اقبال کے نظام فکر میں خدا، انسان اور کائنات کا ربط و تعلق ’’مذہبی واردات‘‘ کا مرہون ِ منت ہے۔ کیونکہ شاعرانہ واردات قابل ِ اعتماد نہیں اور ’’فلسفہ نام نہیں کسی مسئلے کا حل دینے کا‘‘۔ فلسفہ کا مطمع نظر جیسا کہ اقبال نے بھی بتایا فقط سوال اُٹھانا ہے۔ فلہذا یہ مذہب ہی ہے جو خدا، انسان اورکائنات کے درمیان تعلق کی قابل ِ فہم وضاحت کرتاہے اور یہ قابل ِ فہم وضاحت یہ ہے کہ مذہب کسی بھی شاہد کو حقیقت کے براہِ راست مشاہدہ کا راستہ دکھاتا اور حقیقت کے ساتھ من حیث الکل بغلگیر ہونے کا یقین دلاتاہے۔
اقبال رومی کا مرید ہے اور رومی تو کہتاہے،
ہمچنیں اقلیم تا اقلیم رفت
یہ گویا کائنات میں انسان کی مستقل موجودگی کا مفروضہ ہے جو اگرچہ عین حقیقت بھی ہے لیکن اقبال کے ہاں یہ ایک باقاعدہ پروگرام کے تحت وارد ہوتاہے۔ جیسے ڈارون کا ارتقأ قنوطی نتائج پر منتج ہوا مگر صرف مغربی مفکرین کے لیے۔ آئن سٹائن کے اکتشافات قنوطی نتائج پر منتج ہوئے تو صرف مغربی مفکرین کے لیے۔ ڈارون کے سروائیول آف دی فٹسٹ کے جنون میں ساڑھے سات کروڑ انسانوں کی جانیں نذرآتش ہوئیں اور آئن سٹائن کے’’کائنات میں کوئی شئے مطلق نہیں‘‘ نے انسان کو انفرادی سطح پر بالکل تنہا کردیا۔
لیکن اگر فکر میں ’’ہمچنیں اقلیم تا اقلیم رفت‘‘ کی تاثیر موجود ہو تو انہی نظریات یعنی ڈارون کے ارتقأ اور آئن سٹائن کے ’’کچھ مطلق نہیں‘‘ سے رجائیت پسند نتائج برآمد کیے جاسکتے ہیں۔ ’’مَیں کائنات کے ہر مرحلے میں موجود تھا، چنانچہ میں کائنات کے ہرمرحلے میں موجود رہونگا‘‘ یہ ہے رومی بایں ہمہ اقبالی نظریہ ارتقأ اور اس کا نتیجہ۔
اسی طرح ’’کچھ مطلق نہیں‘‘ تو گویا ہر ہر فرد اپنی جگہ مسلّم حقیقت اور اہمیت کا حامل ہے۔ ایک ذرّہ بھی اپنے زمان و مکاں کے اعتبار سے اتنا اہم ہے کہ اس کے جیسا کوئی دوسرا ذرہ کائنات میں وجود نہیں رکھتا۔ اقبال کے بقول،
یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کہ ذرّے ذرّے میں ہے ذوق ِ آشکارائی
اور یہی وہ اقبالی نگاہ ہے جو مطلقیت کے خاتمے میں بھی مثبت پہلو دیکھتی ہے۔ اقبال کے نزدیک انسان کا کائنات کے ساتھ بلاشبہ ایسا ہی رشتہ ہے کہ انسان اسی کون و مکاں کا حصہ ہے لیکن اس کی انسانیت کا وجود قائم رہ سکتاہے تو ان شرائط پر کہ وہ فطرت کو اپنا دشمن تصور کرتا رہے اور اس مزاحمت کے لیے ہمہ وقت اپنے اندر نت نئی توانائیوں کی تلاش جاری رکھے۔ اقبال کے نزدیک ، اور جیسا کہ شعر اقبال کے مصنف ڈاکٹر سید عابدعلی نے بھی لکھا۔۔۔۔۔۔۔ خودی کی ہر سطح اپنے ماحول سے مزاحمت کی حالت میں ہے نہ کہ مفاہمت کی۔ مفاہمت اقبال کے نزدیک خودی کی موت ہے۔ یہاں تک کہ اقبال کے نزدیک وہی انسان اکمل ہے جو صرف کائنات ہی نہیں بلکہ خدا کے سامنے ٹھہر سکنے کی اہلیت کا حامل بھی ہو۔ اسی مضمون میں اقبال خواجہ عبدالقدوس گنگوہی کا قول درج کرتے ہیں،
محمد ِ عربی برفلک الافلاک رفت و باز آمد ، واللہ اگر من رفتمے ہرگز باز نیامدے
محمد ِ عربی فلک الافلاک پر گئے اور واپس آگئے ، واللہ اگر میں گیا ہوتا تو کبھی واپس نہ آتا۔
