مدیر گرامی
آپ کے تین اکتوبر 1931 کے شمارے میں ڈاکٹر ای تھامپسن نے "پان اسلامزم کی منصوبہ بندی" کی گواہی کے طور پر میرے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدارتی خطبے کا یہ پیراگراف اس کے سیاق و سباق سے بالکل ماورا ہو کر نقل کیا ہے۔
"میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کے طور پر مدغم ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ تاج برطانیہ کے تحت سے آزاد ایک شمال مغربی مسلم خود مختار ریاست شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقسوم ہے"
میں ڈاکٹر تھامپسن کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس شذرے میں تاج برطانیہ سے باہر کسی مسلم ریاست کا مطالبہ موجود نہیں ہے بلکہ صرف ایک امکان کی طرف اشارہ ہے جو کہ برصغیر ہند کے دھندلے مستقبل میں پیدا ہو سکتا ہے ۔
کوئی ہندوستانی مسلمان جس کے اندر ذرہ برابر بھی عقل ہو ، عملی سیاست کی منصوبہ بندی میں تاج برطانیہ یا دولت مشترکہ سے باہر ایک یا ایک سے زیادہ شمال مغربی مسلم ریاستوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
اگرچہ میں وسطی پنجاب میں کسی بھی ایسی منصوبہ بندی کا شدید مخالف ہوں جس سے گروہی یا مذہبی انتشار جنم لے لیکن میں ہندوستان میں نہرو اور سائمن رپورٹ کے بمطابق ایسی صوبہ بندی کا حمایتی ہوں جس میں صوبائی سرحدیں گروہی اکثریت کی بنیاد پر کھینچی جائیں۔ ایک مسلم صوبے کے حوالے سے بھی میری رائے اسی کا پرتو ہے۔
بھارت کی شمال مغربی سرحد پر عمدہ منصوبہ بندی سے مسلم صوبوں کا قیام وسط ایشیا کی حریص نسلوں کے آگے ہندوستان اور تاج برطانیہ کے لیے ایک دفاعی دیوار کا کام کرے گا۔
آپ کا مخلص
محمد اقبال
سینٹ جیمز کورٹ
10 اکتوبر 1931
(ٹائمز لندن میں 12 اکتوبر 1931 کو صفحہ 8 پر شائع ہوا)