پاکستان کے مسلمانوں کی خوش بختی ہے کہ جب بھی ان کا سفینہ گرداب میں پھنستا ہے، پردۂ غیب سے کوئی ملاح ظہور پذیر ہوتا ہے اور انہیں نجات کے ساحل پر پہنچا دیتا ہے۔ اہل سیاست نے اس وقت تباہی اور بربادی کا جو بازار گرم کیا ہوا ہے اس سے وطن کے ہر خیرخواہ کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام کے لیے کوئی خیر نہیں۔
یہ جو ہم نے کہا ہے کہ کوئی نہ کوئی نجات دہندہ پردۂ غیب سے آتا ہے اور ہمیں ساحل نجات پر لا پھینکتا ہے تو اس کی تصدیق ہماری تاریخ بھی کر رہی ہے۔ 1958ء میں ملک تباہی کے دہانے پر تھا۔ قدرت نے کرم کیا اور بلند قامت جنرل ایوب خان کا طویل دور اس قوم کے سر پر سایہ فگن کر دیا۔ دس سال تک ہم عوام اور عوام کے نمائندوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہے۔ قدرت نے مزید کرم کیا اور الطاف گوہر جیسی ذہین و فطین نوکر شاہی نے ’’عشرۂ ترقی‘‘ جیسے تصورات دیے۔ خوشحالی کی اس قدر ریل پیل ہوئی کہ مشرقی پاکستان کے بپھرتے دریائوں میں ہچکولے کھاتی کشتیوں پر بھی DECADE OF DEVELOPMENT کے بینر لہرا رہے ہوتے تھے۔ اسی عرصۂ عافیت کے دوران قوم نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی انتخابات جیتنے کی آزمائش سے بچایا۔ خدانخواستہ وہ الیکشن میں کامیاب ہو جاتیں تو ان کے ناتواں کندھوں پر پورے ملک کا بوجھ آ پڑتا؛ چنانچہ جنرل ایوب خان کے مخلص مشیروں اور دوستوں نے مادر ملت کو اس پریشانی سے بچانے کے لیے انتخابات کو کامیابی سے ’’کنٹرول‘‘ کیا۔ ہاں، مشرقی پاکستان کے نامعقول باشندوں نے مادر ملت کے ساتھ دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں اپنے ہاں جتوا دیا۔
سترّ کی دہائی کا نصف آخر تھا جب قدرت پھر اہل پاکستان پر مہربان ہوئی۔ جمہوریت کا منحوس دور تھا۔ عوام کو یہ احساس دلایا جا رہا تھا کہ وہ طاقت کا اصل منبع ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑے اور مکان کے چکر میں تھے۔ اس اثنا میں ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کر دیا اور جنرل ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ مقرر کر دیا۔ یہ دھاندلی جنرل ضیاء الحق کو اس قدر ناپسند آئی کہ وہ غضب ناک ہو گیا اور اس نے حکومت کا پورا تختہ ہی الٹ دیا۔ جمہوریت تختے سے نیچے گر پڑی۔ ضیاء الحق نے تختے کو جھاڑا، صاف کیا، بچھایا اور خود اس پر بیٹھ گیا۔ یوں ایک بار پھر اہل پاکستان بچ گئے۔
یہ دور نجات دس سال تک ضوفگن رہا۔ الطاف گوہر تو تھے نہیں کہ ایک اور ’’عشرۂ ترقی‘‘ منایا جاتا؛ اگرچہ بیوروکریسی میں ایسے ملازمین کی کمی نہیں تھی جو جنرل صاحب کو امیر المومنین سمجھتے تھے۔ ان لوگوں نے نکٹائیاں اتار کر گوداموں میں رکھ دیں کہ پھر کام آئیں گی اور واسکٹیں پہن لیں۔
88ء میں بدبختی نے ایک بار پھر سر اٹھایا اور جنرل صاحب داغ مفارقت دے گئے حالانکہ ارادہ ان کا ایسا کرنے کا ہرگز نہ تھا۔ 1999ء تک جمہوریت نے ملک کو پھر اندھیروں میں ڈالے رکھنے کی کوشش کی۔ کبھی موٹروے بنی اور کبھی عوامی فلاح کے اور ڈھکوسلے ہوئے۔ ہر طرف اندھیرا چھا رہا تھا کہ قدرت نے ایک بار پھر فریاد سنی۔ پرویز مشرف نے جمہوریت کو چلتا کیا اور لوگوں کو یقین دلایا کہ ان کی نجات اس میں ہے کہ ملک کو بچایا جائے۔ اس نے ’’پہلے پاکستان‘‘ کا دردمند نعرہ لگایا۔ دوسرے نمبر پر اپنے آپ کو رکھا اور یوں ملک کو نو دس سال کے لیے جمہوریت کے پھندے سے باہر نکال لیا۔
آج پھر ہر طرف سے کالی گھٹائیں امڈ امڈ کر آ رہی ہیں۔ آندھی ہے کہ تھم ہی نہیں رہی۔ دن کو بھی رات کی سیاہی کا سماں ہے۔ جمہوریت نے تباہی کو بالکل گھر کے باہر لا بٹھایا ہے۔ سیاست کا بازار گرم ہے۔ پانچ سال سے مارشل لا لگا نہ کسی نے قوم کو یہ بتایا کہ پہلے پاکستان کو بچائو، اور جمہوریت اور سیاست کی انتہائی خطرناک سرگرمیوں کو بند کرو۔ عمران خان سے کچھ امید تھی۔ اس نے ضمنی انتخابات سے کنارہ کشی اختیار کی تو یہ امید جگمگا اٹھی کہ کوئی تو ہے جو انتخابات سے گریزاں ہے لیکن سنا ہے کہ عام انتخابات میں وہ بھی کود رہا ہے اور ریاست کو بچانے کی اسے فکر ہی نہیں۔
