یہ دھچکا نہیں تھا۔ یہ تو ٹھوکر تھی جو مجھے لگی۔ قریب تھاکہ میں منہ کے بل گر پڑتا۔
نواسی کو فارسی پڑھا رہا تھا۔ شبان کا لفظ آیا۔ میں نے مطلب بتایا: گڈریا۔ ساڑھے سات سالہ زینب نے پوچھا وہ کیا ہوتا ہے۔ اس پر میں نے کہا چرواہا۔ وہ بولی چرواہا کیا ہوتا ہے؟ یہ دھچکا نہیں تھا، ٹھوکر تھی۔
یہ دلیل غلط ہے کہ شہر کے بچوں کا چرواہے سے واسطہ پڑتا ہے نہ بھیڑ بکریوں کے گلّے سے۔ واسطہ تو ان کا شہزادی سے بھی نہیں پڑتا لیکن انہیں معلوم ہے کہ پرنسس کسے کہتے ہیں۔ واسطہ تو ان کا جادو سے بھی نہیں پڑتا لیکن ویلنٹائن ڈے منانے والے سکول میں چند ماہ گزارنے کے بعد Magician کے لفظ سے متعارف ہوجاتے ہیں۔ وہ سٹوری بکس پڑھتے ہیں۔ اگر کہانیوں کی کتابیں پڑھتے تو چرواہے سے بھی آشنا ہوتے، لکڑہارے سے بھی اور پرستان سے بھی!
لیکن المیے کا یہ پہلوتو کچھ بھی نہیں۔ سانحہ تو اور ہے۔ ہماری ادبی میراث۔ ہماری تہذیبی تاریخ فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے شروع ہورہی ہے جو 1800ء میں قائم ہوا۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ ہم ولی دکنی کو پہلے اردو ادیب اور شا عر کے طور پر پڑھ پڑھا رہے ہیں۔ ولی دکنی کا سال وفات 1707ء ہے۔ شمالی ہند میں مسلمانوں کا اقتدار محمد غوری کی اس فتح سے شروع ہوتا ہے جو اس نے ترائن کی دوسری جنگ میں حاصل کی تھی۔ یہ 1192ء کا واقعہ ہے۔ 1192ء اور 1707ء کے درمیان پانچ صدیوں سے زیادہ کا عرصہ ہے۔ آپ دنیا کو کیا بتائیں گے کہ پانچ سو سال ہمارا ادب تھانہ تہذیب ؟ ہم میں کوئی شاعر پیدا ہوا نہ دانشور؟ ہم جنگلی تھے؟ ستر پتوں سے چھپاتے تھے؟ آگ چقماق سے پیدا کرتے تھے؟ گوشت کچا کھاتے تھے؟ قلم اور تحریر سے کوئی واسطہ نہ تھا؟
خدا کے بندو! ان پانچ سو سالوں میں تمہارے آبائو اجداد نے وہ ادب پیدا کیا جس کی پوری دنیا میں دھوم ہے۔ جسے نہیں معلوم وہ تم خود ہو! ع
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
یہ کہنا کہ فارسی ہماری زبان نہ تھی، ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی کوتاہ نظر کہہ دے کہ اردو ہماری زبان نہیں ہے۔ اقبال اور فیض پنجابی بولتے تھے۔ غالب وسط ایشیا کے شہر سبز سے آئے تھے۔ جوش ملیح آبادی پٹھان تھے اور ان کے بزرگ پشتو بولتے تھے۔ تو کیا ہم اس بنیاد پر اردو سے لاتعلقی اختیار کرلیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! تو پھر ہم اس فارسی زبان و ادب سے کس طرح کنارہ کش ہوسکتے ہیں جو برصغیر میں ہم نے پیدا کیا۔ ان پانچ سو سال میں جو ادب یہاں ظہور پذیر ہوا اس کے خلّاق برصغیر ہی سے تھے۔ یہ درست ہے کہ مغلوں کے زمانے میں ایرانی اہل قلم یہاں آئے لیکن وہ تو اس لیے آئے کہ ہماری زبان و ادب کی برتری کے قائل تھے اور ہماری سرپرستی کے متمنی تھے۔ ورنہ ہمارے فارسی ادیبوں اور شاعروں کا ایران سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔
امیر خسرو آگرہ کے ایک قصبے پٹیالی میں پیدا ہوئے۔ فیضی کے والد شیخ مبارک ناگور میں پیدا ہوئے اور خود فیضی کا آگرہ میں تولد ہوا۔ بیدل پٹنہ سے تھے۔ غالب دلّی سے اور اقبال سیالکوٹ سے تھے۔ فارسی پر ایرانیوں کی اجارہ داری نہیں۔ جس طرح تاجکستان، بخارا، سمرقند، خجند اور افغانستان کی زبان فارسی ہے اسی طرح برصغیر کی زبان بھی فارسی تھی۔
