آج کا دن
مزنگ کے اک جیالے
اور ایک دلکش مسکراہٹ کےنام
___
کاکول کے جہانِ تگ ودو کے ماتھے کا جھومر فرمانِ ربّی ہے’انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی‘
اس جاں گسل ’کوشش‘ سے اکیلے بندے کا گزر نہیں
ایسے میں آپ چوبیس پچیس درویشوں کی اس ٹولی کو شدت سے تھام لیتے ہیں جسے فوجی اصطلاح میں پلاٹون کہتے ہیں ہماری پلاٹون کو باندھ لینے والی کنجی اظہرتھا
مزنگ کا رہنے والا یارباش کشادہ دل لاہوریا جس کے چہرے پر ایک شتونگڑی شگفتہ مسکراہٹ کھِلی رہتی تھی جسے دیکھ کر ہم سب جی اٹھتے تھے
کتنے ہی صبرآزما لمحوں اورآزمائشوں میں سےہم اظہرکے شگوفوں اورچٹکلوں کےصدقے ہنستے کھیلتے گزر گئے شیروان کے کوہ گراں سے پارمنگل نالے کی جان سے گزرجانے والی مشقت ہو یا سری کوٹ کی گھاٹیوں میں جسم وذہن کو جھنجھوڑتے بے خود ہوتے شب وروز تربیلا کے متروک ریلوےٹریک کے پشتوں پرٹمٹماتےتاروں کی شست باندھے لامتناہی راہوں کے کھوجی ہوں یا غازی کی گھاٹیوں میں نعرۂ تکبیر کی دلخراش صداؤں میں ہلّہ بولتے جانباز دن بھر کی ٹوٹتی تھکن اورلاچارکردینے والی مشقت کی باقیات سمیٹے جب ہم تاروں بھری چھت کے نیچے لیٹتے تو ہزارہ کے پربتوں کی بازگشت میں مزنگ کی ایک رس بھری کوک گونجا کرتی
دوپترشہتوتاں دے
بھاٹی دیاں تنگ گلیاں
موہڈےوّجن معشوقاں دے
اور ہم سوچتے اگر اظہرنہ ہوتا تو اکیڈیمی میں ہمارا کیا حشرہوتا!
پاسنگ آؤٹ کی سرخ سیڑھیاں چڑھتی اس ماتمی دھن میں کہ
اتنے دن ساتھ تھے
آج رخصت ہوئے
دوستو بہ امانِ خدا
ہم نے سب کے ساتھ اظہر کو بھی خداکی امان میں دیاتھا، مگراس نے اپنے سادہ دل ہیرے بندے کو ایک اور سعادت کے لیے چن لیا تھا اظہروزیرستان میں لڑتے ہوئے شہید ہوگیا، یہ خبر کاکول میں سنی جب میں وہاں پلاٹون کمانڈر تھا
میں لاہوراس کےجنازےمیں شریک نہ ہوسکا اور رفتہ رفتہ اسکی یاد دعا کےلیےاٹھے ہاتھوں تک محدود ہوکے رہ گئی
بہت بعد ایک course get togetherمیں معلوم ہوا کہ ہم نے اپنا لعل میانی صاحب کی مٹی میں گنوا دیا فوج سے ریٹائرمنٹ لے لینے کے بعد میں اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی کی ملازمت میں تھاجب ایک رات اظہرخواب میں آیا
وہ شکوہ کناں تھاکہ تم جو میانی صاحب کی خاک چھانتے رہے ہو مجھ سے ملنے ایک دفعہ بھی نہیں آئے!
بات کچھ دل میں کھب سی گئی اپنے بہت پیارے دوست سجاد حیدر کو ساتھ لیا اور ہفتے کی شام لاہورکی راہ لی
آدھی رات ادھرآدھی ادھرکورٹروپس میس کےایک بی او کیو کا تالہ کھلواکررات گزاری کا حیلہ کیا اور صبح ہی صبح میانی صاحب کی راہ لی
نیت سچی اورجذبہ صادق تھا،لگ بھگ ڈیڑھ دوگھنٹےکی تلاش بسیارہمیں اظہرکےوالد صاحب سےملا گئی جواں مرگ بیٹے کا دکھ سینے میں دبائے اس بوڑھے باپ نے خندہ پیشانی سے ہمارااستقبال کیا
میانی صاحب کی جنازہ گاہ سے تھوڑاہٹ کر ایک گوشے میں اظہرسورہا ہے ، وہ زندہ ہے مگر ہمیں اس کا شعورنہیں
کچھ دیر اظہرکے ساتھ اکیلے وقت گزارا، کچھ دعا درود کچھ پرانی باتیں اور پھر اٹھ آیا واپسی میں اظہرکے چھوٹے بھائی سے ملاقات ہوگئی ۔ وہ ہاتھ ملاتے ہوئے مسکرایا تواس مسکراہٹ میں ہو بہو اظہرکی جھلک تھی
میں ایک لمحے کو ٹھٹھکا
یکبارگی خیال آیا اظہراب ہم میں نہیں ہے، خدا معلوم ہم پلاٹون میٹس کا کیا حشر ہو
“