خدارا پنجابیوں کو بخش دو
پنج آب یعنی پانچ دریاؤں کی سرزمین۔ پانچ موسموں میں سر سبز لہلہاتے کھیتوں کی جنت۔ صوفیا، شعرا اور ادبا کی دھرتی جنہوں نے ہمیشہ پیار اور محبت کا درس دیا۔ ایسی دھرتی جس نے پردیس سے آنے والے ہر تھکے ماندے کو ماں کی طرح اپنے پروں تلے پناہ دی۔
دوستو ! پنجابی نام کا نہ کوئی قبیلہ ہے اور نہ ہی یہ کوئی ذات یا قوم ہے بلکہ جس نے بھی پانچ دریاؤں کی اس گزرگاہ کو اپنا وطن بنایا وہ پنج آبی کہلایا. اب چاہے وہ عربی النسل تھا جیسے گیلانی، قریشی، ہاشمی، عباسی وغیرہ، کوئی ایرانی النسل تھا مثلاً انصاری، چشتی، گردیزی، کرمانی، شیرازی وغیرہ یا افغانی مثلاً لودھی، سوری، غوری وغیرہ یا ترکی النسل مرزا، بیگ، چغتائی، برلاس، پاشا وغیرہ یا کشمیر سے آ کر بسنے والے بٹ، میر اور ڈار، اور یا پھر ہریانہ اور مغربی ہندستان کی ریاستوں کے راجپوت اور جاٹ، آج سب کو پنجابی ہی کہا جاتا ہے اور اس ملکِ خدادا میں سب مشترکہ طور پر پنجابی کی “گالی” سہتے ہیں حالانکہ ایسے ہی قبائل کے خاندان جب نسل در نسل سندھ میں آباد ہوئے تو سندھی کہلائے، شمالی علاقہ جات میں آباد ہوئے تو پختون اور بلوچستان میں آباد ہوئے تو بلوچ کہلائے.
قوم پرست دوست اور دانشور جو ہر چھوٹے بڑے معاملے پر پنجاب کو گالی دینا عین فرض سمجھتے ہیں اور جنہوں نے ‘پنجابی اسٹیبلشمنٹ’ جیسی اصطلاح ایجاد کر رکھی ہے جسے سیاسی یا جذ باتی بنیادوں پر استعمال کرنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے، ان سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ ایک “پنجابی” وزیراعظم کے نااہل ہونے کے بعد کم از کم اس بھونڈی اصطلاح کا استعمال کرنا ترک کر دیں۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ اگر نواز شریف کی جگہ کسی اور صوبے سے تعلق رکھنے والا وزیرِ اعظم نااہل قرار پاتا تو ان نام نہاد قوم پرستوں اور دانشوروں نے اسے پنجابیوں کی سازش قرار دیتے ہوئے زمین و آسمان سر پر اٹھا لینے تھے اور ماضی کے مارشل لاؤں کی تاریخیں یاد دلا دلا کر اپنی اور دوسروں کی مت مار دینی تھی حالانکہ اگر ماضی کی جانب ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو میاں نواز شریف ہی وہ واحد وزیرِ اعظم ہیں جن کا تعلق بظاہر پنجاب سے ہے اور جنہیں نہ صرف سب سے زیادہ عسکری حکام کی مخالفت کا سامنا رہا ہے بلکہ خود شمالی و جنوبی پنجاب کے عوام بھی ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم فوج کے سربراہوں کی فہرست کو دیکھیں تو پاکستان کی تاریخ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والا واحد ضیاالحق ایک جرنیل تھا جس نے مارشل لا نافذ کیا (حالانکہ وہ بھی بھارتی پنجاب سے آیا تھا یعنی لوکل پنج آبی نہیں تھا) چنانچہ یہ ایک تاریخی ریکارڈ ہے کہ آج تک کسی پنجابی جرنیل نے مارشل لا نہیں لگایا بلکہ پاکستان کی تاریخ کا واحد سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی پنجاب سے نہیں تھا۔ دوسری مزے کی بات یہ کہ 1971 سے پہلے اور مشرقی پاکستان کے الگ ہونے تک پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ لیاقت علی خان سے لیکر مودودی و نورانی، مجیب و بھاشانی، بھٹو و جی ایم سید، ولی خان و قیوم خان، مری، بگٹی و مینگل کے پاس رہی.
