خوشی تلاش نہیں تخلیق کریں
زیادہ تر لوگ خوشی کی تلاش میں غرق ہوئے جاتے ہیں جبکہ میرا یہ ماننا ہے کہ ’’خوشی تخلیق کرو‘‘۔ اور یوں اس تخلیق کردہ خوشی سے لطف اندوز ہونے سے جو اطمینان ملتا ہے وہ تلاش کردہ خوشی سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ تلاش کی گئی خوشی شاید آپ کی اپنی تخلیق نہیں ہوتی اور جو لطف اپنی تخلیق سے ملتا ہے، اس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ میں کئی سال قبل تنازعاتی حل کی تعلیم کے سلسلے میں امریکہ گیا۔ وہاں میری ایک استاد لوئز ڈائمنڈ نے کہا کہ فرخ میں نے دیکھا ہے کہ تم بہت خوش رہتے ہو۔ اس کا راز کیا ہے؟ میں نے اپنی استاد سے عرض کی کہ بس میں ہر دم خوشی کی تخلیق میں رہتا ہوں، چھوٹی اور بڑی خوشیاں۔ اپنے لیے خوشیاں، اردگرد کے لوگوں اور دوسروں کے لیے خوشیاں تخلیق کرنے میں۔ اور خصوصاً دوسروں کو اپنی تخلیق کردہ خوشی سے خوش دیکھ کر جو خوشی ملتی ہے، اس کی تو کوئی انتہا ہی نہیں۔ خوشیوں کو جنم دینا مشکل نہیں۔ بس ہم کچھ نئے سے نیا اور منفرد کام کرتے چلے جائیں۔میرے نزدیک کوئی خوشی چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی، خوشی تو بس خوشی ہے۔ ایسی ہی ایک خوشی میں نے پچھلے ہفتے تخلیق کی۔ اس تخلیق کردہ خوشی کا احساس میرے دل ودماغ میں دہائیوں تک رہے گا۔
میں نے 1975ء میں کینٹ پبلک سکول سرگودھا سے میٹرک کیا۔ اب وہ ایف جی پبلک سکول کہلاتا ہے۔ میرے اس سکول کے تعلیمی ریکارڈ کی ہر طرف دھوم تھی۔ یہاں تعلیم بھی دی جاتی تھی اور تربیت بھی۔ صبح قومی ترانے سے پہلے ہمارے بالوں اور گردن کی صفائی کہ نہا کر آئے بھی ہیں یا نہیں، جوتوں کی پالش اور حتیٰ کہ انگلیوں کے ناخن بھی دیکھے جاتے تھے۔ یونیفارم کا مکمل استری شدہ ہونا لازم تھا۔ اور اسی طرح استاد کے احترام کے ساتھ ساتھ ہم جماعتوں کے ساتھ اچھے برتائو کی تربیت کی جاتی۔ مجال ہے کہ اس سارے شان دار ڈسپلن کو کوئی بچہ توڑتا۔ سکول میں مارپیٹ مکمل طور پر ممنوع تھی۔ ایک استاد نے کسی بچے کو مارا تو اس کو معطل کر دیا گیا۔ نظم وضبط اور تعلیم وتربیت کے لیے تشدد کی قطعاً اجازت نہ تھی۔ وسیع وعریض اور جدید عمارت تھی اس سکول کی اور ایک سے بڑھ کر ایک اساتذہ تھے۔ انہی میں ایک استاد سر قیوم رانا تھے۔ وہ تھے تو سائنس کے استاد مگر اردو زبان پر ان کی اعلیٰ گرفت کے سبب انہیں اردو کی بھی کلاسز پڑھانے پر مامور کیا گیا۔ میرے قلم اور بیان کی تربیت میرے انہی استاد قیوم رانا نے کی۔ جب وہ کینٹ پبلک سکول درس وتدریس کا سفر شروع کرنے آئے تو ایک نوجوان استاد تھے اور ماشااللہ ابھی تک ان کی جوانی اپنے جوبن پر ہے۔ تین سال قبل میری خوشی کی تب انتہا نہ رہی جب میں ایک طویل عرصے بعد انہیں ملنے اُن کے ہاں پہنچا اور انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا، Farrukh