مایوسی کے ان گھنے کالے بادلوں میں امید کی آخرکار کرن نمودار ہوئی ہے۔ شیخ الاسلام حضرت ڈاکٹر طاہر القادری نے کینیڈا کے برف زار کو داغ مفارقت دے کر واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ وہ قوم کے نجات دہندہ ہیں۔ عوام کی آنکھیں انتظار کرتے کرتے پتھرا گئی تھیں کہ قدرت نے ان کی دعائوں کو ثمربار کیا اور حضرت نے وطن کا رخ کیا حالانکہ اٹلانٹک کے اس پار جس ملک کو انہوں نے اپنی سکونت سے سرفراز کیا ہے، اس ملک کو بھی حضرت کی اشد ضرورت ہے لیکن آں جناب نے وطن مالوف کو ترجیح دی۔
شکر گزاری کی اس کیفیت ہی میں تھا کہ خیر کا ایک اور پہلو روشنی بن کر چاروں طرف پھیل گیا۔ ایک معاصر کا مطالعہ کرتے ہوئے سینئر کالم نگار جناب عرفان صدیقی کے ذریعے یہ خبر ملی کہ شیخ الاسلام کے پاس کینیڈا کی شہریت بھی ہے۔ اس پر فقیر سجدۂ شکر بجا لایا کہ غیب سے اس قوم کو ایک عظیم موقع صف اول کے ملکوں میں جگہ بنانے کا مل رہا ہے۔ معلومات عامہ میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کو یاد ہوگا کہ چند دن پہلے جن ملکوں کو بدعنوانی سے پاک قرار دیا گیا ہے ان میں نیوزی لینڈ سرفہرست ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے باشندوں کو دیانت میں بلند مقام دیا گیا ہے۔ کینیڈا کی معیشت اس وقت دنیا کی کامیاب ترین معیشت قرار دی جاتی ہے۔ اگر آپ غور کریں تو ان تینوں ممالک میں ایک شے مشترک پائیں گے اور وہ یہ ہے کہ یہ تینوں برطانیہ عظمیٰ کی ملکہ الزبتھ کی حکمرانی میں شامل ہیں۔ تینوں ملکوں کے گورنر ملکہ کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اب اس حقیقت کو ملک کی اس خوش قسمتی سے ملا کر دیکھیے کہ حضرت شیخ الاسلام اگر کینیڈا کے شہری ہیں تو وہ ملکہ الزبتھ کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔ کینیڈا کا شہری بننے کے لیے جو حلف اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ آنجناب نے بھی اٹھایا ہوگا۔ اس حلف کے الفاظ یہ ہیں:
I SWEAR THAT I WILL BE FAITHFUL AND BEAR TRUE ALLEGIANCE TO HER MAJESTY QUEEN ELIZABETH II, HER HEIR AND SUCCESSORS, AND THAT I WILL FAITHFULLY OBSERVE THE LAWS OF CANADA AND FULFIL MY DUTY AS A CANADIAN CITIZEN.
اس حلف میں قسم اٹھا کر یہ عہد کیا گیا ہے کہ کینیڈا کی شہریت لینے والا شخص ملکہ الزبتھ اور اس کے جانشینوں کا وفادار رہے گا اور سچی وفاداری اور عقیدت پر کاربند رہے گا۔ اس کے آخری حصے میں اس عزم کی قسم اٹھائی جاتی ہے کہ ’’میں کینیڈا کے شہری کی حیثیت سے اپنا فرض پورا کروں گا…‘‘
اگر شیخ الاسلام سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کا فرض کینیڈا کے شہری کی حیثیت سے پورا کر رہے ہیں تو اہل پاکستان کو مبارک ہو، اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، اللہ کے بندو! اگر ملکہ کے نام لیوا نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے گورنر بن کر ان ملکوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں تو حضرت شیخ الاسلام جنہوں نے ملکہ کا وفادار رہنے کی قسم اٹھائی ہوئی ہے، پاکستان کو اپنے فیض سے چار چاند کیوں نہیں لگا سکتے؟
ہم بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہیں کہ حضرت حاسدوں کے شر سے محفوظ رہیں۔ چند دن ہوئے ایک بدخواہ نے ہمیں سمندر پار سے ایک ویڈیو ارسال کی جو EUROPENEWS.DK/EN/NODE/58303 پر کلک کرکے دیکھی جاتی ہے۔ اس میں حاسدوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ حضرت شیخ الاسلام بعض پاکستانی قوانین کے بارے میں غیر ملکی سامعین سے کچھ اور کہہ رہے ہیں اور اپنے ہم وطنوں سے خطاب فرماتے ہوئے کچھ اور موقف اپناتے ہیں۔ اس قسم کی بھونڈی کوششوں سے عوام کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم ان مذموم کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ سیاست مردہ باد… ریاست زندہ باد۔
http://columns.izharulhaq.net/2012_12_01_archive.html
“