اقبال وضاحت کرتے ہیں کہ عجمی تصوف کی رُو سے لامتناہی خودی کے سامنے متناہی خودی کا استقرار ممکن نہیں۔ قدیم ہندو وحدت الوجود سے لے کر شیخ اکبر ابن عربی کے وحدت الوجود تک کہیں بھی یہ تسلیم نہیں کیا گیا کہ انائے متناہی ، انائے لامتناہی کے مقابل دو لمحے بھی ٹھہر پائے گی۔ لیکن اقبال خودی کی زندگی کا مقصد ہی یہی استقرار بتاتے ہیں۔ اقبال کے بقول انائے متناہی اگر انسانی خودی کی صفات سے متصف ہو اور پھر وہ انسانی خودی استحکام حاصل کرچکی ہو تو متناہی انا اس طرح لامتناہی انا کے مقابل ٹھہر پائے گی جیسے دوپہر کے سورج میں چراغ کی لو زندہ رہتی ہے، حالانکہ اس کی تمام تر روشنی سورج کی روشنی میں ضم ہوچکی ہوتی ہے۔
اقبال نے اسی مضمون کی وضاحت میں ایک صوفی کا یہ شعر بھی درج کیا ہے۔
موسیٰ زہوش رفت بیک جلوۂ صفات
تو عین ذات می نگری درتبسمی
موسیٰ کے ہوش تو صفات کے ایک جلوے سے جاتے رہے تھے اور تُو(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) عین ذات کو دیکھتا رہا اور مسکراتا رہا۔
یعنی اقبال کے ہاں انسانی ذات کی اہمیت کائنات کی ہرشئے سے بڑھ کر ہے، کیونکہ یہ فقط انسانی خودی ہی ہے جو صاحب ِ لولاک ہونے کا شرف حاصل کرسکتی ہے۔ باقی تمام انائیں بے بصر ہیں۔ انسانی خودی بصیر ہے۔ باقی تمام انائیں مشیت ِ ایزدی کی پابند ہیں ، انسانی خودی کا خمیر عناصر اربعہ سے نہیں اُٹھایا گیا۔ یہ خدا ہی کی طرح ایک ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ یہ نہ کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی اس کی اولاد پیدا ہوسکتی ہے۔ خودی ایک حی و قیوم قوت ہے اور اس کی بیداری سے مراد فقط کسی انائے بے بصر (یعنی انسانی جسم ) میں اس کی موجودگی سے آگہی ہے۔ موجودگی کی خبر ملتے ہی یہ اپنا اظہار خود کرنے لگتی ہے اور جستجو (عشق) اس کے زندہ رہنے کے لیے غذا کے مصداق ہے۔ ایک بیدار خودی اپنی قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کرسکتی ہے یعنی پوری کائنات اس کے سامنے دست بستہ ہوجاتی ہے تاکہ وہ جس بھی انائے بے بصر کو چاہے اپنی تصرف میں لاسکے۔
عشق را از تیغ و خنجر باک نیست
اصل ِ عشق از آب و باد خاک نیست
غرض اقبال کے نزدیک انسان کا کائنات سے مالک و مملوک کا رشتہ ہے اور انسان جب چاہے کائنات کے سینے کو چیر کر اس سے باہر نکل سکتاہے۔ بایں ہمہ خدا کو وہی انسان پسند ہے جو ان حدود کو پامال کرے اور اس تک پہنچنے کے لیے اپنے اندر اتنی زیادہ توانائی پیدا کرلے کہ نہ صرف خود بلکہ تمام جمعیت ِ انسانی کو فطرت کے اس میدانِ کارزار سے نکال کر لے جائے۔
اقبال کے نزدیک خدا نے خود یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور خدا چاہتا ہے کہ انسان قوتِ پروردگار بن کر ظاہر ہو۔ انسان زمین پر خدا کا نائب ہے تو اس سے مراد یہی ہے کہ وہ خدا والے کام سرانجام دے۔ جیسا کہ اقبال کے ہی بقول،
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہوسکا وہ تُو کر
خدا والے کاموں میں ایک کام۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’قوت‘‘ کا اظہار بھی ہے۔ یہی وہ رجائیت ہے جو اقبال کے ارتقأ میں ہمیں ملتی ہے۔ اسی فکر کی بنا پر اقبال فرد کی ہی نہیں بلکہ قوم کی اجتماعی طاقت کو مقصد ِ معاشرت قرار دیتے اور جماعت کے ہاتھوں تسخیر کائنات کے عمل کو انسانی معاشرے کا آخری مطمع ِ نظر کہتے ہیں۔