اﷲ تعالیٰ نے محمد رسول ﷺ کو جس مقصد کی خاطر زمین کے پردے پر بھیجا تھا جب وہ انجام پا چکا تو اطلاع آئی کہ تمہارا کام پورا ہو چکا اب تم خدا کے پاس واپسی کے لیے تیارہو جاؤ۔ سورہ نصر ، اذاجاء نصر اﷲ والفتح اسی واقعے کی خبر ہے۔ ذیقعد ۱۰ھ میں ہر طرف منادی ہوئی کہ رسول اﷲ ﷺ اس سال حج کے ارادے سے مکہ معظمہ تشریف لے جائیں گے یہ خبر دفعتاً پورے عرب میں پھیل گئی اور سارا عرب ساتھ چلنے کے لیے اُمنڈ آیا۔ ذیقعد کی ۲۶ تاریخ کو آپ ﷺ نے غسل فرمایا اور چادر اور تہمد باندھی اور ظہر کی نماز کے بعد مدینے سے باہر نکلے۔ مدینے سے چھ میل پر ذوالحلیفہ کے مقام پر رات گزاری اور دوسرے دن دوبارہ غسل فرما کر دو رکعت نماز ادا کی اور احرام باندھ کر قصو نامی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے یہ الفاظ فرمائے جو آج تک ہر حاجی کا ترانہ ہے ۔ (ترجمہ)
اے خدا ہم تیرے لئے حاضر ہیں
اے خدا ہم تیرے لئے حاضر ہیں
تیرا کوئی شریک نہیں
یقینا تمام تعریف اور نعمت تیرے لئے ہے
بادشاہی تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں
حضرت جابر ؓ جو اس حدیث کے بیان کرنے والے ہیں کہتے ہیں کہ ہم نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو آگے پیچھے، دائیں بائیں جہاں تک نظر کام کرتی تھی آدمیوں کا اجتماع نظر آتا تھا۔ جب آنحضرت ﷺلبیک فرماتے تھے تو اس کے ساتھ کم و بیش ایک لاکھ آدمیوں کی زبان میں یہی نعرہ بلند ہوتا تھا اور دفعتاً پہاڑوں کی چوٹیاں اس کی جوابی آواز سے گونج اُٹھتی تھیں۔ اس طرح منزل بہ منزل آپ ﷺ آگے چلے یہاں تک کہ اتوار کے روز ذوالحجہ کی ۵ تاریخ کو مکہ میں داخل ہوئے۔ کعبہ نظر آیا تو فرمایا، اے خدا! اس گھر کو عزت اور شرف دے۔ کعبہ کا طواف کیا، مقام ابراہیم علیہ السلام میں کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا کی اور صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر فرمایا:
’’خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کی بادشاہی اور اسی کی حمد ہے ، وہی مارتا اور جلاتا ہے ۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے کوئی خدا نہیں، مگر وہی اکیلا خدا، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا ۔ اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے سارے جتھوں کو شکست دی۔‘‘
عمرے سے فارغ ہو کر آپﷺ نے دوسرے صحابیوں کو احرام کھول دینے کی ہدایت فرمائی۔ اسی وقت حضرت علیؓ مرتضیٰ یمنی حاجیوں کے ساتھ مکہ پہنچے جمعرات کے روز آٹھویں ذوالحجہ کو آپﷺ نے سارے مسلمانوں کے ساتھ منیٰ میں قیام فرمایا۔ دوسرے دن نویں ذی الحجہ کو صبح کی نماز پڑھ کر منیٰ سے روانہ ہوئے۔ عام مسلمانوں کے ساتھ عرفات آ کر ٹھہرے، دوپہر ڈھل گئی تو قصوا پر سوار ہو کر میدان میں آئے اور اسی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے حج کا خطبہ دیا۔
