برٹنڈ رسل نے اپنی مشہور کتاب "دا کنکوئیسٹ آف ہیپی نیس" یعنی خوشی کی فتح میں خوش رہنے کی سات وجوہات بیان کی ہیں ۔ جبکہ بقول مسٹر کرٹش
Happiness is impossible in this world ۔
رسل نا صرف اس نقطہ نظر سے شدید اختلاف کرتا ہے بلکہ کہتا ہے کہ اگر ایک شخص اچھی صحت، خوراک اور گھر کے حصول کے باوجود ناخوش ہے تو یقینا وہ کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے۔۔
میرے ذاتی خیال میں رسل نے خوشی کو مکمل طور پر داخلی وجود سے کاٹ کر ایک غیر فطری بیانیہ دیا ہے۔ کئی صحتمند لوگ اچھے گھر میں رہنے کے باوجود خوش نہیں ہوتے لیکن انکے پاس اس ناخوشی کی ایک معقول وجہ ہوتی ہے ۔ ہم صرف رسل کے معیار پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں نفسیاتی نہیں کہہ سکتے ہیں ۔ ہاں کچھ لوگ الم کو اپنے داخل و خارج پر اسطرح حاوی کرلیتے ہیں کہ انہیں ہر چیز میں غم محسوس ہوتا ہے، ایسے لوگ چاہے اکثریت میں ہی کیوں نا ہو، نفسیاتی ہی ہیں اور رہیں گے ۔ کوئی مفکر اور کوئی ماہر زودرنجی اور ناشکری کو نارمل کیفیت قرار نہیں دے سکتا ۔۔
اور پھر وہ سات وجوہات جنہیں رسل نے خوشی کی وجوہات قرار دیا ہے، ان سے خوشی کشید کرنے کیلئے پہلے یہ مان لینا ضروری ہے کہ خوشی ہوئی الہامی تحفہ نہیں جو یکدم آپ پر نازل ہوگی اور آپ بیٹھے بٹھائے خوشی سے مالامال ہو جائیں گے ۔۔ ہر گز نہیں!
بلکہ پیسے کی طرح آپکو اسکی تلاش کرنی ہوگی۔ اور تلاش کے بعد اسکے حصول کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی ۔ اس دنیا کی کوئی چیز کسی کو ٹرے میں رکھ کر پیش نہیں کی جاتی اور نا کبھی کی جائے گی ۔ پیدائش کے بعد سے یہ عمل شروع ہوتا ہے اور آخری سانس تک جاری رہتا ہے ۔۔۔
رسل نے اپنی کتاب میں مندرجہ ذیل سات عوامل کو خوشی کے عوامل بتایا ہے۔
● جوش
● شفقت و محبت
● خاندان
● کام
● ذاتی دلچسپیاں
● جدوجہد اور اطمینان
● خوشی برائے خوش رہنا
۔۔۔۔۔۔۔
جوش :
۔۔۔۔۔۔۔
یہ نہایت فطری امر ہے کہ جوش سے قبول کیاگیا ہر کام آپکے جذبات و کیفیات پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ سستی و پژمردگی اسی کام کو کندھوں کا بوجھ بنا دیتی ہے ۔ اپنے اردگرد مشاہدہ کیجئے، خوش رہنے والے لوگ جوشیلے، توانا اور نت نئی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے اور مختلف چیلنجز کو قبول کرنے والے ہوگے ۔ جبکہ فرصت کے لمحات ڈھونڈ کر تصور جاناں میں کھوئے رہنے والے نمونے نا صرف بہت جلد بدشکل، بدحال ہو جاتے ہیں بلکہ ان کے وجود سے بھی منفی لہریں خارج ہونے لگتی ہیں اور وہ قابل ترس رہ جاتے ہیں ۔اپنے جوش کو زندہ رکھیں، اپنی ذات سے باہر نکل کر خارجی دنیا میں دلچسپی لیجئے؛
"جی میرا تو کسی کام میں دل ہی نہیں لگتا،" کہنے والے خوشی سے محروم نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے ذاتی اختیار سے خوشی کو مسترد کرتے ہیں ۔۔
