اردو شاعری کے غیرمشاعراتی افق پر جن شعراءنے خالص ادبی شاعری کرکے اپنے وجود کو تسلیم کرایا ہے ان میں ایک اہم نام خورشید طلب کا بھی ہے۔ خورشید طلب 1980ءکے بعد اردو شعری منظرنامے کا حصہ بنے اور بہت جلد ہی اپنی فکر اور اپنے فن کو انھوں نے دنیا سے تسلیم کرالیا۔ ایسا ہونا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا ، نہ ہی اس عمل میں کسی کے اشارہء ابرو کا کچھ دخل تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خورشید طلب نے اپنی ذات کو، اپنے فن کو، اپنی فکر اس لیے منوالیا کہ وہ مانے جانے کے قابل تھیں۔ اگر کوئی انھیں نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا تو لامحالہ اسے کورچشم قرار دے ہی دیا جاتا۔ عام طور پر غزل کا شاعر ذات کے اندرون قید ہوتا ہے اور وہ جو بھی بات کرتا ہے ذات کے استعارے سے کرتا ہے۔ حالانکہ نئی غزل کے کینوس میں کافی وسعت آئی ہے لیکن اس کے باوجود غزل آخرکار غزل ہی تو ہے، اس کی نازکیت، داخلیت اور اس کا اپنا مابہ الامتیاز مزاج کیسے اس سے الگ ہوسکتا ہے۔ لیکن خورشید طلب جب ذات کے استعاروں کو برتا تو ان کی زبان میں نزاکت اور چاشنی ہی نہیں رہی بلکہ حسب ضرورت انھوں نے زبان کو کھردرا بھی کیا، لہجہ بھی تلخ کیا اور وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو وہ کہنا چاہتے تھے۔ ان کے یہاں موضوعات کی کمی نہیں، بلکہ اپنے گرد و پیش سے لے کر قومی اور بین الاقوامی مسائل تک پر ان کی پینی نظر ہے اور وہ ان مسائل کو اپنے اسلوب اور انداز میں اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں۔ ذات کے حوالے سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
نہ میں دریا ، نہ مجھ میں زعم کوئی بے کرانی کا
کہ میں ہوں بلبلے کی شکل میں احساس پانی کا
میں اپنے پاؤں کی زنجیر اک دن خود ہی کاٹوں گا
ہدف بننا نہیں مجھ کو کسی کی مہربانی کا
اب اپنا رنگ دکھانے لگی ہے بے خبری
پتہ چلا ہے کہ میں ان دنوں خبر میں ہوں
تری صحبت مجھے کیوں راس آتی
میں سارے شہر سے بیزار کب تھا
مرے وجود میں شامل کبھی ہوا ہی نہیں
وہ ایک قطرہ خوں، دل کبھی ہوا ہی نہیں
بدن ہے سبز اور شاداب، لیکن روح پیاسی ہے
مرے اندر ہزاروں بانجھ پیڑوں کی اداسی ہے
کسی کے دل سے اب جذبات کا رشتہ نہیں قائم
ہنسی بھی مصلحت آمیز، آنسو بھی سیاسی ہے
یہاں بظاہر تمام اشعار میں ذات کا کرب واضح نظر آرہا ہے لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟شاعر کرب اور اذیت میں اس وجہ سے مبتلا ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی اذیتوں کو اوڑھ لیتا ہے، ورنہ وہ تو اپنے فینٹسی تخلیق کرکے بہت آرام سے تلخ حقائق سے پیچھا چھڑا سکتا ہے، اس کے پاس تخیل کی قوت ہوتی ہے اور اس تخیل کے سہارے وہ حقائق کی سنگلاخیوں کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ سکتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ وہ دوسروں کی اذیتوں کو خود اپنی ذات پر مسلط کرلیتا ہے کیونکہ وہ حساس ہوتا ہے، وہ دوسروں کو اذیت میں دیکھتا ہے تو اس سے برداشت نہیں ہوتا۔ وہ جھوٹا نہیں ہوتا، معانی و مفاہیم کی ترسیل بغیر چکھے نہیں کرتا، اس لیے پہلے ان اذیتوں کو خود پر مسلط کرکے دوسرے کے غم میں شرکت کرتا ہے، پھر ان کا ذائقہ چکھ کر انھیں الفاظ کا پیرہن دیتا ہے، پھر انھیں اشعار کے قالب میں ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کردیتا ہے کہ اگر پڑھنے والا خود بھی اس اذیت سے دوچار نہ ہوجائے تو پھر تخلیق کا فائدہ ہی کیا!!!