اس ساری تاریخ میں ایک بھی قومی سطح کا پنجابی سیاسی لیڈر نہیں تھا جبکہ ملٹری لیڈرشپ سکندر مرزا، یحیی’ خان ، ایوب خان، موسی خان وغیرہ کے ہاتھ میں رہی۔ ان میں کو ئی بھی پنجاب سے نہیں تھا۔ اس کے بعد 1999 سے لیکر 2013 تک تو پورے وفاق میں کسی بھی طاقتور پنجابی کا نام نہیں ملتا۔ نہ صدر پنجابی تھا نہ فوجی آمر۔ لہذا سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے غیر مستحکم ملک کے کسی بھی کونے کھدرے میں پیدا شدہ ہر مسئلے کا ذمہ دار پنجاب کو کیوں ٹھہرا دیا جاتا ہے؟ ایک صوبے کے عوام اپنی پسماندگی اور جہالت کی ذمہ داری کسی دوسرے صوبے کی غریب عوام یا کسی دوسری زبان بولنے والے افراد کے سروں پر کیسے تھوپ سکتے ہیں؟ کیا ایسا کرنے سے وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکتے ہیں؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے اکثر ہماری سکیورٹی ایجنسیاں دھماکہ یا دہشت گردی کے واقعات ہونے پر اپنی نا اہلی چھپانے کی خاطر سارا مدعا صرف اور صرف بیرونی ہاتھوں پر ڈال کر بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔
ایک طرف بھرپور تاثر دیا جاتا ہے کہ بیوروکریسی کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے تابع ہے جبکہ دوسری جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گورننس کے تمام اقدامات بیوروکریسی اور حکومتِ وقت کے درمیان ایک دوسرے سے تعاون کے نتیجے میں سر انجام پاتے ہیں اور کرپٹ سیاستدان حکومت میں آنے کے بعد جو بھی کرپشن کرتے ہیں اس میں بیوروکریسی بھی برابر کی شریک ہوتی ہے۔ پھر اس سارے تناظر میں “اسٹیبلشمنٹ” (عرفِ عام میں جس ان دیکھی قوت کو اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے) ایسی کونسی جادو کی چھڑی گھماتی ہے کہ پنجاب کے عوام تو “عیش و عشرت”میں رہتے ہیں جبکہ باقی صوبوں کے عوام اس عیاشی سے محروم رہتے ہیں؟ آخر یہ اسٹیبلشمنٹ ایسی کیا بلا ہے کہ جو سسٹم کے جس ہرکارے کو جب اور جیسے چاہے پلک جھپکتے ہی اپنے دام میں کر لیتی ہے. اور باقی ساری کی ساری حکومتی مشینری اور بڑے بڑے لیڈر لاچار و بے بس ہو جاتے ہیں؟
اور یہ کیسی “پنجابی اسٹیبلشمنٹ” ہے جو زیادہ تر غیر پنجابی جرنیلوں کے ہاتھوں پتلی تماشہ بنی رہی، جو پنجابی وزیراعظم کو دوام بخشنے کی بجائے الٹا اس کی ٹانگیں کھینچتی رہی. جس نے آج تک پنجابی زبان اور پنجابیت کے لئے ایک ٹکے کا کام نہیں کیا اور نہ پنجابیوں کے حقوق کے نام پر کوئی کمپئین ہی چلائی۔
اگر اسٹیبلشمنٹ نامی یہ شے اتنی ہی کرشماتی ہے تو آج تک خود گالیاں کیوں کھاتی پھر رہی ہے، کوئی ایسی جادوئی چھڑی کیوں نہیں گھماتی جس سے اس کا اپنا وقار بحال ہو اور لعن طعن کی بجائے تحسین کے ڈونگرے برسنے لگیں۔
