کتاب کا نام: “ایک مردے کی حکایت“
صنف: افسانے
مصنف: ساجد رشید (مرحوم)
اشاعت:٢٠١١ء
سرورق: آصف شیخ
اسکیچیز:ساجد رشید۔ آصف خان (مرحومین)
رابطہ: کتاب دار، ١٠٨-١١٠ جلال منزل ٹیمکر اسٹریٹ، ممبئی ٤٠٠٠٠٨
تبصرہ نگار: احمد سہیل ***
ساجد رشید کا افسانوی سفر پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی میں قارئین سے ھم دست ھوا۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے جسم سے خوں بہتا محسوس ھوتا ھے۔ واقعات کا افسانوی اظہار معروض کے اضطراب کو اس مہارت سے جمالیاتی پیرائے اظہار میں لاتا ھے کہ قاری خود ھی ان کے اضطراب و کرب کی کیفیت میں اپنے آپ کو کہانی کا حصہ تصور کرلیتا ھے۔ بنیادی طور پر ساجد رشید کے افسانے، معاشرتی منافقت، سیاسی بے چینی، معاشرتی بکھراؤ اور سرکاری انصرام بندی کی سفاکی کے خلاف مزاحمت اور احتجاج بھی ھے۔ وہ ایک افسنے میں نقل مکانی کا جغرافیائی اور سیاسی کرب جو برصغیر میں سفاکی کا سبب بنا ۔ اس کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
“بٹوارے کے بعد ھمارا خاندان پاکستان کے حیدرآباد سندھ سے مائی گریٹ کرکے ممبئی آرہا تھا تب میرے نوجوان انکل مسلمان بلوائیوں نے مار ڈالا تھا۔ زرا سوچو توصیف جس کا جوان بیٹا مار دیا جائے اسے اس قوم سے نفرت نہیں ہو جائے گی جن کے لوگوں نے قتل کیا ھو؟“ (“بیچ کا دروازہ“، س ١١٤-١١٥)
اس مجموعے کے آخر میں ساجد رشید کے نامکمل ناول “جسم بدر“ کے٩٦ صفحات شامل کئے گئے ہیں۔ جس کا واقعاتی مکالمہ بابری مسجد کا سانحہ اور فسادات ہیں۔
ساجد رشید نے ایک ناول، چار(4) افسانوی مجموعے ایک ہندی کہانیوں کا انتخاب اور “زندگی نامہ“ تحریر کیا ھے۔
اس اتنخاب میں کوئی پیش لفظ نہیں، اور نہ کسی کا تبصرہ کو شامل کیا گیا ھے۔ یوں قاری ھی اس کتاب کا نقاد اور تبصرہ نگار ھے۔
***مرقع ذات:***
ساجد رشید (11 مارچ 1955 ۔ 11 جولائی 2011) اردو کے مشہور افسانہ نگار، ناول نگار، ڈرامہ نگار،مترجم صحافی ، کارٹونسٹ اور بہترین مقرر تھے۔ ان کا تعلق 70 کی دہائی میں ابھرنے والی والی افسانہ نگاروں کی نسل سے ہے۔ جو ترقی پسند اور جدیدیت تحریک اور رجحان کے سکہ بند نظریات سے الگ رہ کر اپنی راہیں خود تلاش کررہی تھی۔
ساجد رشید ایک تجربہ کار اردو صحافی، فعالیت پسند اور روزنامہ صحافت کے ایگزیکیٹیو ایڈیٹر تھے۔ وہ وہ یساریت پسند فکر کے ادیب تھے۔ ساجد مہاراشٹر اردو اکادمی کے صدر نشین رہ چکے ہیں۔ ایک شام کے اخبار "ہمارا مہا نگر" کے بھی مدیر تھے۔ انہوں نے ایک افسانوں کا مجموعہ ایک چھوٹا سا جہنم بھی تحریر کیا۔وہ کئی اردو اور ہندی روزناموں سے منسلک رہ چکے تھے ۔
ممبئی سے شائع ہونے والامشہور سہ ماہی رسالہ نیاورق کے بانی ساجد رشید کی ادارت میں 35 شمارے شائع ہوچکے ہیں جو اُن کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادے شاداب رشید تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ساجدرشید نے ۶۵ سے زائد کہانیاں تخلیق کی۔، جن میں سے بیشتر انگریزی، ہندی، مراٹھی، گجراتی، پنجابی اورتیلگو میں بھی ترجمہ ہوچکے ہیں۔ ممبئی اردو اکادمی کے کارگزار صدر بھی رہ چکے ہیں۔ 3 اردو اخبار اور 2 ہندی اخبار کی ادارت بھی سنبھال چکے ہیں۔ان کے افسانے میں سیاسی مزاحمتی اور احتجاجی حسّیت منفرد اور معروضی نوعیت کی ہے۔ ساجد رشید بہت بے باک صحافی تھے۔ وہ کسی خوف اور خطر کے بڑی دلیری کے ساتھ لکھتے تھے۔ وہ مذھبی تعصبّات کے شدید مخالف تھے۔ اور ان اپنے قلم پر کسی قسم سیاسی دباو برداشت نہیں کرتے تھے۔وہ مسلمز فار سیکولر ڈیموکریسی (Muslims for Secular democracy (MSD)) نامی تنظیم سے سے بھی منسک رہے۔ ۔ وہ ریاستی مقننہ کے رکن بنے کے لیے کوشاں بھی رہے۔ اور اس اسمبلی کے انتخابات میں کھڑے بھی ہوئے تھے، مگروہ انتخاب میں شکست کھا گئے تھے۔ ساجد رشید پر توہین رسالت کا الزام عائد ہوا تھا اور اس سبب ان پر ایک قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا تھا۔
وہ ایک عرصے تک کراچی سے شائع ہونے والے معروف ہفت وار جریدے " اخبار جہاں" میں حاشیہ نویسی بھی کرتے رہے۔ ان کے حاشیے پاکستاں میں مقبول بھی ہوئے۔
ساجد رشید کو ادبی خدمات اور افسانوں کے لئے ۳ ؍ایوارڈ اور بے باک صحافت کے لئے ۲ ؍ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ساتھ ہی معاشرتی، ثقافتی خدمات اور سیاسی طور پر بھی کافی سرگرم رہ چکے ہیں۔ ساتھ ہی اردو کی ترویج اور فروغ میں خاصے فعال رہے۔ ساجد رشید کو ممبئی کے پرنس علی خان پاسپٹل میں کشادہ قلب کے آپریشن کے لیے شریک کیا گیا تھا، مگر وہ اس آپریشن سے جابر نہیں ہوسکے اور 11 جولائی 2011ء کو اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔
::: ساجد رشید کی تصانیف :::
ایک چھوٹا سا جہنم
ایک مردہ کی حکایت
ریت کھڑی
نخلستان میں کھلنے والی کھڑکی
وجود