ظفرعمران کا سحر انگیزترجمہ
خدا مر چکا ہے!
(قند مکرر)
فریدرش نیتشے
زردشت گیان لے کر پہاڑ سے اُترا، بستی کے راستے میں اسے اپنے سوا کوئی ذی روح نہ دکھائی دی، لیکن جب وہ جنگل میں پہنچا تو ایک خضر صورت سے ملاقات ہو گئی، جو جڑی بوٹیاں تلاش کرتے اس کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ ”اے راہ رو تو اجنبی تو نہیں ہے، کہ کئی سال پہلے یہاں سے گزرا تھا؛ تیرا نام زردشت ہے، پر اب بالکل بدل گیا ہے۔ اُس وقت تو اپنا خاکستر پہاڑ پر لے گیا تھا، کیا آج اپنی آتش وادی میں لے جانے کا آرزو مند ہے؟ کیا تو آگ لگانے والے کے انجام سے خوف زدہ نہیں؟ ہاں! میں زردشت کو پہچان گیا ہوں۔ اب تیری آنکھیں شفاف ہیں اور صورت پر نفرت کے آثار نہیں۔ کیا یہی وجہ ہے کہ تیری چال میں لچک ہے؟ یہ زردشت وہ نہیں ہے جو تھا، زردشت کم سن ہوگیا ہے، جاگ اٹھا ہے گیان لے کر آیا ہے، لیکن بتا تو سہی اُن نیند کے مارے دُنیا داروں سے تجھے کیا مطلب؟ وہاں کنج تنہائی میں گویا تو سمندر پر تیرتا تھا، تیرا بوجھ پانیوں پر تھا۔ وائے حیف کہ تو خشکی پر اُترنا چاہتا ہے، ہائے افسوس کہ تو ایک بار پھر اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتا ہے!“
زردشت نے اعتراف کیا، ”مجھے بنی نوع انسان سے محبت ہے۔“
بزرگ نے استفسار کیا، ”تو جانتا ہے میں ان ویرانوں میں ان جنگلوں میں کیوں آیا؟ کیا ایسا نہ تھا کہ مجھے بنی نوع انسان سے بے پناہ محبت تھی؟ لیکن اب میں خدا سے محبت کرتا ہوں، آدم سے نہیں۔ انسان نا مکمل ہے۔ اس کی محبت ہلاکت میں ڈالے گی۔“
زردشت نے جواب دیا، ”محبت کا ذکر چھوڑئیے، میں نوع انسانی کے لیے اک تحفہ لایا ہوں۔“
بزرگ نے کہا، ”انھیں ہرگز ہرگز کچھ مت دینا؛ اس سے کہیں بہتر ہے، ان کا بوجھ بٹالے، انھیں ہم راہ لیے چل؛ اس میں اُن کی راحت ہے، کاش تو بھی اسی میں راحت پائے۔ پھر بھی تو کچھ دینے ہی پر مصر ہے تو انھیں بھیک دے، لیکن جب تک وہ بھیک مانگیں نہیں، مت دے۔“
”قطعی نہیں؛“ زردشت نے انکار کیا، ”میں بھیک نہیں دیتا، کیوں کہ میں مفلس نہیں ہوں۔“
وہ زردشت پر ہنسنے لگا، ”ٹھیک ہے تو اس بات کا دھیان رہے، کہ وہ تیرا بیش قیمتی عطیہ ٹھکرا نہ دیں۔ دنیا دار گوشہ نشینوں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انھیں یقین نہیں ہوتا کہ ہم جیسے کچھ دینے کے لیے آتے ہیں۔ جب ہم ان گلیوں سے گزرتے ہیں, ہماری چاپ کی صدا اُنھیں کھوکھلی معلوم ہوتی ہے، بستروں میں پڑے پڑے جب وہ ہماری آہٹ پاتے ہیں تو چور سمجھ کر چونک اُٹھتے ہیں، کہ کدھر کو جاتا ہے۔ بنی آدم کے پاس مت جا، یہیں اس بن میں بس جا؛ انسان کی صحبت سے افضل جان وروں کی صحبت ہے۔ سن اے زردشت! میری مثل ہوجا، کہ ریچھوں میں ریچھ ہوں، چڑیوں سنگ چڑیا۔“
زردشت نے پوچھا، ”آپ یہاں جنگل میں کیا کرتے ہیں؟“
اُس نے جواب دیا، “میں گیت بناتا ہوں، گیت گاتا ہوں۔ جب گیت بنا چکوں تو ہنستا ہوں اور روتا ہوں اور بڑبڑاتا ہوں۔ گا کر رو کر ہنس کر اور بڑبڑا کے میں اُس مالک کی حمد بیان کرتا ہوں، جو میرا رب ہے۔“ پھر زردشت سے سوال کیا، ”بول کیا تحفہ لایا ہے، میرے اور خدا کے لیے؟“
زردشت نے ادب سے سلام کیا اور یوں مخاطب ہوا، ”میں تہی داماں آپ کو کیا دوں، بس مجھے اجازت دیں کہ کہیں آپ کے سامان سے کچھ لے نہ اڑوں۔“
یوں ہنستے بولتے وہ بزرگ اور یہ گیانی ایک دوسرے سے جدا ہوئے، ایسے بے فکرے جیسے کہ لڑک پن میں ہوں۔
جب زردشت تن تنہا ہوا، تو اپنا دل مسوس کر رہ گیا، ”ایسا کیوں کر ممکن ہے، کہ جنگل کے اس برگزیدہ باسی نے ابھی تک یہ نہیں سنا، کہ خدا مر چکا ہے۔“
From
THUS SPAKE ZARATHRUSHTRA
By
Friedrich Nietche
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