خشونت سنگھ کی کہانی
ایک تھا خشونت سنگھ جو دو فروری انیس سو پندرہ کو پاکستان کے علاقے ہڈالی میں پیدا ہوا تھا ۔امیر خاندان کا چشم و چراغ ،ایسے خاندان کا فرد جس کی دولت اور امارت کے چرچے پورے ہندوستان میں تھے۔ ۔خشونت سنگھ نے شان و شوکت سے بھرپور ماحول میں پرورش پائی تھی ۔۔یہ کہانی شروع ہوتی ہے سو سال پہلے کے ہندوستان سے ،جی ہاں پنجاب کے دل لاہور اور راجھستان کے درمیان ایک گاوں تھا جس کا نام ہڈالی تھا ۔اس گاوں میں خشونت سنگھ کا خاندان رہتا تھا ۔ایک شخص یہاں رہتا تھا جس کا نام پیارے لال تھا ،جو یہاں کا امیر ترین انسان تھا ۔،پیارے لال ہندو تھا ،پیارے لال کا ایک بیٹا تھا جس کانام اندر تھا ،جس نے بعد میں ہندو دھرم چھوڑ کر سکھ دھرم اختیار کر لیا ۔اندر نے پھر اپنا نام سردار سہیل سنگھ رکھا تھا ۔سردار سہیل سنگھ نے کاروبار کو خوب پھیلا یا ،پھر ان کا ایک بیٹا تھا جن کا نام سردار سوبھا سنگھ تھا ۔انہوں نے والد کا کاروبار سنبھالا اور پھر ہڈالی سے دلی آگئے ۔سوبھا سنگھ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ،جس کا نام خوشحال سنگھ تھا ،چار سال کی عمر میں خوشحال سنگھ بھی اپنے والد سوبہا سنگھ کے ساتھ دلی میں آگئے تھے ۔یہاں پر سوبھا سنگھ نے ٹھیکیداری کا کام کیا ،ٹھیکیداری کے کاروبار نے اس خاندان کو امیرترین بنادیا ۔خوشحال سنگھ کو پیار سے شالی کہا جاتا تھا ،لیکن انہیں شالی لفظ سے چڑ تھی ،ا سلئے بعد میں خوشحال سنگھ نے اپنا نام خشونت سنگھ رکھ لیا ۔خوشحال سنگھ کو دنیا اب خشونت سنگھ کے نام سے جانتی ہے ۔دلی میں دریا گنج اسکول میں خشونت سنگھ نے تعلیم حاصل کرنا شروع کردی ۔پڑھائی میں وہ بہت ہی نکمے طالبعلم تھے ،جنہیں تعلیم حاصل کرنے کا بلکل شوق نہ تھا ۔خشونت سنگھ بچپن میں ایک ڈرپوک دیہاتی تھے ،جنہیں اسکول کے استاد پسند نہیں کرتے تھے ،انہیں اسکول میں اکثر مرغا بننا پڑتا تھا ۔انہیں استادوں سے اکثر مار اس لئے پڑتی تھی کہ یہ خطرناک حد تک شرارتی تھے اور پڑھائی میں کمزور تھے ،گلی ڈنڈا کھیلنا انہیں بہت پسند تھا ۔خشونت سنگھ کو بچپن میں صرف ایک شخصیت سے بہت محبت تھے ،وہ تھی ان کی دادی ،اسکول کے بعد خشونت سنگھ نے دلی میں سینٹ ڈیفنس کا لج میں داخلہ لیا ۔اس دور میں انگریزوں سے آزادی کے نعرے بلند ہورہے تھے ۔گاندھی مہاتما کہلائے جانے لگے تھے ۔کالج کا دوسرا سال چل رہا تھا ،اسی دوران عظیم باغی اور انقلابی لیڈر بھگت سنگھ کو پھانسی دیدی گئی ۔خشونت سنگھ اپنے کالج کی چھت پر چڑھ گئے اور بھگت سنگھ زندہ باد ،انقلاب زندہ باد کے نعرے بلند کرنا شروع کردیئے ۔