خواتین کیلئے اس جوش و جذبے کا اظہار مرد کی نسبت تھوڑا سا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ معاشرتی ردعمل سے ڈرتی ہیں ۔ وہ سوچتی ہیں کہ پتہ نہیں معاشرہ انکے جذبے کو کیسے وصول کرے اور کہیں ردعمل میں میری عزت نفس اور نزاکت پر کوئی آنچ نا آ جائے ۔ یہ سوچ انہیں دروں بیں( انٹروورٹ) بناتی ہے ۔
یہاں یہ خیال رہے کہ انٹروورٹ ہونا غلط نہیں ہے، لیکن معاشرتی خوف سے انٹروورٹ بن جانا خود پر ظلم ہے ۔
جوش لائیں، اپنی ذات کو بیرونی عناصر سے جوڑیئے اور خود میں آنے والا بدلاو دیکھیں ۔۔
"اجی! میں تو بہت تنہائی پسند ہوں " والے ڈرامے سے نکل آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفقت و محبت :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت دیجئے، محبت لیجئے
اپنے اطراف کی ہر چیز سے محبت کریں اور بدلے میں محبت پائیں۔ عموما ہم یہ سوچ کر بیٹھے رہتے ہیں " مجھے تو کوئی محبت ہی نہیں کرتا " سو ایسے لوگوں سے پوچھا جائے تمہاری رونی شکل سے کوئی محبت کرے گا بھی کیوں؟ اگر آپ محبت دے نہیں سکتے تو محبت نا ملنے کا شکوہ سراسر بیکار ہے ۔اور یہ ممکن نہیں آپ محبت دیں اور بدلے میں آپکو محبت نا ملے۔ یہ ایک ایسا طاقتور جذبہ ہے جس کی عدم موجودگی انسان کو نفسیاتی مریض اور احساس کمتری کا شکار بنا دیتی ہے ۔۔ وہ معاشرے سے باغی ہو جاتا ہے اور توجہ حاصل کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ۔ آہستہ آہستہ وہ حقیقت پسندی سے بہت دور ہو جاتا ہے اور خود کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔
سراہے جانا، چاہے جانا ۔۔سیروں خون بڑھاتا ہے ۔
سو آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو محبت کرنا شروع کردیجئے ۔ بہت سادہ سا فارمولا ہے ۔
بقول شیکسپیئر
Kindness gives birth to kindness.
اور یہاں یہ سوچ کر کہ میں جنس مخالف سے محبت کی بات کر رہی ہوں، اپنے شدید ترسے ہونے کا ثبوت نا دیجئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
خاندان :
۔۔۔۔۔۔۔
خاندان وہ ادارہ ہے جس کی خوشحالی اور بہتری کیلئے اسکا ہر رکن کچھ نا کچھ حصہ ڈالتا ہے ۔ عورت اس میں اپنا وقت، صلاحیتیں اور توانائی لگاتی ہے ۔
تو مرد دن رات محنت سے کمایا گیا پیسہ اپنے خاندان پر لگاتا ہے ۔ جب وہ خاندان بڑھتا ہے؛ معاشرے میں عزت پاتا ہے تو اسے دیکھ کر اسکے ارکان وہی خوشی محسوس کرتے ہیں جو ایک کسان بیج سے پودا نکلتا دیکھ کر کرتا ہے ۔۔
آپ مشاہدہ کیجئے گا ، اگر کوئی شخص رسل کے بتائے سات عوامل میں سے چھ پر عمل کرتا ہے لیکن پھر بھی خوش نہیں ہے تو اسکی وجہ خاندان میں حصہ نا ڈالنا یا ٹوٹا ہوا خاندان ہوگا ۔
