"غزل" اردو شاعری کی سب سے مقبول اور جاندار صنف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مافی الضمیر کی ادائیگی کے سلسلے میں ایک طویل مدّت سے بے شمار ادبا و شعرا اسے اظہار و بیان کا قوی ترین ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہاں! یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ غزل اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں صرف بیان حسن و عشق کا پلیٹ فارم ہی سمجھی جاتی رہی، اور چوں کہ غزل کا معنی بھی " با زنان گفتگو کردن" یعنی عورتوں کے ساتھ باتیں کرنا یا ان کی باتیں کرنا، ہوتا ہے۔ اس لیے کسی دور میں یہ صنف حسن و غشق کی واردات و کیفیات اور معاملات کے اظہار کا ذریعہ رہی۔۔۔مگر امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ حالات و واقعات نے جیسے جیسے پلٹا کھایا بالکل اسی چال ڈھال میں صنف غزل نے بھی کچھ مخلص کرم فرماؤں کی بدولت اپنے دامن سے وسعت و ہمہ گیری کا مقبول و محبوب وصف وابستہ کر لیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ ترقی کی ادبی شاہراہ پر بڑی تیزی کے ساتھ دوڑتی ہی چلی گئی۔ شاعری کو مشرف بہ اسلام کرنے والے شاعر الطاف حسین حالی نے "مقدمہ شعر و شاعری" کے توسط سے صنف غزل میں ہر طرح کے مضامین کی گنجائش پیدا کر دیں۔ اس حوالے سے شروع شروع میں حالی کی ذات تنقید کے زد پر بھی رہیں مگر ہر گزرتے ایام کے ساتھ ہی حالی کی اس تبدیلی کو بہترے افراد تسلیم بھی کرتے چلے گیے اور پھر شعرا و ادبا نے معاملاتِ حسن و عشق کے ماسوا سماج و معاشرے میں پھیلی برائیاں، بدعنوانیاں، حکومتی بے راہ روی، سرمایہ داری کا گھٹیاں نظام، غربت و افلاس اور تہذیب و تمدن کے حسن و قبح جیسے سینکڑوں عناوین کو بھی جگہ دینا شروع کر دیا۔ حالی ہی کی وجہ سے اردو غزل میں نئے رنگ و آہنگ پیدا ہوئے اور اس صنف کو نئے امکان اور نئی سمت سے روشناس ہونے کا بھرپور موقع میسر آیا۔ اب تو غزل کا دامن اس قدر وسیع ہو گیا ہے کہ شعرا اپنے ہر اشعار میں الگ الگ موضوعات و واقعات بڑی خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔
یقیناً جدید غزل گو شعرا کی فہرست بڑی لمبی ہے۔ تلاش بسیار کے بعد شاید ہی کچھ افراد آپ کو ایسے مل جائیں جنھیں غزل گوئی کے بجائے نعت، حمد، دوہا، ہائیکو اور نظم جیسے دیگر اصناف سخن سے پیار ہو۔ ورنہ تو اکثر وہ حضرات جو شعر و شاعری کے اسرار و رموز سے تھوڑی بہت بھی شُد بُد رکھتے ہیں، وہ غزل گوئی کے میدان میں بھی طبع آزمائی سے پیچھے نہیں رہتے ہیں۔ آئیندہ سطور میں دور حاضر کی ہی ایک کم عمر، معروف غزل گو شاعرہ یعنی "خوشبو پروین" سے متعلق بات کریں گے۔
لکھی سرائے، صوبہ بہار کی آب و ہوا میں پروان چڑھنے اور اپنی زندگی کی بیس/ بائیس بہاریں دیکھ لینے والی یہ غزل گو شاعرہ یعنی " خوشبو پروین" کے اشعار پڑھئے تو ایسا لگتا ہے کہ نہیں، وہ کوئی کہنہ مشق شاعر ہیں جو برسوں سے اس راہ کی خاک چھان رہی ہیں اور اب تک ان کے کئی ایک دواوین منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر اپنے قارئین سے داد و تحسین وصول کر چکے ہوں گے۔۔۔۔مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے، یہ سارے احساسات و اوہام اس وقت یک لخت رفع ہو جاتے ہیں، جب یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ تو ابھی دور طالب علمی ہی سے گزر رہی ہیں، وہ یونیورسٹی آف حیدرآباد، دکن میں ایم فل اردو کی طالبہ ہیں۔ سن ۲۰۱۷ء میں انھوں نے شعری کائنات میں قدم رکھا اور بڑی قلیل مدت میں اپنی ایک الگ اور واضح شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کر لیں۔ وہ میدان غزل گوئی میں تسلسل کے ساتھ طبع آزمائی پہ قائم ہیں۔ اتنی کم عمری ہی میں جو عزت و شہرت آپ کے حصے میں آئی ہیں وہ بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوا کرتی ہیں۔ آپ کو اردو سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے، خود ان کا اپنا بیان ہے کہ" جب میں ایم_اے کرنے بھاگلپورآئی تو یہ احساس ہوا کہ اردو اس قدر خوبصورت زبان ہے کہ وہ انسان کو مہذب بنا دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب مجھے اردو سے محبت سی ہو گئی ہے"۔ (ملخصا و مفہوما) آپ لکھتی ہیں:
جان و دل سب نثار کرتی ہوں
عشق دیوانہ وار کرتی ہوں
جس قدر ملک ہے عزیز مجھے
اتنا اردو سے پیار کرتی ہوں
خوشبو، ڈاکٹر پروفیسر محمد بدرالدین شبنم کو اپنا استاذ مانتی ہیں۔ وہ اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کرتی ہیں کہ جو کچھ انھوں نے غزل کی دنیا میں سیکھی ہیں وہ پروفیسر موصوف ہی کا کمال ہے۔
مارچ ۲۰۱۸ء/ میں جب خوشبو کی پہلی غزل رسالہ "زبان و ادب" میں شائع ہوئی تو خوشیوں سے ان کی بانچھیں کھل گئیں اور پھر جذبہ شوق اور لگن نے ایسی یاوری کی کہ وہ اب تک اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر بنے بیٹھی ہیں۔ غزل گوئی سے شاید اسی وارفتگی ہی کا نتیجہ ہے کہ یہ حسن سلسلہ اب تک جس طرح جوان ہے اسی طرح روانی کے ساتھ قائم بھی ہے۔ ان کی غزلیں پڑھتے ہوئے جہاں ذوق جمال کو تسکین ہوتی ہے وہیں فکر کی نئی تنہائیوں سے آشنائی بھی۔ مثال کے طور پر یہ مندرجہ ذیل چند اشعار دیکھیں تو پتہ لگے گا کہ ان کی غزلوں میں تازہ کاری کی جو فضا، اظہار و بیان کی جو رنگا رنگی، الفاظ و معانی کی جو ہم آہنگی اور قدیم و جدید کی جو دھوپ چھاؤں موجود ہے وہ خلوتوں سے زیادہ کہیں بھری محفلوں میں چراغ روشن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں
کمرے کے اندر تو آنکھیں بھیگتی جاتی ہیں نادانی سے
جوڑ رہی ہوں اپنا ناطہ باہر کی ویرانی سے
گھر میں روٹی بھی پکنی ہے شام تلک مزدوروں کے
دن کا پسینہ پوچھ رہی ہے سردی میں پیشانی سے
کوئی نیا کردار ہمارے ناٹک کا حصہ ہوگا
ہم بھی نکل جائیں گے ایک دن اس رنگین کہانی سے
اس کے بعد بھلے بٹ جائیں اپنے اپنے مذہب میں
خون سے خون الگ کر دیجیے اور پانی کو پانی سے
ہر لمحہ اک تازہ حقیقت ہم سے سامنا کرتی ہے
وقت تو اب تک کاٹ رہے تھے خوشبو قصہ خوانی سے
آپ کی شاعری میں سمت و منزل کی ایک واضح اور الگ پہچان ملتی ہے۔ مذکورہ اشعار میں آپ دیکھیں کہ خوشبو نے کس طرح لطیف انداز بیان میں زمانے کی تلخیوں سے پردہ اٹھایا ہے اور اس چند روزہ دنیاوی زندگی کی بے ثباتی کو اُجاگر کیا ہے۔ وہ ملک دشمنوں پر بھی طعنے کے تیر اس طرح برساتی ہیں کہ ایک عام قاری بھی اسے باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ مشکل الفاظ و تراکیب بسا اوقات معانی کی تفہیم میں مخل ہوتے ہیں اور قاری کو مشکل میں ڈال جاتے ہیں اسی لئے وہ سہل پسندی کا قائل ہیں۔ الفاظ کا چناؤ وہ اس طرح بیدارمغزی سے کرتی ہیں کہ پڑھتے وقت کہیں بھی ثقالت و ژولیدگی کا احساس تک نہیں ہوتا
تمھارا کام فقط اپنی واہ واہی ہے
