے زیادہ امیر آدمی ہوجاتا ہے، اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو شبیر نازش کو عشق کی لازوال دولت میسر آگئی ہے۔ اسی وجہ سے اس کی شاعری محبتوں کے رنگوں سے مزین ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے اور پرائے دکھ، زمانے کی تلخیاں بھی شعر و سخن کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔ ان کی غزلیں ہوں یا نظمیں، مشاہدات اور صداقت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ چند شعر قارئین کی سماعتوں کی نذر۔کتنی خوبصورت اور بامعنی غزل ہے۔
یقین سے وصل کیا، ہجر کے گماں سے اٹھا
میں جا کے بیٹھ گیا وہیں جہاں سے اٹھا
وہ ایک شعلہ جسے لوگ درد کہتے ہیں
کبھی یہاں سے اٹھا اور کبھی وہاں سے اٹھا
شبیر، محنت، کوشش اور تگ و دو پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ یہ لگن ہی تو ہے جس کے نتیجے میں کامیابی کا سفر طے کرتے ہوئے مزید آگے بڑھنے کے لیے راستے ہموار کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں:
ہے سفر شرط‘ مرے گوشہ نشیں باندھ کمر
بیٹھے بیٹھے تو کرشمہ نہیں ہونے والا
کتاب میں شامل ایک غزل محرومیوں کے لباس میں ملبوس افلاس کا نوحہ بیان کر رہی ہے۔ غربت و بے چارگی کے غم بوڑھے والدین کو ہی کرب میں مبتلا نہیں کرتے ہیں بلکہ معصوم بچوں کے اذہان میں مایوسیوں کے بیج بو دیتے ہیں، اسی حوالے سے شبیر نازش کا یہ شعر معاشرتی حالات کی عکاسی کر رہا ہے۔
دیکھے ضعیف کاندھوں پہ محنت کے جب نشاں
بچوں نے کچھ بھی باپ سے مانگا نہ پھر کبھی
ابتدائیہ کے عنوان سے سہ ماہی ’’اجمال‘‘ کے مدیر اعلیٰ فہیم انصاری کی فکر انگیز تحریر قارئین کی توجہ مبذول کراتی ہے۔ فہیم انصاری کی شہر میں منعقد ہونے والے ادبی پروگراموں پر گہری نگاہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ وہ بے باک صحافی اور مترجم کی حیثیت سے اپنی شناخت علیحدہ رکھتے ہیں۔ مدیر اجمال نے سرسید کانفرنس کا ذکر اپنے مضمون میں کیا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی کے زیر اہتمام سرسید احمد خان کی دو سو سالہ سالگرہ کے سلسلے میں ایک سہ روزہ کانفرنس کا انعقاد شعبہ اردو کی طرف سے کیا گیا تھا، ان دنوں صدر شعبہ اردو تنظیم الفردوس صاحبہ ہیں جو حقیقتاً ایک علمی وادبی شخصیت ہیں۔
مدیر اجمال کا گلہ درست ہے کہ پتا ہی نہ چلا کہ کب یہ پروگرام شروع ہوا اور اختتام کو پہنچا۔ ویسے یہ بات افسوس ناک ہے کہ ادبی اور خصوصاً تعلیمی اداروں میں بھی اقربا پروری کو عروج حاصل ہے، دوسرے اداروں کی طرح یہاں بھی اپنے چند خاص لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے، باقی بے شمار قلم کار، صحافی اور ادیب محروم رہتے ہیں۔ فہیم انصاری نے ممتاز ناقد ناصر عباس نیر کی اس بات سے بحث کی ہے کہ ’’ہم سرسید احمد خان کو جدیدیت کا نمایندہ نہیں کہہ سکتے چونکہ جدیدیت کے لیے فکر اور اس کے اظہار کی کلی آزادی ہوتی ہے اور سرسید ایک زیر تسلط نوآبادیاتی ملک میں رہائش پذیر تھے یہاں کوئی نظریہ یا جدیدیت حکمرانوں کی ترجیحات کے تحت متعین ہوتا ہے۔ ‘‘
فہیم انصاری نے اس کا جواب دلائل کے ساتھ دیا ہے اور سرسید کے ایک ہم عصر مغربی شاعر اور دانشور ہائنرش ہائینے کا بھی تذکرہ اسی مضمون میں کیا ہے اور تراجم کے حصے میں ہائینے کی شخصیت اور ادبی وخانگی زندگی کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا ہے۔ ’’اڈیالہ جیل کا قیدی‘‘ شاکر انور کی تحریر ہے۔ مصنف نے کرداروں سے انصاف کرتے ہوئے سماج کا وہ بدنما رخ دکھایا ہے، جہاں انصاف اپنی موت آپ مرتا ہے اور انسانیت کو پیروں تلے کچلا جاتا ہے دوسرے افسانے بھی قابل ذکر ہیں، راقم السطور کا افسانہ ’’مستانہ غائب ہے‘‘ تصوف کی روشنی میں تکمیلیت کے مرحلے سے گزرا ہے۔ غرض سہ ماہی اجمال قارئین کے لیے سال نو کا بہترین تحفہ ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