شاعر جب خود رجائیت پسند ہوتا ہے، تبھی اپنے قارئین اور سامعین کو رجائیت کی طرف بلاتا ہے، انھیں حوصلہ دیتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب آپ کی شاعری یا آپ کا ادب مقصدی، اصلاحی یا تعمیری نہ ہو بلکہ آپ مجرد ادب تخلیق کررہے ہوں لیکن اس میں بھی زیریں سطحوں پر آپ کوئی پیغام اپنے قاری کو دے سکیں، اسے زندگی کرنے کا حوصلہ دے سکیں، مایوسیوں کی دلدل سے نکلنے کی سبیل بتاسکیں تو یقینا یہ ادب کی کامیاب ترین شکل ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہوتی ہے کہ ادیب/شاعر اپنی تخلیق میں بے اعتنائی پر ارتکاز کرتا ہے اور اپنے سامعین و مخاطبین کو بھی اسی طریق پر لانا چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں ہونے والے حادثات و واقعات کو بہت ہلکے میں لیں، لیکن اس صورت میں ان میں سنجیدگی کا فقدان بھی پایا جائے گا جو بذات خود نقصان دہ ہوگا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مخاطبین کو مشکل مراحل سے لطف کشید کرنے اور انجوائے کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ خورشید طلب نے بیشتر مقامات پر اپنے مخاطبین کو اس عمل کے لیے ابھارنے کی کوشش کی ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ اس میں کافی حد تک کامیاب ہیں:
ہوا تو ہے ہی مخالف، مجھے ڈراتا ہے کیا
ہوا سے پوچھ کے کوئی دیے جلاتا ہے کیا
گلے میں نام کی تختی گلاب رکھتے ہیں؟
چراغ اپنا تعارف کہیں کراتا ہے کیا؟
سفر میں لطف کہاں تھا رکاوٹوں کے بغیر
ہزار بار تجھے شکریہ، بھنور کہوں میں
حلقہء موج تند خو کے بغیر
لطف آتا نہیں عدو کے بغیر
حلقہ موج تند خو، سفر میں رکاوٹیں، چراغ اور ہوا جیسے استعارے قاری کو مہمیز کرتے ہیں ، اگرچہ ان اشعار میں تعلّی کا ایک پہلو موجود ہے لیکن سب سے پہلی بات تو یہ کہ شاعرانہ تعلّی کو ویسے بھی جواز حاصل ہے، دوسری بات یہ کہ اگر تعلّی کے ذریعہ حوصلہ پیدا کرنا مقصود تو یہ فی نفسہ بھی بری چیز نہیں رہ جاتی۔
خورشید طلب تمام مسائل پر نظر تو رکھتے ہی ہیں لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ وہ غزل کے روایتی مضامین، یا نازک موضوعات سے مکمل طور پر پہلو تہی کرجاتے ہیں۔ ایسا ہرگز بھی نہیں ہے بلکہ موقع محل کی مناسبت سے غزلیہ مضامین بھی اپنی تمام تر ندرتوں کے ساتھ ان کے یہاں جلوہ گر ہوتے ہیں اور پھر کچھ اس نوعیت کے اشعار وجود پزیر ہوتے ہیں:
دھند کی شال لپیٹے کہیں سویا رہا چاند
رات بھر طالب دیدار کا پانی سوکھا
صبا سے پھول کا، پانی سے پیاس کا رشتہ
کسی اصول کی میزان میں نہیں آتا
ویسے تو اس میں خسارہ ہی خسارہ ہے، مگر
کاروبار شوق ہر صورت میں چلنا چاہیے
کسی دن آؤ اس کو آخری ٹچ دے ہی ڈالیں
ہے کب سے تشنہء تکمیل اک رشتہ ادھورا