تمھارے آنے سے اس ملک کی تباہی ہے
زمانہ جانتا ہے تم تو ملک دشمن ہو
ہمارے واسطے تاریخ کی گواہی ہے
وہ ناموافق حالات سے کبھی مایوس نہیں ہوتی ہیں، بلکہ انھیں اس بات کا پختہ یقین حاصل ہے کہ آج جو سخت حالات ہیں وہ ایک نہ ایک دن گزر جائیں گے، ظلم و ستم کو قوام و دوام حاصل نہیں ہے بلکہ یہ خوبی و جمال تو صدق و وفا سے میل کھاتی ہے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایسا کوئی عمل نہیں ہے جسے ابن آدم انجام دیتا ہو اور وہ تنقید کی بھٹی سے نہ گزرتا ہو
جو ظلم آج ہے کل اپنے کل سے گزرے گا
عمل ہمیشہ ہی ردِ عمل سے گزرے گا
میرے یقین میں ہے لاالہ الا اللہ
تیرا سوال اسی ایک حل سے گزرے گا
یہ سچ ہے کہ کسی کی ذہنی کیفیت کو تاڑنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ مگر جس طرح شعرا و ادبا اپنی تخلیقات کے توسط سے گرد و پیش کو اجاگر کرنے کا کام کرتے ہیں وہ دوسروں کے لیے اپنے ذہنی تار و پود جانچنے کے لیے واضح نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ " کل اناءٍ بما فیہ ینضح" یعنی ظرف سے وہی چیز ٹپکتی ہے جو اس میں ہوتی ہے۔ خوشبو کے اشعار و رباعیات بھی سُرمہ نگاہ بنانے کے بعد اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ آپ کے پاکیزہ افکار کی چاندنی قاری کے دریچۂ ذہن کو منور وہ متاثر کرنے والی ہے۔ اس لیے کہ آپ نے سوقیانہ جذبات، مریضانہ موضوعات اور غیر مہذب افکار سے غزل کو یکسر پاک رکھا ہے اور اس کی جگہ جدت و پختگی، رکھ رکھاؤ، ندرت اور شیفتگی و شگفتگی کے ہمہ رنگ جلوؤں کو بحال کرنے کا کام کیا ہے۔ اس طرح نہ فن کا خون ہوا ہے اور نہ جمالیات کا
جگنو سے جھلملا اٹھے پلکوں کے سائبان میں
مدت کے بعد آگیا پھر بے وفا دھیان میں
ٹوٹے گا آپ کا کبھی اک دن گمان برتری
ترجیح لڑکیوں کو بھی دیجئے نہ خاندان میں
فتنہ اس ایک بات سے اٹھے گا دیکھ لیجئے
موجود جس کا ذکر تک ہوگا نہ داستان میں
مجھ سے جواب چاہیے بہتر جواب دوں گی میں
میرے بھی کچھ سوال ہے رکھوں گی امتحان میں
خوشبو ہے طاری ہجر کی سکرات مجھ پہ کیا کروں
پا لوں جو اس کی اک جھلک آئے گی جان جان میں
متذکرہ بالا اشعار دیکھیں کہ کس طرح خوشبو نے اس میں تہہ داری کی بدولت جمالیات کی چاشنی بھر دی ہیں اور سوزوگداز و درد وغم کی عکاسی کے لیے کیسے کمال دانائی کے ساتھ نمکینی و شیریں اندازِ بیان اختیار کیا ہیں کہ ہر شعر سے ایک آزاد اور مکمل منظوم معنی کی ادائیگی ہو رہی ہے۔ اول الذکر شعر میں انتہائی دلکش انداز میں محبوب کی یاد تازہ ہو جانے کو شب دیجور میں چمکنے والی جگنوؤں سے تشبیہ دی گئی ہے، جب کہ دوسرے شعر میں سماج و خاندان میں لڑکیوں پر ہورہی ناانصافیوں سے گریز کرنے کی بات کی گئی ہے، اسی طرح چوتھے شعر میں بھی جس طرح طنزیہ اشارہ استعمال کیا گیا ہے وہ قاری کو یکسر چونکا دینے والا ہوتا ہے۔متاخرالذکر شعر میں وصال یار کی پرزور تمنا کی گئی ہے،ہجر کی تکلیف دہ ساعات یقیناً عاشقوں پر خار بن کر گرتے ہیں، مگر جب کوئی عاشق ایک نظر ہی سہی، دیدارِ یار سے شرف یاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ زندگی کا خواب پا لیتا ہے اور اس کی ساری حسرتیں پوری ہوجاتی ہیں، بالکل اسی مفہوم کی ادائیگی کے لحاظ سے آخری شعر بھی بڑا شاندار و جاندار ہے۔