کیا ستم ہے کہ جس امیر خسرو کو ایرانی بھی طوطی، ہند کے لقب سے یاد کرتے ہیں جس نے نظامی گنجوی جیسے معرکہ آرا شاعر کے خمسہ کا جواب لکھا اور جامی جیسے نابغہ نے بہارستان جامی میں اعتراف کیا کہ نظامی کے خمسہ کا جواب خسرو سے بہتر کسی نے نہیں لکھا۔ جس خسرو نے بیس سے زیادہ کتابیں لکھیں، جن کا چہار دانگ عالم میں شہرہ ہے، وہ خسرو ان ہم وطنوں میں محض ’’کھیر پکائی جتن سے‘‘ اور’’ آیا کتا کھا گیا‘‘ کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ آج خسرو، فراق کی زبان میں ضرور کہتے ہوں گے۔ ؎
میرا دل آگاہ تھا اک گنج معانی
اے ہم نفسو! تم نے مری قدر نہ جانی
وہ غالب جو خود کہتا ہے کہ مجھ سے متعارف ہونا ہے تو میرا فارسی کا کلام پڑھو۔ آج اپنی فارسی شاعری کے حوالے سے مکمل اجنبی ہے۔ اقبال اردو کی ساڑھے تین کتابوں سے جانا جاتا ہے اور فارسی کی سات تصانیف کا مکمل بلیک آئوٹ ہے۔
ترکوں کے ساتھ المیہ پیش آیا کہ اتاترک نے رسم الخط بدل دیا لیکن اس کے باوجود ان کی زبان وہی ہے۔ یہی حادثہ وسط ایشیا کے ترکستانیوں کے ساتھ پیش آیا۔ سوویت یونین نے ان کا رسم الخط روسی کردیا۔ تاہم زبان وہی رہی۔ جو سانحہ برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا، اس کی مثال دنیا میں شاید ہی ہوگی۔ رسم الخط تو نہ بدلا مگر زبان پوری کی پوری غائب کر دی گئی۔ یہاں تک کہ پورے پانچ سو سال تاریخ میں سے کم ہوگئے!
کچھ عرصہ قبل ان سطور کے لکھنے والے نے ممتاز ادبی جریدے ’’زرنگار‘‘ کے مدیر ضیا حسین ضیا کو ایک خط لکھا تھا جسے خوبصورت نثر نگار اور شاعر ضیا نے ’’مکتوب گریہ نہاد‘‘ کا نام دے کر چھاپا۔اس مکتوب گریہ نہاد سے ایک پیراگراف اسی ماتم کے بارے میں ہے…’’ وہ جو اقبال نے کہا تھا۔ ؎
میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جائوں کہاں
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک
تو کہستاں سے مراد میرے خیال میں تو ہماری زبان ہی ہے، لیکن افسوس! ہم نے اسے چھوڑ دیا۔ تہذیبی مہاجر بنے اور آگا پیچھا گم کر بیٹھے۔ یہ آگا پیچھا گم کرنا با عزت لوگوں کے لیے جیتے جی مر جانے کے مترادف ہوتا تھا۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو نیچ خاندانوں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ گملوں میں درخت اگانے کی بہت کوشش ہوئی لیکن خون وہی خون قبول کرتا ہے جو مناسبت رکھتا ہو اور جس کے اجزا ہمزاد ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔‘‘
آج ہمارے بچے ہماری زبان سے اس لیے بیگانہ ہیں کہ ہم نے خود اپنی شناخت گم کی۔ ہم نے ماضی کے پانچ سو سال دفن کرکے ان پر مٹی ڈال دی۔ اس کے بعد اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا حال اور ہمارا استقبال باعزت ہوگا تو یہ ایک سنگین خوش فہمی ہے۔ جو آبائو اجداد کے ورثے کو لات مارتے ہیں، ان کی نسلیں ان سے ضرور انتقام لیتی ہیں۔ ایک نوحہ جدید اردو نظم کے منفرد شاعر معین نظامی نے اسی سانحے پر رقم کیا ہے ۔آئیے اس کے ساتھ مل کر ماتم کریں:
میرے اجداد کے گرتے ہوئے حجرے کے محرابِ خمیدہ میں
کسی صندل کے صندوقِ تبرک میں
ہرن کی کھال پر لکھا ہوا شجرہ بھی رکھا ہے
کہ جس پر لاجوردی دائروں میں
زعفرانی روشنائی سے مرے سارے اقارب کے مقدس نام لکھے ہیں
مگر اک دائرہ ایسا بھی ہے
جس میں سے لگتا ہے
کہ کچھ کھرچا گیا ہے
میں انہی کھرچے ہوئے لفظوں کا وارث ہوں