خورشید قصوری اگر صدرِپاکستان ہوں تو۔۔۔
پاکستان کے عوام نئی حکومت سے لامتناہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لوگوں میں امید پھیلانا یقینا ایک اچھی بات ہے، لیکن ان امیدوں کو پورا کرنا اُس سے بھی بڑا کام ہے۔ ایک ایسی قوم جو دہائیوں سے امیدوں اور مایوسیوں کی تاریخ رکھتی ہے۔ اس بار اگر یہ امیدیں ٹوٹ گئیں تو پھر اس قوم کا کیا حال ہوگا، اس پر پھرکسی روز لکھوں گا۔ عمران خان نے اب اپوزیشن نہیں، حکمرانی کرنی ہے۔ اپوزیشن کرنا آسان اور حکمرانی کرنا سیاست میں ایک مشکل کام ہے۔ اور حکومت بھی ایک ایسی قوم پر جو دنیا کی چھٹی بڑی آبادی ہے۔ پاکستان، بوسنیا یا کروشیا جیسی شہری ریاست بھی نہیں۔ ایک وفاق اور پارلیمانی طرزِحکمرانی میں اُن کی اِن امیدوں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ حکمرانی تدبر سے اور اپوزیشن کی سیاست جوش وجذبے سے عبارت ہوتی ہے۔ حکمرانی میں اہل ٹیم کا ہونا لازمی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اگر حکومت سازی میں پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں دس بیس فیصد بھی اس حوالے سے کامیابی حاصل کرلی تو عام لوگ نتائج کے حوالے سے فرق محسوس کرنا شروع کردیں گے۔ حکومت سازی وفاقی کابینہ تک محدود نہیں بلکہ ریاستی اور حکومتی اداروں کے سربراہان، سیکیورٹی اداروں کے سربراہ اور لاتعداد سرکاری عہدوں پر اہل لوگوں کی تقرریاں ہیں۔
پاکستان ایک پارلیمانی حکومتی ڈھانچا رکھنے والی ریاست ہے۔ ہمارے ہاں اس بنیاد پر ہمیشہ ہی پارلیمانی حکمرانی میں صدر کے لیے کسی ایسی شخصیت کو چنا جاتا ہے جو عملاً یعنی سیاسی بصیرت کے حوالے سے کمزور ترین شخص ہو۔ میرے نزدیک یہ ریاست پاکستان کے ساتھ زیادتی اور توہین ہے۔ جو کروڑوں لوگوں کی ہی امید نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی اس ریاست کی سٹریٹجک اہمیت کی بنیاد پر اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ تقریباً تمام منتخب حکومتوں نے ایسے صدور کو اس اہم منصب پر بٹھایا جن کی سیاسی بصیرت عام شخص سے بھی کم ثابت ہوئی۔ اس حوالے سے اگر وزیراعظم عمران خان ، پاکستان کا صدر اپنی ہی سیاسی ٹیم سے کسی ایسے شخص کو منتخب کروائیں جو اُن کی طاقت اور پاکستان کے لیے بھی مددگار ہو تو یہ اُن کی کامیابی کا سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ میں کھل کر رائے دینے پر یقین رکھتا ہوں اور اپنے طویل سیاسی تجربے کی بنیاد پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر سیاسی جماعت بشمول پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں میں ایسے اہل لوگ موجود ہیں کہ اگر اُن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے تو موجودہ صورتِ حال میں معاملات کہیں بہتر ہوسکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف میں بھی ایک ایسا قومی ہیرا موجود ہے جو اپنی ذات اور تاریخ کے حوالے سے اس ملک کا اثاثہ ہیں۔ خورشید محمود قصوری جن کے والد محمود علی قصوری کا شمار پاکستان کی سیاست کے عظیم رہبروں میں ہوتا ہے اور دادا مولوی عبدالقادر قصوری جو انگریز سامراج کے سامنے ایسے سینہ سپر ہوئے کہ جو میرے جیسے حریت فکر پر یقین رکھنے والوں کے لیے باعث فخر ہیں۔
جناب خورشید قصوری اگر نئی حکومت میں پاکستان کے صدر ہوںتو کیسا پاکستان ابھر کر سامنے آئے گا۔ اس پر کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا، ایک جدید، خوشحال اور جمہوری پاکستان۔ اُن کو اگر وزیراعظم پاکستان چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اس علامتی آئینی عہدے پر مقرر کرنے کا فیصلہ کریں تو اُن کو پاکستان کے اندر حکمرانی کرنے میں جس قدر مدد ملے گی، اُس کا وہ شاید تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ایک ایمان دار، روشن خیال پاکستانی کے طور پر خورشید قصوری عظیم سیاسی روایات کے علمبردار تو ہیں ہی، مگر اپنی ذات میں ایک ایسی شخصیت ہیں جو وزیراعظم عمران خان کی حکمرانی کو پاکستان کی کامیاب عوامی حکمرانی بنانے میں پُل ثابت ہوں گے۔ ملک کے اندر ہر قسم کی سیاسی قوتوں کے درمیان ایک منفرد رابطہ، ہم آہنگی اور افادیت اُن کی صدارت میں جس طرح ابھر کر سامنے آئے گی، اس سے پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی حکومت کی عملی مثال بن سکتی ہے جس کے مواقع پچھلی سول حکومتیںخوف اور کمزور وژن رکھنے کے باعث حاصل نہ کرسکیں۔