سادہ سی بات ہے، پاکستان کی کل آبادی میں پنجاب عوام کا حصہ 50 فیصد سے زیادہ بنتا ہے اس لیے صنعت، تجارت، زراعت، سیاست، ہنرمندی اور سرکاری ملازمت میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں ظاہر ہے کہ پنجاب کے عوام ہی زیادہ تعداد میں نظر آئیں گے حالانکہ اگر آبادی کے تناسب کے حساب سے دیکھا جاۓ تو وفاق پر پنجابیوں سے زیادہ غیر پنجابیوں کا کنٹرول زیادہ عرصہ پر محیط رہا ہے اس کے باوجود کہ پنجاب کی آبادی زیادہ ہے۔
تاریخ یہ بھی گواہی دیتی ہے کہ پنجابی زبان بولنے والے کبھی بھی دوسری زبانوں کے مخالف نہیں رہے بلکہ اردو ادب کو چار چاند لگانے میں سب سے بڑا حصہ پنجاب کے ادیبوں کا رہا ہے۔ اگرچہ اردو مٹھی بھر مہاجرین کی زبان تھی لیکن چونکہ انگریز نے صورتحال کچھ ایسی پیدا کر دی تھی کہ ہندی ہندو کے ساتھ نتھی کر دی گئی، اردو مسلمانوں کے ساتھ جبکہ پنجابی کو سکھوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ نارنجی رنگ ہندو کہلایا اور مسلمانوں نے سبز رنگ کو مشرف بہ اسلام کر لیا. لہذا اس سارے تناظر میں اردو کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی زبان قرار دے دینا کچھ ایسا انہونا فیصلہ بھی نہیں تھا مگر پاکستان بنتے ہی بنگالیوں نے شور مچا دیا کہ ملک کے 60% لوگ بنگالی بولتے ہیں لہذا اسے قومی زبان قرار دیا جائے اور اس پر بہت واویلا کیا.
اسی مثال کو لیتے ہوئے سقوط ڈھاکہ کے بعد اگر سب سے بڑی آبادی والا صوبہ پنجاب بھی زبان کو لے کر شور مچا دیتا تو کیا نرالا کام کرتا ؟ جبکہ 1947 میں پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی مارے گئے ان کی عورتوں کی ناموس تار تار کی گئی، ان کے کھیت کھلیان جل کر راکھ ہوۓ۔ 2 کروڑ کے لگ بھگ مسلمان پنجابی بے گھر ہو جانے کی وجہ سے در بدر ہو چکے تھے. آخر کس کے لئے؟
“ڈیوائڈ اینڈ رول” فارمولے کے تحت رنگ و زبان کو مذہب و سیاست میں ڈھالنے والا تو انگریز تھا مگر اس پر مہر ثبت لگانے والے ہم لوگ خود تھے. ہم نے نہ صرف اس بے ڈھنگ تقسیم کو اپنائے رکھا بلکہ مزید فروغ دیا۔ بنگالیوں کے بعد سندھی ،بلوچ اور پختون اپنی اپنی زبانوں کو اردو پر ترجیح دیتے رہے لیکن پنجاب کے عوام نے اپنی پنجابیت ، حتی کہ اپنی ماں بولی زبان کو بھی پاکستانیت پر وار دیا. اردو کو بلا تعصب گلے سے لگا لیا جو کہ عربی سے مماثلت کی وجہ سے ہر صوبے کے لوگ سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ پنجابی زبان خود پنجاب کے اندر یتیم ہوگئی۔ جہاں دوسرے صوبوں والے اردو کو پیچھے دھکیل کر اپنی زبان کو آگے رکھتے ہیں وہاں پنجاب کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دونوں رویے ہی غلط ہیں. قومی زبان کی اپنی ایک عزت اور اہمیت ہے اور مادری زبان سے پیار اپنی جگہ جائز ہے۔.