حویلیوں سے کوئی راہ دل تک آئی نہیں
ہوا بھی عشق جو مجھ تو اک کھنڈر سے ہوا
میں جاگ جاگ کے شب بھر اسے تلاشتا ہوں
لکھا ہوا ہے مرا نام اک ستارے میں
اور ایک بڑا ہی نازک سا شعر
عجیب عالم یخ بستگی ہے اور میں ہوں
ذرا سی آنچ نہیں شعلہ و شرر میں اب
حالانکہ میں نے کبھی کہا تھا
یخ بستگی کی ایسی فضا تھی درون ذات
نکلے تھے اشک آگ کا دریا لیے ہوئے
اگر گزشتہ چند اشعار پر گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے عشق کے مرحلے بھی بڑی سبک روی، بڑے گہرے تجربے اور زبردست مشاہدے کے ساتھ طے کیے ہیں، اس لیے کہ منزل تو خیر الگ شے ہے، راہوں کے سبھی نشانات انھیں از بر ہیں اور وہ بڑے ہی سلیقے سے ایک ایک سنگ میل کی طرف اشارہ کیے جاتے ہیں۔
گلوبلائزیشن، بھاگتی دوڑتی مصروف زندگی اور اس پر ہر گام رونما ہونے والے نئے حادثے، انسان سے باہر سے لے کر اندر تک زخموں سے چور ہے لیکن زندگی کرنے کی ٹھہری ہے تو بازی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سانسوں سے رشتہ بحال رہتا ہے۔ زندگی کو بوجھ سمجھنا پڑے، یا تھکن کی دھوپ میں تھوڑی دیر کے لیے کسی سایہ دار شجر کی چھاؤں نصیب ہوجائے، گریبان چاک ہو یا کسی تار میں الجھ جائے، راہی کو منزل پر پہنچنا تو ہے ہی، پھر کیوں نہ ان حوادث کو ہنستے مسکراتے ہوئے گلے سے لگایا جائے اور ان سب سے لطف کشید کرتے ہوئے منزل پر نگاہ مرتکز رکھی جائے کہ منزل تو ایک دن حاصل ہو ہی جانی ہے:
ہر نفس بڑھتی ہی جاتی ہے گراں باریء جاں
زندگی جیسے کوئی بوجھ ہے، احسان ہے کچھ
تھکن کی دھوپ میں جب سامنا شجر سے ہوا
مجھے لگا میں بغل گیر اپنے گھر سے ہوا
یہ دنیا خیر و شر کا معرکہ ہے اور جہادی تم
لڑو، لڑتے رہو، فتح و ظفر کی بات مت سوچو
جس کو دیکھو وہی پیکار میں الجھا ہوا ہے
ہر گریبان کسی تار میں الجھا ہوا ہے
ہر رات شب ہجر سے تاریک ہے پھر بھی
سنتے ہیں یہاں رسم چراغاں کی نہیں ہے
قبیلے کی روایت تو یہی ہے
اگر سر دیں، تو سرداری کریں ہم
ہر شے کی جمالیات ہوتی ہے، الفاظ کی، اسلوب، فکرکی، معانی کی ، الفاظ کے انتخاب کی، ان کی ترتیب کی اور ان کی تعبیر کی بھی۔ خورشید طلب کا کمال یہ ہے کہ وہ آتی جاتی سانسوں کے درمیان سے بھی ایک موضوع، ایک مضمون نکال لیتے ہیں اور اسے اپنی فنکاری سے اس قدر خوبصورت انداز میں قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ قاری اسے پڑھ کر جھوم اٹھتا ہے۔ بعض بعض مضامین تو ایسے بھی ہیں کہ بے ساختہ چیخ سی نکل جاتی ہے۔ یہاں مضامین کی ندرت کے ساتھ ساتھ سب سے اہم چیز ان مضامین کا برتاؤ ہے۔ خورشید طلب کی فکر اور ان کا تخیل تو بلند ہے ہی، ان کا اسلوب و انداز بھی نرالا اور اچھوتا ہے اور ان سب چیزوں نے مل کر ان کی شاعری کو رنگارنگ گلشن میں تبدیل کردیا ہے۔
“