نئی حکومت جو امیدوں کے پہاڑ سر کرنے کا چیلنج رکھتی ہے، اس کے لیے خورشید قصوری پاکستان کی سیاست، معیشت، اقتصادیت اور عالمی سطح پر حکومت ، ملک پاکستان اور قوم کے لیے Collective Leadership کے تحت پاکستان کے عوام کی اُن امیدوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے جو مایوسیوں کے بعد ایک خوش گوار تبدیلی ثابت ہوگی۔ اگر عمران خان، رفیق تارڑ اور ممنون حسین جیسے کسی شخص کو صدارت کے عہدے پر مقرر کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنے اوپر مزید بوجھ اور ناکامی کی ایک اینٹ رکھیں گے۔ خورشید قصوری جیسا صدر، وزیراعظم عمران خان کے لیے مددگار صدر ثابت ہوں گے۔ وگرنہ سابق سول حکومتوں نے ایسے عہدوں پر علامتی صدر مقرر کروا کر سوائے بجٹ کا بڑا حصہ ضائع کرنے کے اور کچھ نہیں کیا۔
وزیراعظم عمران خان اگر اپنے ساتھ بڑے لوگوں کی حکومت بنائیں گے تو اُن کا قد بڑا ہوگا۔ ہمارے حکمران زیادہ تر اپنے اردگرد بونوں کو اکٹھا کرلیتے ہیں، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ناکام حکمران ثابت ہوئے۔ ایک ایسی ریاست کا صدر جو دنیا میں جیو پولیٹکل، جیو سٹریٹجک اور ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے اپنی ایک اہمیت رکھتی ہے، ایسی ریاست کا صدر بھی اس کو ہونا چاہیے جو اس ریاست کے اس مقام کا اہل ہو۔ ہماری سول حکومتوں کے صدر ہر بار قوم کو سیاسی لطائف کے سوا کچھ نہ دے سکے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان کو تبدیل کرنے کے دعوے دار ہیں تو تصور کریں کہ ایسے تبدیل شدہ پاکستان کا صدر ایک سیاسی مدبر، لیڈر اور وژنری ہو تو پاکستان کہاں سے کہاں پہنچ جائے۔ عمران خان اگر اس عہدے پر اپنی ہی جماعت کے رکن جناب خوشید قصوری کو فائز کرواتے ہیں تو یہ ایک ایسی کامیابی ہوگی جس پر مخالف بھی عمران خان کے فیصلے پر داد دئیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک بکھرتی ریاست میں ایسا صدر جو ریاست، قوم، حکومت اور سماج کو جوڑنے اور ترقی کی جانب لے جانے میں مددگار ہو۔ بلوچوں کے لیے اپنی ذات اور خاندانی سیاست کی تاریخ کے حوالے سے خورشید قصوری سے زیادہ قابل قبول کوئی صدر نہیں ہوگا۔ اور اسی طرح سندھیوں کے لیے بھی جو سیاسی شعور میں اس وقت پاکستان میں سب سے آگے ہیں، خورشید قصوری جو طویل عوامی سیاسی جدوجہد کا تجربہ رکھتے ہیں، سندھیوں کے ہیروز میں شمار ہوتے ہیں۔ پختونوں کے لیے جو خورشید قصوری اور اُن کے والد محمود علی قصوری جیسے رہنمائوں کے دلدادہ ہیں۔ ایک ایسا صدر جو بھارت، چین، ایران، مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور امریکہ کے حوالے سے ایک شان دار وژن ہی نہیں رکھتا بلکہ تجربہ رکھتاہے، اگر ایسی شخصیت پاکستان کی صدر بن جائے تو وہ پاکستان کو ایک کامیاب ریاست میں بدلنے، نئی حکومت، پاکستان اور اس کے عوام کا ایک وسیلہ ہوگا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ خورشید قصوری اُن کی جماعت کے رہبر ہیں۔ بحیثیت چیئرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران خان کے لیے یہ خوش قسمتی ہے کہ خورشید قصوری جیسے شفاف، ایمان دار، اہل اور تجربہ کار لیڈر اُن کی قیادت میں اُن کے ساتھ ہیں۔ اور اگر چیئرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران خان اُن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اس آئینی عہدے پر منتخب کرواتے ہیں تو یہ اُن کی جماعت، اُن کی حکومت اور پاکستان کے لیے کامیابی کا سبب ثابت ہوگا۔ ایک کامیاب ریاست، کامیاب حکومت اور کامیاب قوم کے لیے، میرے نزدیک اس وقت اُن سے بہتر کوئی انتخاب نہیں۔
“