آج پہلا دن تھا کہ اسلام اپنے جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوا اور جاہلیت کے سارے بے ہودہ مراسم مٹا دئیے گئے آپﷺ نے فرمایا:’’ ہاں !جاہلیت کے سارے اور رسم و رواج میرے دونوں پاؤں کے نیچے ہیں۔‘‘ عرب کی زمین ہمیشہ انتقام کے خون سے رنگین رہتی تھی آج عرب کی نہ ختم ہونے والی آپ کی لڑائیوں کے سلسلے کو توڑا جاتا ہے اور اس کے لیے نبوت کا منادی سب سے پہلے اپنے خاندان کا نمونہ پیش کرتا ہے۔
’’جاہلیت کے سارے خون کے بدلے ختم کر دئیے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون ربیعہ بن حارث کے بیٹے کے انتقامی خون کا بدلہ لینے کا حق چھوڑتا ہوں(یعنی دشمن کو معاف کرتا ہوں)۔‘‘’’جاہلیت کے سود مٹا دئیے گئے اور سب سے پہلا سود جس کو میں مٹاتا ہوں وہ اپنے خاندان کا یعنی عباس ضض بن عبدالمطلب کا ہے ۔ ‘‘’’عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو ، تمہارا حق عورتوں پر ہے اور عورتوں کا تم پر‘‘عورتوں کے بعد انسانوں کا سب سے مظلوم طبقہ غلاموں کا تھا آج اس کے انصاف پانے کا دن آیا ہے۔ فرمایا، ’’تمہارے غلام، تمہارے غلام ، ان کے حق میں انصاف کرو۔ جو خود کھاؤ وہ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہ ان کو پہناؤ۔ ‘‘’’آپس میں تمہاری جان اور تمہارا مال ایک دوسرے کے لیے قیامت تک اتنا ہی عزت کے قابل ہے جتنا آج کا دن اس پاک مہینے میں اور اس پاک شہر میں۔ ‘‘امن و امان کی اس منادی میں سب سے پہلی چیز اس دینی برادری کا وجود ہے جس میں قبیلوں اور خاندانوں کے رشتوں سے بڑھ کر عرب کے سارے قبیلوں بلکہ دُنیا کے سارے انسانوں میں اسلامی برادری کا رشتہ جوڑ دیا۔ ارشاد ہوا، ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘’’ہاں ! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی بڑائی نہیں تم سب ایک آدم کے بیٹے ہو اور آدم مٹی سے بنا تھا۔ ‘‘اس کے بعد چند اصولی قانون کا اعلان فرمایا گیا۔
۱۔ خدا نے ہر حق دار کو (وراثت کی رو سے ) اس کا حق دے دیا۔ اب کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔
۲۔ لڑکااس کا ہے جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا، زنا کار کے لیے پتھر ہے اور ان کا حساب خدا کے ذمے ہے۔
۳۔ ہاں عورت کو اپنے شوہر کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کچھ دینا جائز نہیں۔
۴۔ قرض دار کو قرض ادا کیا جائے عاریت لیا ہوا مال واپس کیا جائے، ہنگامی عطیئے واپس کیے جائیں جو ضامن بنے وہ تاوان کا ذمے دار ہو۔
’’ میں تم میں ایک چیز چھوڑ جاتا ہوں اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیا تو پھر کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ خدا کی کتاب ہے۔ ‘‘یہ فرما کر آپ ﷺ نے مجمع کی طرف خطاب کیا، ’’تم سے خدا کے ہاں میری نسبت پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے ؟‘‘
ایک لاکھ زبانوں نے ایک ساتھ گواہی دی ’’ہم کہیں گے کہ آپ ﷺ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا۔ ‘‘ یہ سن کر آپ ﷺ نے آسمان کی طرف انگلی اُٹھائی اور تین بار فرمایا۔ ’’اے خدا تو گواہ رہ۔‘‘
عین اس وقت جب آپ و نبوت کا یہ آخری فرض ادا کر رہے تھے ، خدا کی بارگاہ سے یہ بشارت آئی (ترجمہ) ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو پورا کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے اسلام کے دین کو چن لیا ( سورہ مائدہ) ‘‘