اسلئے اگر آپ کا گھر ہے ، خاندان ہے، رشتے ہیں تو ان سے منہ نہیں پھیریں بلکہ انکے لئے اپنے حصے کا کام کر کے ان سے خوشی کشید کریں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنے حصے کا کام کریں صرف، بہت سے لوگ خاندان کیلئے ضرورت سے زیادہ حصہ ڈال دیتے ہیں جس وجہ سے دیگر ارکان لاپرواہ یو جاتے ہیں اور بوجھ کسی ایک پر پڑ جاتا ہے ۔ سو خیال رکھیں کہ خاندان کا ادارہ بہت نازک ہے ۔ اس سے نا بالکل لا پرواہ ہو جائیں، نا دوسروں کو لاپرواہ ہونے کی اجازت دیں۔
۔۔۔۔
کام :
۔۔۔۔
بظاہر کام کا لفظ سن کر بوجھ اور ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے ۔ اسکی وجہ وہ مرد ہیں جو پانچ بجے آفس سے آتے ہی گھر میں داخل ہوتے ہیں اور بستر پر گر جاتے ہیں، بیوی بچے سب سہم کر چپ ہو جاتے ہیں اور خود کو مرد کے احسان تلے محسوس کرنے لگتے ہیں کہ بیچارہ، کتنا کام کرتا ہے ہمارے لئے ۔۔ بچے اس لمحے محبت سے زیادہ اپنے باپ پر ترس کا جذبہ محسوس کرتے ہیں
اسکی وجہ وہ عورتیں ہیں جو رات کو اپنی کمر اور پنڈلیاں دباتے ہوئے سر پر دوپٹہ باندھ کر بیٹھی رہتی ہیں اور سات آٹھ رنگوں کی دوائیاں قریب پڑی ہوتی ہیں ، رات تک شوہر ٹھیک ہو جاتا ہے اور بیوی خراب۔۔ شروع شروع میں وہ " اچھا آو، میں دبا دیتا ہوں کندھے " کہہ کر چند دن لاڈ اٹھائے گا ۔ لیکن مسلسل یہی عمل اسے " تو جا کر سو مر جاو، دماغ کیوں کھا رہی ہو" جملے پر لے آئے گا ۔۔
آغاز میں بیوی تھک کر گرے شوہر کے سرہانے سہم کر پانی کا گلاس لیکر کھڑی ہوگی لیکن مسلسل یہی عمل " آ گیا واپس جان دا عذاب " کی سوچ پر لے آئے گا۔۔۔
کام آپکو کارآمد بناتا ہے ۔ آپ معاشرے کی گاڑی میں کہیں نا کہیں سوار ہیں ۔آپ اپنے مقصد کی تکمیل کر رہے ہیں، آپ رزق حلال عین عبادت ہے پر عمل کر رہے ہیں، آپ اپنے خاندان میں اپنے حصہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہرگز ہرگز ہرگز اسکا بوجھ دوسرے پر نا ڈالیں ۔ جتائیں مت، اپنے کئے کو احسان نا سمجھیں۔ عورت مرد کے گھر آنے سے پہلے شکل سنوار کر دروازے کے قریب منڈلاتی ہو اور مرد گھر آتے ہی ایک دلکش مسکراہٹ اچھال دے ۔۔ اور خود کو معاشرے اور گھر دونوں میں کامیاب بنائے۔
دوسری طرف یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ کام کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں جو آپکے ہنر، مزاج اور تعلیم سے میل کھاتا ہو۔ تاکہ آپ اسے کامیابی سے کر سکیں، نا کہ آفس سے ذلیل ہوتے رہیں۔ نئے کورسز سیکھیں، تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی اپنے کاروبار سے متعلقہ علم حاصل کرتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذاتی دلچسپیاں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگوں کو آخری عمر تک علم ہی نہیں ہو پاتا کہ انکی ذاتی دلچسپی کیا ہے ۔ خودشناسائی حاصل کریں کہ کونسا کام یا کونسی عادت ہے جو آپکو خوشی اور سکون دیتی ہے اور اسے اپنائیں،
