کتھک فلیمنگو رقصوں کی تقریب کے بعد لکھنئو سے تعلق رکھنے والی خوش اخلاق پراگتی نے بتلا دیا تھا کہ 30 جولائی کو اسی مقام پر محفل غزل ہے۔ جواہر لال نہرو کلچرل سنٹر کی سائٹ پر دیکھا تو ایسا کچھ لکھا نہیں ملا۔ پراگتی سے فون پر رابطہ نہ ہو سکا تاہم چلا گیا۔ دور سے یہی لگا کہ کوئی محفل نہیں ہے البتہ سفارت خانے کا گیٹ کھلا اور ایک بڑی سیاہ کار داخل ہوئی جو بعد میں پتہ چلا کہ بنگلہ دیش کے سفیر اپنی بیگم کے ہمراہ آئے تھے۔
سفیر ہندوستان کی رہائش کے سامنے لان میں ابھی کم لوگ تھے۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ ایک جگہ پر چائے سنیکس وغیرہ کا انتظام تھا۔ چائے کی طلب ہوئی تو میں نے جا کر دیکھنا شروع کیا۔ پیچھے سے کسی نے کہا،"کھان دی شے آں ول پہلے جانا ایں" یہ میرا دوست کشمیر سنگھ تھا جو دس گیارہ سال میرا کولیگ بھی رہا۔ اچھا لگا کہ چلو کوئی تو شناسا ملا۔
مڑ کر دیکھا تو گلابی شرٹ میں ملبوس لمبے تڑنگے شخص کے ارد گرد لوگ کھڑے تھے۔ کشمیر کے قدم بڑھے تو میں نے کہا " یہ سفیر ہیں کیا؟" ۔ ۔ ۔ "آ جا آجا توں وی آ جا" کشمیر نے کہا۔ سفیر صاحب نے ہم تینوں سے ہتھ ملایا اور فردا" فردا" پوچھا "آپ کیسے ہیں؟" ان کے اس ایک فقرے سے پتہ چل گیا کہ وہ خوشگوار شخصیت کے حامل ہیں۔ کشمیر نے پہلے ایک ہندوستانی کا تعارف کرایا۔ پھر میرے بارے میں کہا،" یہ میرے کولیگ رہے ہیں"۔ میں نے خود ہی کہا،" میں پاکستان سے ہوں ایک عرصے سے یہاں مقیم ہوں"۔ "تو آپ کو غزلیں سنوائیں گے" سفیر محترم نے کہا۔
چند فقروں کے تبادلے سے لگا تھا کہ ان کی آواز خاصی شناسا ہے۔
محفل غزل شروع ہو گئی۔ ہندوستان کے ثقافتی مرکز میں گویا، طبلچی، رقاص باقاعدہ بڑے مشاہرے والی پوسٹیں ہیں۔ گلفام نام کے گلوکار نے پہلے غزل کے بارے میں بتایا جس میں پریم، برہ، پرنتو، یدی وغیرہ کا استعمال زیادہ تھا اور پھر جتنی بھی غزلیں گائیں ان میں گلزار کی ایک دو غزلوں کے علاوہ سب کی سب غلام علی کی گائی ہوئی تھیں اور ایک حبیب ولی محمد کی۔ "درد سے میرا دامن بھر دے یا اللہ" گاتے ہوئے یااللہ یا اللہ کا ورد ہوا تو میں نے کشمیر سے کہا،" اج تے ہو گئی اللہ اللہ" کشمیر کھسیانا ہو کر بولا،" سوری دیا، اللہ ساڈا یار اے" میں بھی ہنس پڑا۔
پریم،ملن، برہ، وغیرہ سے انتم تک سے متعلق غزلیں سنا کر گلوکار نے ہاتھ جوڑے تو سفیر محترم پنکج سرن نے کہا،"ارے ایسے کیسے چھوڑیں گے آپ کو ابھی تو شروعات ہیں" فورا" سمجھ آ گئی کہ ان کی آواز معید پیرزادہ سے ملتی ہے۔
اگر سارے بڑے افسروں کی شخصیت خوشگوار ہو تو شاید افسر شاہی اتنی بری نہ لگے مگر پھر وہ شاہی تو نہیں ہوگئی، ہیں ناں؟
Top of Form
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1468808079811964
“