ضمنی انتخاب میں مسلم لیگی جیت نے "خفیہ ریاست" کو کسی حد تک بے نقاب کر دیا۔
سندھی اور بلوچی سیاسی کارکنوں پر کالا کپڑا ڈال کے غائب کرنے کی روائیت پنجاب میں دستک دینے لگی۔
ایک میان میں دو تلواروں کا رھنا مشکل ہے۔ آر یا پار ھو سکتا ہے۔
تجزیہ؛ فاروق طارق
(اپ اس تجزیہ کو اجازت لئے بغیر شائع یا شئیر کر سکتے ہیں)
مسلم لیگ نے بالاخر لاھور کا ضمی انتخاب ایک واضع اکثریت سے جیت لیا۔ اگرچہ ان کے ووٹ میں اچھی خاصی کمی رونما ہوئی مگر اس کی جو وجوھات اب مسلم لیگی لیڈرز بیان کر رھے ہیں وہ خاصی تشویش ناک ہیں۔ میاں نواز شریف نے لندن سے الزام لگایا کہ ہمارے بندوں کو آٹھایا گیا ہے۔ بعد ازاں رانا ثنا اللہ نے تفصیل سے نام لے لے کر بتایا کہ کونسے کارکن اب "مسنگ"ہیں۔
انتخابی جیت کے بعد مدیم نواز کی تقریر عوام کے شکریہ ادا کرنے سے زیادہ نظر نہ آنے والی قوتوں کی شکائتوں سے بھرپور تھی۔ انہوں نے تو یہ تک کہ دیا کہ نظر آنے اور نہ آنے والی دونوں قوتوں کو شکست ہوئی ہے۔
حکمران مسلم لیگ ماضی میں جن قوتوں پر انحصار کرتے ہوئے انتخاب جیتتی تھی آج اسے انہی کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا ہڑا۔ یہ ایک رائیٹ ونگ سیاسی جماعت کی دوسری تمام دیگر رائیٹ ونگ قوتوں کے خلاف جیت تھی۔ مگر جو جماعت جیتی وہ "خفیہ ریاست" کی جانب سے اسے ھرانے کے تمام تر ہٹھکنڈوں کے باوجود جیت گئی۔
اس کے اھم کارکنوں کو سروں پر کالا کپڑا ڈال کر اسی طرح اٹھایا گیا جس طرح اوکاڑہ مزارعین کے راھنما مہر ستار کو اٹھایا گیا تھا اور جس طرح اسے کالے کپڑے سے سر ڈھانپے اور بیڑیوں سمیت عدالتوں میں پیش کیا جاتا رھا تھا۔ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جس کے پاس شیر کی پرچی تھی اسے ووٹ نہ ڈالنے دیا گیا اور وھی فرد جب کسی اور کی پرچی بنوا کر لے گیا تو ووٹ ڈال آیا۔ طالبان حلیہ والے درجنوں مسلح افراد ملی مسلم لیگ کے امیدوار کے ساتھ ہوتے تھے مگر کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔
یہ ریاست کے اندر ایک خفیہ ریاست کی نشاندھی کرنے والے تمام اندازوں کو درست قرار دینے والے اشارے تھے۔ کبھی یہ خفیہ ریاست بلوچستان اورسندھ کے قوم پرستوں سے ایسا سلوک کرتی تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ جبر کا نشانہ انہیں بنایا گیا تھا مگر جب اس کو کسی حد تک پنجاب کے ایک ضمنی انتخاب میں پریکٹس کیا گیا اوروہ بھی حکمران جماعت کے خلاف تو آوازیں ہر چینل سے سنائی دیں۔ مریم نواز نے ذھانت سے اپنی جیت کی تقریر کو "خفیہ ریاست" کے خلاف مقدمہ بنا کر پیش کر دیا۔
میاں نواز شریف، مریم نواز اور رانا ثنا کی جانب سے اس ایسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے جو کسی کام کو کرنے کے لئے کسی قاعدے قانون کی محتاج نہیں۔ جو وہ چاھتے تھے کر لیتے تھے۔ مخالفین کو اٹھانا، دھمکانا، خفیہ نمبروں سے فون کرنا اور اٹھانے والوں کو اس قدر ھراساں کرنا کہ وہ ان کا نام لیتے بھی کانپ جائیں ایک روٹین میٹر تھا۔ وہ تو مسنگ پرسنز کو ھمیشہ کے لئے بھی مسنگ کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتے۔
مگر اب ایک میان میں دو تلواریں زیادہ دیر تک نہ رہ سکیں گی۔ کسی ایک کو اپنا راستہ بدلنا پڑے گا۔ اس ضمنی انتخاب نے کارپٹ تلے تمام گند کو باھر لا پھینکا ہے۔ جو کچھ چھپ چھپا کر کیا جاتا تھا اب عوام کے سامنے ننگا ہو کر سامنے آگیا ہے۔ یہ اب ایک بلکل نئی صورتحال ہے۔ جس "سازش" کا مسلم لیگی حکومت بار بار زکر تو کرتی تھی مگر کھل کر بات نہیں کرتی تھی۔ وہ اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔ مسلم لیگی حکمومت کو اب فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کیا وہ حکومت میں رھنا چاھتے ہیں یا نہیں، اگر رھنا چاھتے ہیں تو بات کھل کر کرنی لڑے گی۔ ورنہ بات اپنا وزن کھو دے گی اور "خفیہ ریاست" جلد مکمل حاوی ہو جائے گی۔
اس تمام کے باوجود مسلم لیگ لاھور سے جیت اس لئے گئی کہ ان کی جیت کا مارجن بہت زیادہ تھا۔ اور جو امیدیں ملی مسلم لیگ سے وابسطہ تھیں کہ یہ کم از کم پندرہ سے بیس ھزار ووٹ تو توڑیں گی وہ پوری نہ ہو سکیں۔ وہ تو 4200 ووٹ بھی نہ لے سکی۔ جبکہ تحریک انصاف نے اس لئے ووٹ برقرار رکھے کہ اسے ووٹ دلوانے میں مشکلات کا سامنا نہ تھا بلکہ اس کے پاس ایک اچھی امیدوار بھی تھی جو ڈور ٹو ڈور کمپین کرتی رھیں۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار اس انتخاب میں "اپ سیٹ" کرنے کا دعوی کرتے ہوئے 2540 ووٹ ہی لے سکے۔
مسلم لیگ جیت تو گئی اور وہ بھی ایک واضع مارجن سے، مگر اب ایک نیا بحرانی دور شروع ہونے والا ہے۔ ملک میں اب پہلی دفعہ فوجی مداخلت اورفوجی ٹیک اور کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ آر یا پار والی صورتحال ہے۔ جو مسم لیگ کو خفیہ کھیلتے ہوئے شکست نہ دے سکے وہ کھل کر اب اوپن میدان میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ امریکی سامراج کی قیادت اب اس کے پاس ہے جو پاکستان سے ناراض ہے اور فوجی مارشل لاہ لگنے پر منافقانہ ناراضگی کا بھی اظہار نہ کرے گا۔ صورتحال انتہائی کشیدہ ہو گئی ہے۔ پاکستان میں فوجی آمریتوں کی جو تاریخ رھی ہے اس میں آیک نئے باب کا اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