خوشبو کو غزل کے علاوہ رباعیات سے بھی گہری دلچسپی ہے۔ اس ضمن میں آپ کا ایک مجموعہ بنام " خوشبو کی آواز" شائع ہو کر اہل علم سے خراج وصول کر چکا ہے اور یہ گلدستہ تقریباً 112صفات پر مشتمل ہے۔ اس میدان میں بھی آپ کا وہی من موہنی انداز بیاں ہر جگہ جلوہ گر ہے۔ نکتہ آفرینی، سہل پسندی اور مقناطیسی قوت کا عکسِ جمیل بہتر طور پر نظر آتا ہے۔ آج کی اردو بستی میں نعت، غزل اور نظم وغیرہ لکھنے پڑھنے والے بکثرت مل جاتے ہیں مگر رباعیات رقم کرنے والے افراد خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس لیے اس وجہ سے بھی آپ قابل صد مبارکباد ہیں۔ آپ لکھتی ہیں:
انجان مسرت کو رباعی سمجھے
چہرے کی تمازت کو رباعی سمجھے
کیسی ہے یہ دولت میں بتاؤ کیسے
خوشبو کی محبت کو رباعی سمجھے
پنڈت ہوں نہ ملا نہ کوئی سادھو ہوں
نہ سحر ہی ہوں میں نہ کوئی جادوں ہوں
ہے کوچہ و بازار معطر مجھ سے
میں شہر رباعی کی نئی خوشبو ہوں
متذکرہ بالا رباعی میں خوشبو رباعی سے اپنی شناسائی کو دولت سے تعبیر کر رہی ہیں، اس صنف کو وہ اپنی محبت کا نام دے رہی ہیں اور بےپناہ خوشیوں کا اظہار کر رہی ہیں۔ رباعی کی شاہراہ پر آپ کا قلم جس طرح بگٹٹ دوڑ رہا ہے، اسے وہ اپنی ماں کی نیک دعاؤں کا ثمرہ بتاتی ہیں
ہے پاس میرے جو بھی ابھی علم و ہنر
آسان جو لگتا ہے رباعی کا سفر
کوشش کا نتیجہ نہیں میری خوشبو
یہ سب ہے مری ماں کی دعاوں کا اثر
چند نمونے اور دیکھیں تو بخوبی معلوم ہوگا کہ خوشبو کس طرح بے تکلف انداز میں فکر، فن، اسلوب اور ذہنی میلانات کے تمام ابعاد کو رباعی کی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ خوشبو صرف طبع موزوں کے بل بوتے ہی شعر نہیں کہتی ہیں بلکہ ان کی حساس طبیعت انھیں غزل گوئی و رباعیات نویسی پر اکساتی ہے، اور پھر وہ بڑی دلچسپی کے ساتھ مختلف موضوعات و عناوین کو اپنی شاعری کی جولان گاہ بنا کر جدھر اور جیسے چاہتے ہیں بآسانی خرام ناز کرتے ہیں
مجبور مہاجر کی طرح ہیں ہم لوگ
بس ڈھلتے مناظر کی طرح ہیں ہم لوگ
کوئی نہیں آیا ہے ہمیشہ کے لیے
دنیا میں مسافر کی طرح ہیں ہم لوگ
ہر بات کو آئینہ بنا کر رکھیے
آنکھوں کو ہمیشہ ہی جھکا کر رکھیے
ہے حکم خداوند کا خوشبو پروین
ماں باپ کو سینے سے لگا کر رکھیے
کیوں بحر میں کشتی ہو غزل ہونے تک
کیوں ہوش پرستی ہو غزل ہونے تک
میخانے میں ساقی تو پلاتا ہی نہیں
"کچھ رقص ہو مستی ہو غزل ہونے تک"
ممکن نہیں پورا تو ذرا سا رکھیے
مشکل میں دعاؤں کا سہارا رکھیے
مرنا تو مقدر ہے مگر اے خوشبو
ہر حال میں جینے کی تمنا رکھیے
ٹھوکر جو لگے پاؤں میں سنبھلو خوشبو
رستے کو ذرا غور سے دیکھو خوشبو
کہتی ہے زمانے کی یہ سرگوشی اب
دل غیر سے اپنا نہ لگاؤ خوشبو
معبود خدا ہے مرا خوشبو پروین
مسجود خدا ہے مرا خوشبو پروین
میں اور کسی شئی کی طلبگار نہیں
مقصود خدا ہے مرا خوشبو پروین
امید کوئی اور کوئی آس نہیں
جینے کا ارادہ ہے مگر سانس نہیں
اس طرح تو مر جائے گی تنہا خوشبو
" دل ڈوب رہا ہے کہ کوئی پاس نہیں"
چلتے چلتے اب اخیر میں دست بدعا ہوں کہ خوشبو کا یہ منفرد اندازِ بیاں دن دوگنی رات چوگنی پختگی و ترقی حاصل کرے، ان کے فکر و فن کا یہ شعری شجر مزید سایہ دار ہو اور وہ خلوص دل کے ساتھ اردو بستی میں نئے نئے و نوع بنوع پھول کھلانے کا کام کریں تا کہ اس عمل سے جہاں اردو زبان و ادب میں جادہ نووردی کرنے والوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی وہیں رباعیات و غزل گوئی کے میدان میں بھی آپ کی شناخت گہری ہوگی۔(انشاءاللہ