شاید دانشور بھول چکے ہیں کہ پنجابی صوفیانہ کلام کے آگے ساری دنیا کے امن و آشتی کے گرو بھی سیس نواتے ہیں۔ بابا بلھے شاہ ، سلطان باہو، وارث شاہ ، خواجہ فرید، میاں محمد بخش، بہاؤالدین زکریا کے کلام کا وارث اب کون ہے؟
پنجاب کے عوام نے پنجاب کی محبت میں کبھی پاکستان کو گالی نہیں دی۔ پنجاب کے عوام نے پنجابی کی محبت میں کبھی اردو کو سوتیلا نہیں سمجھا۔ سیاست کے میدان میں بھی پنجاب کے عوام نے پنجابی زبان یا پنجابیت کے تشخص کا نعرہ نہیں لگایا. پنجابیت کے نام پر سیاسی جماعتیں اور جتھے نہیں بنائے بلکہ سندھی وزیرِاعظم کو بھی آنکھوں پر بٹھایا اور پختون جرنیلوں کو بھی سینے سے لگایا۔
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پنجاب کے شہروں میں دوسرے صوبوں سے آ کر بسنے والوں کی تعداد ان پنجابی عوام سے کہیں زیادہ ہے جو سندھ یا دوسرے صوبوں میں رہتے ہیں۔ میرے اپنے حلقہ احباب میں پنجابی بولنے والوں سے زیادہ پختون اور اردو سپیکینگ کمیونٹی کے دوست ہیں. آپس میں بہترین بھائی چارہ اور محبت ہے لہٰذا سمجھنا چاہیے کہ اگر آمریت کے دور میں کبھی کسی آمر نے طاقت کے نشے میں تعصب کا مظاہرہ کیا بھی ہو گا تو اس میں پنجاب کے عام عوام کا کیا قصور؟ جو خود اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں.
قوم پرست جماعتوں کے علمبردار بتائیں کہ وہ کس پنجابی جنرل یا پنجابی وزیر اعظم کے دستر خوان سے دانہ چگنے میں پیچھے رہے ہیں؟ رشتے داروں کو نوازنا ہو یا من پسند وزارت لینی ہو تو سب اچھا ہے لیکن سیاست کی خاطر جب قوم پرست افراد کو بہلانا پھسلانا ہو تو پنجاب کو گالی دینا بھی ضروری ہے۔ کے پی اور سندھ ہو یا بلوچستان کے قوم پرست لیڈر، کس نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے؟
بلوچستان کے سرداروں کو گیس کی رائلٹی کی مد میں جو پیسہ ملتا رہا ہے اگر انہوں نے وہ پیسہ اپنے علاقوں کی ترقی اور عوام کی بہبود پر کبھی خرچ نہیں کیا تو اس میں پنجاب عوام کا کیا قصور؟ گیس کی مناسب ترسیل بلوچستان میں کیوں نہیں رہی؟ کیونکہ اس سے عام عوام کو بہتر روزگار مل جاتا اور ان کے عوام کی محتاجی ختم ہو جاتی پھر انہیں سردار کون مانتا؟ ورنہ حیرت ہے کہ اتنے سالوں میں کیا وہ اپنے علاقوں میں دو چار پائپ بھی نہیں ڈال سکتے تھے؟ حالانکہ اسلحہ اور بارود پوری دنیا سے خریدنے میں آزاد تھے۔
یہی وطیرہ سندھ کے وڈیروں کا رہا ہے جنہوں نے عوام کو تعلیم کی روشنی سے ہمیشہ محروم رکھا مبادا ان کی سرداری خطرے میں نہ پڑ جائے.ایک سادہ سی مثال دیتا ہوں۔ سندھ میں کوئلہ نکلا تھا جو کئی سالوں سے ایسا ہی پڑا ہے، کیوں؟ کیونکہ منصوبہ چلانے کے لیے مقامی لوگوں کو کہا گیا تھا جس سے صوبائی حکومت کو بھاری کمیشن کی امید نہیں تھی لہذا مختلف حیلوں بہانوں کے تحت منصوبوں کو تاخیر کا شکار کیا گیا. اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختون خوا میں بھی کرپشن کے قصے زبانِ زدِ عام ہیں۔