اسی وجہ سے کالج چھوڑنا پڑا اور خشونت سنگھ دلی سے لاہور آگئے ۔لاہور میں سرکاری کالج مین داخلہ لیا ۔کالج کی تعلیم میں دل نہ لگا تو کلکتہ ستار سیکھنے چلے گئے ۔وہاں پر ان کی ملاقات رابندر ناتھ ٹیگور سے ہوئی ۔خشونت رابندر ناتھ ٹیگور کو بہت پسند کرتے تھے ۔لکھنے کا آرٹ خشونت سنگھ نے رابندر ناتھ ٹیگور سے سیکھا ۔اب ستار سیکھ رہے تھے اور ٹیگور سے ملاقاتیں کررہے تھے کہ اسی دوران اچانک طبعیت بگڑ گئی ۔پھر وآپس لاہور آگئے ۔اب کالج کی تعلیم مکمل کی اور والد نے انہیں قانون کی تعلیم کے لئے لندن بھیج دیا ۔لندن یونیورسٹی میں تعلیم کا آغاز ہو گیا ۔لندن یونیورسٹی میں تھرڈ ڈویژن سے بی ائے پاس کیا ۔یہ 1934 کا سال تھا ۔لندن میں بی ائے کے بعد وکالت کی تعلیم کا دور شروع ہو گیا ۔اسی دوران لندن یونیورسٹی میں ہی ہاکی ٹیم کا حصہ بن گئے ۔خشونت سنگھ نے لندن میں تین سال کی قانون کی ڈگری پانچ سال میں پاس کی ۔والد نے کہا وکالت میں پی ایچ ڈی کرلو ،لیکن ہتھیار ڈال دیئے اور کہا مزید وکالت کی تعلیم حاصل نہیں کروں گا ۔لندن میں اسکول کی کلاس فیلو کنول ملک سے ملاقات ہوئی ،یہ ملاقات محبت میں بدل گئی اور اس طرح 30 اکتوبر 1939 میں کنول ملک سے خشونت سنگھ نے شادی کر لی ،یہ محبت کی شادی تھی ۔شادی کی تقریب میں پاکستان کے خالق محمد علی جناح بھی شریک ہوئے ۔شادی کے بعد والد نے لاہور میں گھر لیکر دیا اور ساتھ تحفے میں شاندار گاڑی بھی دی ۔امیر گھرانے کے لڑکے تھے ۔اس لئے شون و شوکت سے زندگی گزارنے لگے ۔وکالت شروع تو کردی ،لیکن اچھے وکیل نہ بن پائے ،اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں وکالت کے شعبے سے چڑ تھی ،کہتے تھے وہ وکیل بن کر مرنا نہیں چاہتے ۔پانچ سال قانون کی تعلیم حاصل کی ،سات سال فلاپ وکالت کی ۔اب لاہور کے لارنس روڈ پر والد نے بنگلہ خرید کر دیا ۔ان کی طبعیت میں اب بہت زیادہ چڑ چڑا پن آگیا تھا ۔اب وہ وکالت کی بجائے مختلف شہروں میں گھومنے لگے ۔پریشانی کو بھگانے کے لئے وہ کبھی شملہ تو کبھی کسولی چلے جاتے ۔کسولی کا علاقہ انہیں بہت پسند تھا ۔اب ان کا ایک ہی کام تھا کہ ہر روز میلوں پیدل چلتے رہتے تھے اور زندگی کے بارے میں سوچتے رہتے تھے ۔یہاں سے انہوں نے لکھنے پڑھنے کی شروعات کردی تھی ۔کسولی میں انہوں نے بڑی نایاب کہانیاں لکھی ،کہتے تھے کسولی ایک تخلیقی جگہ ہے جہاں فطرت ،خاموشی اور شانتی کی ایک شاندار دنیا آباد ہے ،اس لئے وہاں زندگی کے بارے میں جاننے اور لکھنے کا ہمیشہ انہیں تخلیقی موقع ملا ۔وہ فطری انسان تھے اور فطرت سے محبت کرتے تھے ،اس لئے کسولی انہیں پسند تھا ۔