خطبہ سے فارغ ہوئے تو حضرت بلالؓ نے اذان دی اور آنحضرت ﷺ نے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ادا فرمائی۔ کیسا عجیب منظر تھا کہ آج سے ۲۲ برس پہلے جب محمد رسول اﷲ ﷺ نے خدا کی پرستش کی دعوت دی تو محمد رسول اﷲ ﷺ اور ان کے چند ساتھیوں کے سوا کوئی گردن خدا کے آگے خم نہ تھی اور آج ۲۲ برس کے بعد محمد رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ ایک لاکھ گردنیں خدا کے حضور میں جھکی تھیں ۔ نماز سے فارغ ہو کر ناقہ پر سوار مسلمانوں کے ساتھ موقف تشریف لائے اور وہاں کھڑے ہو کر دیر تک قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے دُعا زاری میں مصروف رہے۔ جب آفتاب ڈوبنے لگا تو چلنے کی تیاری کی۔ دفعتاً ایک لاکھ آدمیوں کے سمندر میں تلاطم برپا ہو گیا آپ ﷺ آگے بڑھتے جاتے تھے اور ہاتھ سے اشارہ کرتے ، زبان سے فرماتے جاتے تھے ’’لوگو! امن اور سکون کے ساتھ ، لوگو ! امن اور سکون کے ساتھ ‘‘ مغرب کا وقت تنگ ہو رہا تھا کہ سارا قافلہ مزدلفہ کے مقام پر پہنچا، یہاں پہلے مغرب ، پھر فوراً عشاء کی نماز ادا ہوئی۔
صبح سویرے فجر کی نماز پڑھ کر قافلہ آگے بڑھا، جاں نثار داہنے بائیں تھے۔ اہل ضرورت اپنی اپنی ضرورت کے مسئلے پوچھ رہے تھے اور آپ ﷺ ان کے جواب دیتے جاتے تھے ۔ جمرہ پہنچ کر کنکریاں پھینکیں اور لوگوں سے خطاب کر کے فرمایا: ’’مذہب میں خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے نہ بڑھنا تم سے پہلی قومیں اسی سے برباد ہوئیں۔ ‘‘ اسی درمیان میں یہ فقرہ بھی فرمایا جس سے وداع و رخصت کا اشارہ ملتا تھا۔ ’’حج کے مسئلے سیکھ لو میں نہیں جانتا کہ پھر حج کر سکوں گا۔‘‘
یہاں سے نکل کر اب منیٰ میں تشریف لائے۔ داہنے بائیں، آگے پیچھے مسلمانوں کا ہجوم تھا مہاجرین قبلہ کے داہنے انصار بائیں اوربیچ میں عام مسلمانوں کی صفیں تھیں۔ آنحضرت ﷺ ناقہ پر سوار تھے آپ ﷺ نے آنکھیں اُٹھا کر اس عظیم الشان مجمع کی طرف دیکھا تو نبوت کے ۲۳ سال کے کارنامے نگاہوں کے سامنے تھے۔ زمین سے آسمان تک قبول اور اعتراف کا نور پھیلا تھا اب ایک نئی شریعت ، ایک نئے نظام اور ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ اسی عالم میں محمد رسول اﷲﷺ کی زبان فیض ترجمان سے یہ فقرے ادا ہوئے۔
’’ہاں ! اﷲ نے آسمان اور زمین کو جب پیدا کیا تھا آج زمانہ پھر پھرا کر اسی فطرت پر آ گیا تمہاری جانیں اور تمہاری ملکیتیں آپس میں ایک دوسرے کے لیے ویسی ہی عزت کے قابل ہیں جیسے آج کا دن اس عزت کے مہینے میں اور اس عزت والی آبادی میں ، ہاں دیکھنا ! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ خود ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، تم کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے کاموں کی بابت پوچھے گا ، اگر تم پر ایک کالا نکٹاغلام بھی سردار بنا دیا جائے تو تم کوخدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کا کہا ماننا۔…
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“