حیرت ناک چیز یہ ہے کہ بلوچ سردار، پختون خان اور سندھی وڈیرہ خود کو پنجاب کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور اور غریب ریڑھی بان سے بڑا مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ قوم پرست سیاسی جماعتیں قوم پرستی کے نام پر صرف اور صرف اپنی ذا تی سیاست چمکاتی اور اپنی تجوریاں بھرتی ہیں؟ آخر ان جماعتوں نے عام عوام کے لیے کیا کیا ہے؟ کیا پنجابی بولنے والوں کو گالی دینے سے آپ کے مسائل حل ہو جاتے ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ جو سیاست دان صرف قوم کے نام پر سیاست کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو قوم یا صوبے تک محدود کر لیتے ہیں جبکہ بحیثیت پاکستانی انہیں پورے ملک میں سیاست کرنی چاہیے۔ لیکن مسٔلہ یہ ہے کہ جب تک وہ پنجاب کو گالی نہ دیں ان کی سیاست نہیں چمکتی، یہ ایسے ہی ہے جیسے بھارت میں جب تک پاکستان کو گالی نہ دی جاۓ الیکشن میں جیتنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کے پی، سندھ اور بلوچستان کے جتنے بھی سردار، وڈیرے اور خان ہیں اگر وہ واقعی ملک اور اپنی قوم سے مخلص ہیں تو قوم پرستی کی چھاپ لگا کر خود کو صوبائی سطح تک محدود کرنے کی بجائے پنجاب سمیت ہر صوبے میں آئیں. دیگر صوبوں کے اندر اپنے روابط بڑھائیں۔ کس نے آپ کو روکا ہے؟
یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ پنجاب کے اپنے سیاست دانوں نے خود بھی پنجاب کے لیے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اگر صحیح اعدادو شمار کے تحت پڑتال کی جاۓ تو معلوم ہو گا کہ پنجاب میں آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے بھوک، غربت، اور بے روزگاری کا تناسب دوسروں صوبوں سے کہیں زیادہ ہے۔
لہذا ہر دو کو اپنی خامیاں اور دوسرے کی خوبیاں یاد رکھ کر مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔ قوم پرستی کی سیاست چھوڑ کر روشن ضمیر اور ہم خیال زمین زادوں کو ایک ہو کر چلنا ہوگا کیونکہ محض قوم پرستی کی بنیاد پر آپ کبھی بھی اپنے بچوں کو محفوظ مستقبل نہیں دے سکتے. یاد رکھیں تعصب ایک ایسا بدمست گھوڑا ہے جو اپنے ہی سوار کو روند ڈالتا ہے۔
اپنے علاقے یا صوبے سے محبت ضرور رکھیں لیکن اس کے لیے پاکستان کو گالی دینا ضروری نہیں. اپنی علاقائی زبانوں کو بھی زندہ رکھیں مگر کسی دوسرے کی زبان کی بے عزتی کرنا ضروری نہیں، اور اگر پھر بھی آپ کو بڑے زور کا تعصب آیا ہو تو بھارت سے جیتا ہوا فائنل میچ دیکھ لیا کریں جب پورا پاکستان اپنی اپنی قومیت کو بھلا کر ایک ساتھ خوشیاں منا رہا تھا اور صرف اور صرف پاکستانی تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“