کسولی میں اب ہر سال خشونت سنگھ فیسٹیول بھی منایا جاتا ہے جہاں دنیا بھر سے دانشور اور ادیب انسان آتے ہیں اور علم و فکر کی محفل سجاتے ہیں ۔جب دیکھا کہ کالے کوٹ سے زندگی میں روشنی نہیں آسکتی تو لاہور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا ۔دلی آئے اور فیصلہ کیا کہ اب وکالت نہیں کروں گا ۔اسی دوران 14اگست 1947 کو ہندوستان تقسیم ہو گیا ۔اب دو نئے ملک بن گئے تھے ،ایک پاکستان اور دوسرا بھارت ،اب خود سے سوال کیا کہ کیا کیا جائے ،جناح صاحب کا خشونت سنگھ کے والد کو پیغام آیا کہ بیٹے خشونت سنگھ کو لاہور بھیج دو ،میں اسے لاہور ہائی کورٹ کا جج لگانا چاہتا ہوں ۔لیکن خشونت سنگھ لندن کے انڈیا ہاوس کا حصہ بن گئے ۔پھر اسی دوران ان کا تبادلہ بطور سفارتکار کینیڈا ہوگیا ۔1950میں اس سرکاری نوکری سے استعفی دے دیا ۔بھارت لوٹ آئے ۔ریڈیو میں پروگرام پروڈیوسر ہو گئے ،اس کام میں بھی دل نہ لگا تو استعفی دے دیا ۔پھر پیرس چلے گئے اور یونیسف کے ساتھ منسلک ہو گئے ۔پیرس میں اب ان پر لیبل لگ چکا تھا کہ وہ ایک کمیونسٹ ہیں ،اس لئے امریکہ کے لئے انہیں ویزہ نہ مل سکا ۔وہ امریکہ جانا چاہتے تھے ۔وآپس دلی آگئے اور فیصلہ کیا کہ اب صرف انہوں نے لکھنا ہے ،اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرنا ۔1978 میں والد انتقال کر گئے ،وہ والد جو ہمیشہ ان کا سہار بنتے تھے ،1985 میں ان کی بیوی کنول ملک کا انتقال ہوگیا ۔خشونت اب اکیلے ہو گئے تھے ،اداس رہنے لگے اور اپنے آپ کو سوبھان سنگھ پارک میں موجود اپنے گھر میں رہنے لگے ،لکھنا ،پڑھنا اور اداس رہنا اب ان کی زندگی تھی ۔پھر اچانک سوئمنگ کے شوقین ہو گئے ،اخبار میں مرتے دم تک ان کا کالم چھپتا رہا ،ہر ہفتے ایک کالم لکھتے تھے ،کڑوروں انسان ان کے کالم کو پڑھتے ۔اب وہ صرف لکھ رہے تھے ۔دانشوروں اور ادیبوں سے مل رہے تھے ،اس کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں تھا ۔اتنا لکھا کہ کتابوں کا پہاڑ کھڑا کردیا ۔فکشن ،نان فکشن ،تاریخ اور ادب ہر ایشو پر انہوں نے کتابیں تحریر کی جنہیں دنیا بھر میں پسند کیا گیا ۔اب حالات نے انہیں ایک عالمی لکھاری اور لیجنڈ فنکار بنادیا تھا ۔ان کی زندگی کی پہلی کہانی نیویارک کے ایک میگزین میں شائع ہوئی تھی ،اس کہانی کا نام تھا the mark of vishnu یہ کہانی دنیا بھر میں پسند کی گئی ۔انیس سو پچاس میں بھوپال میں جھیل کے کنارے بیٹھ کر انہوں نے ایک ناول لکھا تھا جس کا نام تھا Train to pakistan پاکستان اور بھارت کی تقسیم کے دکھ کی کہانی اس ناول میں جھلکتی ہے ۔