::: خفیہ اداروں کی ایڈورڈ سعید کی نگرانی اور اس کا پس منظر :::
ایڈورڈ سعید (پیدائش: 1 نومبر 1935ء۔۔۔ وفات : 25 ستمبر 2003ء) ،فلسطینی مصنف اور دانشور۔ پروفیسر ایڈورڈ سعید یروشلم میں پیدا ہوئے لیکن 1947ء میں پناہ گزیں بن جانے کے بعد وہ امریکہ چلے گئے اور ساری عمر وہیں رہے۔ شاید یہی سبب تھا کہ انہوں نے ساری زندگی فلسطینیوں کے حقوق کے لئے علمی جدوجہد جاری رکھی۔ امریکہ کی معررف ہارورڈ یونورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ہارورڈ اور پرنسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔ ایک سو پچاس میں خطابت کرچکے ہیں۔ امریکی خارجی حکمت عملیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ اس سبب امریکہ کے کئی ٹی وی چینل نے ان پر پابندی لگاری تھی۔ یاسر عرفات کی امریکی پالیسوں کو تسلیم کرنے اور فلسطین کے معاملے پراختلاف سے ان کو یاسر عرفات نےفلسطین کی آزادی کی تحریک {PLO} کی رکنیت سے خارج کردیا تھا۔
وہ عرب دنیا کے بجائے مغرب میں زیادہ معروف تھے اور شاید اس کا سبب یہ ہے کہ وہ انگریزی زبان میں لکھتے رہے لیکن ان کے قلمی کام کا اثر عرب دنیا میں بھی ویسا ہی رہا جیسا کہ باقی دنیا میں ہوا۔ یعنی دوہری شہریت کے حامل تھے۔ دوہری شہریت، دوہرے تناظر کو ممکن بناتی ہے۔ مغربی دنیا میں کسی عرب نژاد نے اس قدر کھل کر اور بے باک انداز میں فلسطینی حقوق اور موقف کا دفاع نہیں کیا جتنا ایڈورڈ سعید نے کیا۔ لیکن اس دفاع میں وہ قلعہ بند نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے طور پر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان مکالمے کو جاری رکھا۔
اگرچہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تلخیاں اور شبہات بڑھتے رہے پھر بھی دونوں کو قریب لانے کے لئے ایڈورڈ سعید کے جذبہ میں کمی نہیں آئی۔
امریکہ کی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے امریکہ کے دانشوروں ادبّا، اساتذہ اور فنکاروں کی مخبری، خفیہ نگرانی اور ہراساں کرنے کی ایک طویل، غیر جانبدار روایت موجودہے. اس سلسلے میں البرٹ آنسٹائن، ، ولیم کارلوس ولیمز برتولت بریخت، ہمفری بوگارڈ، چارلی چپلن، لانگسٹن ہیوز، منرلن منرو،جوزف میلر سے لے کر مارٹن لوتر کنگ کی ایف بی آئی نے خفیہ نگرانی کرتی رہی ہے۔ جس کی مخبری میں کاو بوائے اداکار جان ویں{ ڈیوک} اورسابق صدر امریکہ ریگن پیش پیش تھے۔ اس سلسلے میں ایف بی آئی نے اپنے طریقہ کار کو عوام کے سامنے پیش بھی نہیں ہونے دیا۔
ایک درخواست کے جواب میں Freedom Of Information Act ، CounterPunch کے نام سے اپیل یا درخوست درج کی گی ایف کچھ دن قبل امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے میں سعودی عرب کے 238 صفحے ایف بی آئی فائل میں 147 کو جاری کی. اس دستاویز/ ریکارڈ میں کچھ غیر معمولی فرق موجود تھے ، اور یہ ممکن ہے کہ ایف بی آئی نے تسلیم کرنے کے مقابلے میں ایڈورڈ سعید پر بہت زیادہ فائلیں بھی رکھی تھی . ان میں سے کچھ فرق موجود تھے۔ کیونکہ نئے پیٹریاٹ ایکٹ اور نیشنل سیکورٹی ایف بی آئی کو ریکارڈ کے وجود سے انکار کرنے کی اجازت دیتا ہے؛ تاہم، جاری فائل ایڈورڈ سیعید میں ایف بی آئی کی دلچسپیوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے کافی معلومات فراہم کرتی ہے جس میں فنکارانہ تعریفات، ، معاشرتی اصول، اور سیاسی سرگرمی طاقتور اور منفرد طریقوں سے ان سرگرمیوں کو انجام دینے کا انکشاف ہوا۔ سعودی عرب کی دستاویزات میں سے زیادہ تر ایف بی آئی نے امریکی، فلسطینی سیاسی یا حامی عرب تنظیموں جو آئینی ، قانونی، تو تھا جسیے ایف بی آئی کی نگرانی میں مہمات کا رنگ دیا گیا۔ کی، ان فائیلوں کے دیگر حصوں کے بعد یہ معلوم ہوا کی اس خفیہ ادارے{ ایف بی آئی } نے راست طریقے ےس فلسطینوں کی سیاسی سرگرمیوں اور مسلح جدوجہد پر بڑی کہرائی سے کام کیا۔ اور لوگوں کی کڑی نگرانی بھی کی۔کی سیدھا تحقیقات درج کی ہے کیونکہ اس نے دیگر فلسطینیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی نگرانی کی ۔ مگر یہ خفیہ ادارہ عرب دانشوروں ، کو سمجھ نہیں پائی اور تشکیک کا شکار رہے۔ اور نہ ہی یہ اسرائیلی اور فلسطینی مسائل کو جمہوریت کے حل کو دبانے میں کامیاب رہے اور اس سلسلے میں ایف بی آئی اپنے کردار کی وضاحت نہ کرسکی۔ اور اسے امریکہ کی قومی سلامتی کے ساتھ جوڈ دیا گیا۔ امریکی "سلامتی کارکنوں" کو کھلی چحٹی دے دی گئی کہ وہ عرب سیاسی دانشوروں اور کارکناں کو اس مزاحمت اور احتجاجوں سے دور رکھے۔ اور ان پر نگرانی رکھی گئی اور بہت پریشان بھی کیا گیا۔
2003 میں، حیدر عبدل شفیع، ابراہیم ڈاک، مصطفی بارغوتی نے کہا کہ البرادارا (فلسطینی نیشنل انیشی ایٹو)، جس کے سربراہ، ڈاکٹر مصطفی بارغوتی، ایک تیسری پارٹی اصلاح پسند، جمہوری جماعت کا معمول کا متبادل بننا تھا. فلسطین کی دو پارٹی کی سیاست. سیاسی جماعت کے طور پر، الظاہر کی نظریات خاص طور پر سماجی جمہوریت فاطمہ اور اسلامی حماس (اسلامی مزاحمت تحریک) کی انتہا پسندی سیاست کے متبادل ہیں. کہا جاتا ہے کہ گروپ کے قیام کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے بارے میں ان کی بین الاقوامی سیاسی سرگرمیوں کو امریکی حکومت کی طرف سے دیکھا گیا تھا. 2006 میں، ماہر بشریات ڈیوڈ نے سیاسی دستاویزات کے 147 صفحات حاصل کیے تھےجس میں ایف بی آئی نے کہا کہ ایف بی آئی نے 1971 میں یہ آپریشن شروع کیا تھا، اس کو ان کی کتاب DAVID PRICE is author of Threatening Anthropology: McCarthyism and the FBI’s Surveillance of Activist Anthropologists (Duke, 2004). میں دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