گھر سے نکل کر ،میں پیدل ریلوے اسٹیشن کی جانب جارہا تھا ۔۔وہاں سے آفس جانے کے لیے مخصوص ٹرین پکڑنی تھی ۔۔جو کہ میرا روز کا معمول تھا ۔۔مختلف گلیوں سے دائیں بائیں مڑ تقریباً بیس منٹ میں اسٹیشن پہنچتا ہوں ۔اس زلف گرہ گیرکی سی گلیوں کا پچھلے پندرہ برس سے اسیر تھا ۔۔راستہ دیکھا بھالا ۔۔اسی سے آمد ورفت رہی ۔۔پندرہ سال میں بہت کچھ بدل گیا ۔لب سڑک بنی کچی دکانیں ، پختہ یک منزلہ یا دومنزلہ بن چکی تھیں ۔۔اپنے حدود سے باہر ۔۔فٹ پاتھ سے لگی اکادکا ۔۔ٹو وھیلر،فور وھیلر اب دیوانے کا خواب بن چکی تھی ۔۔پانچ دس قدم کے فاصلے پر رنگ برنگی بائیک ۔۔۔چمچماتی کاریں نظر آتی ہیں ۔۔واقعی ہمارے ملک نے کافی ترقی کی ہے ۔۔بائیسکل تو شاید کچھ عرصے بعد میوزیم میں نظر آئیں گی کہ یہ ہماری قدیم سواری تھی !!
صبح کی شفٹ میں جاتے ہوئے مشین نما انسان میرے دائیں بائیں ،آگے پیچھے تیز رفتاری سے چل رہے تھے ۔۔ہر شخص کو جلدی تھی ۔۔نہیں معلوم کون سی منزل سر کرنی تھی ۔۔۔ایک نقطے سے ابتدا کر دائرہ بنا پھر اسی نقطے میں ضم۔۔ہر کسی نے اپنے گرد حصار بنا لیا ہے ۔سوچوں میں غرق ۔۔روز زندگی کا زہر پیتے ہوئے بھی زندہ ۔۔بسوں اور ٹرینوں میں گھٹتی سانسوں کے باوجود سانسوں کا رشتہ زندگی سے قائم ۔۔میکانکی انسان ۔۔مخصوص ٹرین ،مخصوص ڈبہ ۔۔موسموں کا کرب معمولات میں حائل نہیں ہوتا ۔۔میں بھی اسی مشین کا کل پرزہ ہوں ۔۔اپنی ذات میں تنہا مگر مجھ سے جڑی سات افراد کی موہوم امیدیں مجھے بھیڑ میں گم کردیتی ہیں ۔ ۔اطراف میں شناسا افراد ۔۔کانوں کے شوکیس سے جھانکتی پرانی اشیا مگر مومی مجسموں پر نئے رنگ برنگے پیرہن ۔۔کے ٹھیک بازو میں ۔۔جانے کیوں مجھے چیتھڑوں میں لپٹے بچے کھڑے نظر آتے !!۔۔سڑک کشادہ ہونے کے باوجود غیر قانونی پارک کی ہوئی گاڑیوں کی وجہ سے تنگ ہوگئی تھی ۔۔متحرک گاڑیاں ریگتی ہوئی چلتیں ۔۔۔غصے کا ہارون بجاتے ہوئے ۔۔۔اسی لیے سواری کی بجائے میں پیدل چلنے کو ترجیح دیتا کہ جلد پہنچ جاتا تھا ۔۔
اسٹیشن سے قریب آخری موڑ پر مجھے فٹ پاتھ کے کنارے متلاشی نگاہیں دائیں بائیں بھیڑ کا جائزہ لیتی نظر آئیں ۔۔ہاتھ میں چندے کا ڈبہ ۔۔کھڑکھڑاتے ہوئے ۔۔۔راہگیر لمحہ بھر رکتے ۔۔جائزہ لے کر یا تو آگے بڑھ جاتے یا کچھ سکے ڈبے میں ڈال دیتے ۔