موجودہ صورتحال کے مطابق لاکھوں افراد خوف کا شکار ہیں۔ وجہ موت سے خوف وہ بھی بدترین موت جو عزاب الہی یا قحط کی وجہ سے آتی ہے۔ ماضی میں تاریخ گواہ ہے کہ قحط نہیں آیا تھا بلکہ انسانی نظام کے غلط فیصلوں کی وجہ سے لاکھوں انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔
1943-1944 ء کے بنگال کے قحط کی وجہ خراب فصل نہیں تھی۔ انگریز سارا غلہ دوسرے ممالک میں اپنی بر سر پیکار فوجوں کو بھیج رہے تھے جس کی وجہ سے غلے کی قلت ہو گئی تھی۔ انگریزوں کو یہ خطرہ بھی تھا کہ جاپانی برما کی طرف سے ہندوستان میں نہ داخل ہو جائیں اس لیے انہوں نے بنگال کا سارا اناج برآمد کر دیا کہ جاپانی فوج کو غلہ نہ مل سکے۔ اس قحط میں 30 لاکھ لوگ مر گئے۔
1845 میں آئرلینڈ میں شدید قحط آیا جس سے 1,029,000 لوگ مر گئے۔ تاریخ میں وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ آلو کی فصل ناکام ہونے کی وجہ سے یہ قحط آیا تھا جبکہ اسی سال آئرلینڈ سے اتنا غلہ ایکسپورٹ ہوا جو بھوک سے مرنے والوں کی چار سال تک غذائی ضرورت پوری کر سکتا تھا۔
اللہ اور اس کے آخری رسولﷺ نے زندگی کے ہر شعبے میں عدل کرنے کا حکم فرمایا۔ عدل کا مطلب اپنی ذات اور دوسروں کی ذات سے بھی انصاف کرنا۔
گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اور سوچا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہر فعل کے ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ یعنی ہمارا ایک فیصلہ ہماری ذات کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔
حضورﷺ نے مثبت سوچنے اور ہر کام کو مثبت زاویہ میں سرانجام دینے پر زور دیا۔
صحابہ کرامؓ انکی تعلیمات پر عمل کرکے انسانیت کے لیے باعث سکون ثابت ہوئے۔ ان کے کردار اور فعل سے کسی انسان کو تکلیف نہیں پہنچی۔
اب ماضی کے یا موجودہ حکمرانوں پر الزام تراشی سے بہتر ہے ہم خود کو سنوار لیں۔
اپنے ذہنوں کو اتنا پاک کر لیں کہ روح کو روحانی فضا نصیب ہو یعنی اللہ کا قرب اور رسول اللہﷺ کا پیار دل میں پیدا ہوجائے۔ اس سے "کرونا وائرس" کے ساتھ ساتھ ہم کئی زمین آفات کو شکست دے سکتے ہیں۔ اپنے ہر فیصلے کہ وقت نظرثانی کریں کہ مستقبل میں اسکا دوسرے انسانوں کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا۔ اس طرح آپ سمجھ سکتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں یعنی 20 برس کے دوران ہماری پاک زمین پاکستان کئی آزمائشوں کا سامنا کر چکی ہے۔ خاص کر 2005ء کا زلزلہ، دہشتگروں کی کاروائیاں، سیلاب اور سال 2019 کے آخر میں گندم کا بحران۔
اکثر ان سب کا ذمہ دار حکومت وقت یا ماضی کی حکومتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ ہم عوام ناسمجھ ہیں یا ہم جمہوری ملک میں نہیں رہتے؟
درج ذیل آیات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ظَهر الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَهم بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهم یَرْجِعُوْنَ“․(الروم:۴۱)
ترجمہ: ”خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے؛تاکہ وہ باز آجائیں“۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے : ”وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ“․ (الشوریٰ:۳۰)
ترجمہ:”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے“۔
اللہ کا فرمان برحق ہے۔ یعنی ہمیں ہی اپنے کردار کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں کثیر لوگوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ ہم دوسروں میں غلطیاں اور خامیاں تلاش کرتے ہیں۔ یہی خامیاں ہم حکمرانوں میں بھی تلاش کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان میں خامیاں نہیں ہیں مگر میرا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ کی طرف رخ کر لیں۔ صرف اسی ذات سے توقع رکھنا شروع کر دیں۔ پھر کسی قسم کی وبا اور بحران کا خوف ہمارے دلوں میں نہیں ہوگا۔ کیونکہ ہمارے دل اللہ اور نبی پاکﷺ کی محبت سے روشن ہونگے۔ پھر نہ کوئی عزاب الہی آئےگا اور نہ کوئی قحط۔