یہ بہت سادہ سی بات ہے کہ آپ اپنی گذشتہ زندگی پر ایک نگاہ دوڑائیں اور خود کوخوش نصیب یا بد قسمت ٹھہرائیں۔میرے خیال میں جیسے مٹی‘ راکھ یا پتھر سے بہتر پیڑ پودہ ہونا ہے ایسے ہی پیڑ پودے سے کہیں عمدہ انسان ہونا ہے اور پھر انسانوں میں افضل ترین وہ ہے جسے زندگی میں محبت جیسی نایاب دولت میسر آجائے۔میں بہن کو بار بار بڑی بے چینی سے ادھر ادھر ٹہلتے ہو ئے دیکھ رہی تھی جس کے اندر محبت جیسے انمٹ جذبے ایک مدت سے سر اٹھا ئے ہوئے تھے۔ اوراس لمحے اس کے اندر جو چل رہا تھا اس کیفیت کو کسی دوسرے کے لئے سمجھ پانا شائد اتنا آسان نہیں تھا جتنا کہ بہن ہونے کے ناتے میرے لئے تھا لیکن ہر محبت انسان کے لئے باعث رحمت نہیں ہوتی کچھ ایسا ہی معاملہ اس کے ساتھ بھی تھا وہ اس سلسلے میں خوش قسمت بالکل نہیں تھی۔
”کیا وہ آئے گا“ اس نے دوائی کے زیر اثریہ سوال پچھلے چند گھنٹوں میں بیسوں بار اور چند مہینوں میں ہزارو ں بار دہرایا تھا اور ہربار اسے دہراتے ہوئے اس کی نگاہیں سامنے موجود دروازے پر جا ٹھہرتی تھیں۔۔یک دم مجھے احساس ہوا جیسے میں اس کے باطن سے جڑ چکی ہوں اور وہ سارے کے سارے جذبے یوں کے توں مجھ پر بھی آشکار ہو نے لگے ہوں جن سے میں پہلے نا آشنا تھی۔ میرا دل چاہا میں آگے بڑھوں اور اسے اپنے سینے سے لگا لوں‘ اس سے لپٹ جاؤ ں اسے بھینچوں اور روتے ہوئے اسے سب کچھ سچ سچ بتا دوں اور ایسا سوچتے ہوئے میرا دل میرے قابو میں نہیں رہا تھا اور بڑی تیزی سے دھڑکنے لگا تھا لیکن میں ڈاکٹر کے مشورے کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتی تھی جس کے باعث ایک جھوٹی آس کا دیا جلائے رکھنا میری مجبوری تھی۔
میں نے محبت بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھاجو اس لمحے بھی کھڑکی کے باہر اندھیرے میں بے سودجھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخری دموں پر آئی دیے کی لو چھت اور دیواروں پر عجیب و غریب پراسرار سائے بنا رہی تھی۔پھر لو ایک بار تیزی سے بھڑکی اور پھر بھک کی آواز پیدا کرکے بجھٍ گئی۔میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ کیوں کہ زیادہ دیر تک اپنے جذبوں کو چھپائے رکھنا اب میرے لئے بھی مشکل ہوتاجا رہا تھا۔میں چپکے سے چارپائی پر چلی آئی، ایک یا دو لمحے بعد ہی وہ بھی خاموشی سے آ کرمیرے پہلو میں چارپائی پرلیٹ گئی۔جانے کب تک ہم دونوں یونہی خاموش لیٹے رات کی گہری آہٹیں سنتے رہے کہ میری آنکھ لگ گئی۔اچانک باہر چاندنی رات میں کسی پرندے کے پر پھڑپھڑانے کی آواز اٹھی۔ چاند کی روشنی سے ہر گزرتے لمحے کے بعد اندھیرا کچھ کچھ چھٹنے لگا تھا۔ میں کھڑکی سے جھانکتی چاندنی کو محسوس کر سکتی تھی۔