وہ کوئی بھی مشغلہ ہو سکتا ہے ۔ باغبانی، گیمز کھیلنا، مطالعہ کرنا، سجنا سنورنا، کچھ بھی ۔۔ اپنی دلچسپی کے مشاغل سے خوشی کشید کریں ۔
یہاں یہ پہلو قابل غور ہے کہ دلچسپی کو کام بنانے سے پہلے سوچ سمجھ لیں کہ آپ اسے بطور مشغلہ نبھا سکتے ہیں یا بطور ذمہ داری؟ جیسے کسی عورت کو سجنے سنورنے کا شوق ہے اور وہ اس شوق میں اتنا بڑھ جاتی ہے کہ اپنا پارلر کھول لیتی ہے ۔ یہاں یہ چیز ذاتی دلچسپی سے کام کے مرحلے میں داخل ہوگئی جبکہ عورت کے پاس پہلے سے ایک کام یعنی گھر کی دیکھ بھال موجود ہے ۔
اسلئے یہ فیصلہ لینے سے پہلے خوب سوچ بچار کرلیں کہ کہیں آپ ذاتی دلچسپی سے خوشی کشید کرنے کے بجائے اسے خود پر بوجھ تو نہیں بنا رہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدوجہد اور اطمینان :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر انسان بہت سی خواہشات رکھتا ہے، بہت سے خواب دیکھتا ہے اور پھر انکی تکمیل کیلئے جدوجہد کرتا ہے ۔ یہ جدوجہد اسے مزید آگے بڑھنے کی تحریک اور حوصلہ دیتی ہے کہ بہت جلد وہ اپنی خواہش کو پا لے گا ۔
لیکن کسی وجہ سے وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا تو بد دل اور افسردہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں اپنی سوچوں کی سمت کا تعین کرنے کی ضرورت ہے ۔۔
اول : اتنی جدوجہد کریں جتنی آپ برداشت کرسکیں، آپکی خواہش کوئی مکان نہیں ہے اور آپ معمار نہیں ہیں کہ دن رات اینٹیں جوڑیں گے تو جلدی بن جائے گا ۔ ہر چیز وقت مانگتی ہے، مستقل مزاجی مانگتی ہے ۔
دوم: کبھی بھی غیر حقیقی چاہ کیلئے جدوجہد نا کریں، ایک مزدور کو اس چیز کیلئے محنت کرنی چاہئے کہ اسکا اپنا ایک گھر ہو ۔ اس چیز کیلئے نہیں کہ وہ ایک جزیرہ خریدنا چاہتا ہے ۔ حقیقت کے قریب تر رہ کر محنت کریں تاکہ مایوسی نا ہو ۔ہاں خواب جو چاہے دیکھیں اس پر کیا پابندی ۔۔۔
سوم: اطمینان رکھیں، شکر گزار رہیں ۔۔ اور اپنے اطمینان میں توازن رکھیں ۔ نا اسقدر مطمئن ہو جائیں کہ جدوجہد چھوڑ کر یہ سمجھیں کہ کامیابی خود چل کر آ جائے گی ۔
نا اسقدر مضطرب ہو جائیں کہ زندگی بے حال ہو جائے ۔ آپکے اطمینان کا اختتام مایوسی پرنہیں، بلکہ مضبوط امید پر ہونا چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی برائے خوش رہنا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھیں کہ آپ خوش ہیں کیوں کہ آپ خوش ہونا چاہ رہے ہیں ۔۔ آپ نئے کپڑے پہنتے ہیں کیونکہ آپ خوبصورت لگنا چاہتے ہیں ۔
آپ اچھا کھانا پکاتے ہیں کیونکہ آپ اسکا ذائقہ محسوس کرنا چاہتے ہیں ۔۔ اسی طرح اپنی خود ترسی سے نکلئے اور کبھی کبھی صرف اسلئے خوش ہو جائیں کیوں کہ آپ خوش ہونا چاہتے ہیں ۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...