اس ناول مین تقسیم کا درد ہے ،وہ غیر مذہبی اور کمیونسٹ تھے ،لیکن سکھ کہلوائے جانے پر فخر کرتے تھے ۔سکھ مذہب اور سکھوں کی تاریخ پر انہوں نے ایک عظیم کتاب تحریر کی ،جس کا نام تھا a history of sikhs یہ کتاب دو والیوم میں شائع ہوئی ،اس کتاب کو بھی دنیا بھر میں پزیرائی ملی ۔اب دنیا بھر میں خشونت سنگھ ایک عظیم مصنف کے طور پر شناخت بنا چکے تھے ۔ان کی کئی کتابیں اکسفورڈ پبلیکیشن نے شائع کی ۔دنیا بھر میں بطور صحافی اور مصنف خشونت سنگھ نے ہزاروں لیکچر دیئے اور لاکھوں انسانوں کو رلادیا ۔ایک مرتبہ لندن البرٹ ہال میں لوگ ان کی تقریر سن کر رونے لگے تھے ۔وہ جو خود اکیلے میں روتا تھا ،اسے سن کر اب دنیا بھی رونے لگی تھی ۔سکھ ہونے پر انہیں اتنا فخر نہیں تھا جتنا سکھوں کو ان پر فخر تھا ۔انیس سو ستاون مین انہیں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا ۔خشونت سنگھ نے انیس سو اکھتر کی پاک بھارت جنگ کی کوریج کی ،اس کے علاوہ بھٹو کی پھانسی کی بطور صحافی کوریج کی ۔وہ ہر سال پاکستان آتے تھے اور کہتے تھے انہیں پاکستان سے اتنا ہی پیار ہے جتنا انہیں بھارت سے محبت ہے ۔کہتے تھے جب وہ پاکستان جاتے ہیں تو ٹیکسی والے ان سے پیسے نہیں لیتے اور جہاں سے وہ جو چیز بھی خریدتے ان سے پیسے وصول نہیں کئے جاتے ،یہ باتیں کرتے کرتے اکثر ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے ۔انہوں نے بطور صحافی ہندوستان ٹائمز کے لئے کام کیا ۔راجیہ سبھا کے رکن رہے ۔آخر میں وہ صرف خشونت سنگھ بن گئے تھے ۔آخری عمر میں جگت سنانا ،لطیفے سنانا اور علی و فکری باتیں کرنا ان کی عادت بن گئی تھی ۔کہتے ہیں جو بھی خشونت سنگھ کی محفل میں آتا تھا وہ کبھی بور نہیں ہوتا ،اداس ہو کر آتا تھا ،خوش و خرم ہو کر محفل سے نکلتا تھا ۔مزاق ،سنجیدگی اور ڈسپلن ان کی زندگی کا حصہ تھی ۔نوجوان لکھاریوں کو وہ ہر وقت گائیڈ لائنز دیتے رہتے تھے ،کتابوں سے جو بھی رائلٹی ملتی ،وہ تمام رقم خیراتی اداروں میں تقسیم کردیتے ،رائلٹی کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے تھے ۔وہ ایک عظیم مصنف اور منفرد قسم کی عظیم شخصیت کے حامل تھے ۔سو سال کی زندگی کے سفر کو دیکھنے والے اس انسان کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی ۔خشونت سنگھ 20 مارچ 2014 کو نئی دلی میں ہنستے مسکراتے انتقال کر گئے ،لیکن ان کی تحریریں اور ان کے قہقہے اس دنیا میں ہمیشہ خوبصورتی پھیلاتے رہیں گے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