میں نے کچھ دیر چارپائی پر لیٹ کر اپنی ہمت کو مجتمع کیا اور اٹھ کر دیے کو آگ دکھانے کے لئے ماچس کی تیلی جلائی۔اسی لمحے اچانک دروازے کے دوسری جانب کسی کے قدموں کی چاپ اٹھی واضع اور صاف۔ اور یہ چاپ با لکل جانی پہچانی سی تھی۔ماچس کی ڈبیا میرے ہاتھ سے جاتی رہی۔ وہ کیسے آسکتا تھا۔ ایک مرا ہوا شخص کیسے وقت کی لکیر پار کر سکتا تھا۔ میں بُت بنی اپنی سانسیں روکے اسی جگہ گم سم کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ اچانک قدموں کی آواز دروازے کے سامنے آکر جیسے تھم سی گئی۔ میں تیزی سے دیا جلائے بغیر چارپائی کی جانب لوٹ آئی اور بستر میں گھس کر اپنی آنکھیں میچ لیں۔ تبھی دستک سارے گھر میں گونج اٹھی۔
”وہ آگیا؟“ اچانک بہن سوتے میں بڑبڑائی اور پھر اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
” نہیں باہر کوئی نہیں۔۔ میں دیکھ چکی ہوں۔ صرف ہوا کواڑ بجا رہی ہے اور کچھ نہیں تم سو جاؤ۔۔“ میں نے کانپتی ہوئی آواز میں وہی جملہ ادا کیا جو پچھلے کئی ماہ سے ادا کر تی آرہی تھی لیکن آج کی بات کچھ اور ہی تھی جو پہلے فقط بہن کو سنائی دیتا تھا آج جانے کیوں مجھ پر بھی آشکار ہو چکا تھا۔ پچھلے ایک سال میں جتنی با ر بھی دستک پر دروازہ کھولا گیا باہر کوئی بھی نہیں ہوتا تھا لیکن جانے کیوں آج میرا دل ڈر رہا تھا جیسے کچھ ہونے ولا ہو۔بہن چارپائی پر بیٹھی ایک ٹک دروازے کو گھور رہی تھی جیسے کچھ سننا چاہ رہی ہو۔ تبھی دروازہ پھر بجا۔
”یہ وہی ہے“، وہ چلائی، ”کاشی آگیا سنجنا کاشی آگیا۔“ وہ چارپائی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی لیکن میں نے اس کا بازو مضبوطی سے تھام لیا۔ پھر بھرائی ہوئی آواز میں کہا ”باہر کوئی نہیں بہنا۔۔ باہر کوئی بھی نہیں۔۔ یہ فقط تمہار اوہم ہے؟“
”میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ کاشی ہی ہے سنجنا۔ مجھے دروازہ کھولنے دو ورنہ وہ ناراض ہو کر لوٹ جائے گا“
”رک جا ؤ میری پیاری بہن۔۔ رک جاؤ۔ وہ فقط در نہیں سمے کی ریکھا ہے۔تم ایسے ہی اسے پار نہیں کر سکتی۔۔ کاشی اس جہان۔۔۔“ پھر میں کچھ کہتے کہتے رک سی گئی۔میری آنکھیں جلنے لگیں تھیں اور ان سے چھم چھم آنسو بہنے لگے تھے۔بہن خود کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے چیخی، ”مجھے چھوڑو سنجنا، مجھے اس کے لئے دروازہ کھولنا ہے۔“
”خدا را دروازہ نہ کھولنا میری بہن“ میں کانپتے ہوئے بولی۔
”تم مجھے نہیں روک سکتی۔۔ میں نے ا س کے لئے بہت انتظار کیا ہے۔ وہ خود کو چھڑاتے ہوئے چلائی ”میں آرہی ہوں کاشی۔ میں آ رہی ہوں۔“
یکدم زور لگا کر اس نے خود کو آزاد کروایا اور دروازے کی جانب بڑی۔ پھر اس نے جلدی سے دروازے کی زنجیر کوہٹایا اور سمے کی لکیر پار کر گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