4——–خدا کی دین کا موسےٰ سے پوچھےؑ احوال
———————————————–
لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی وسعت اور شان و شوکت کو دیکھ کر اب مجھے دہلی کا اسٹیشن بہت چھوٹا اور حقیر لگتا تھا جو کبھی میرے لےؑ انسانوں اور ہر رنگ کی ٹرینوں کا وہ پر شور شہر طلسمات تھا جس کو میں پورا دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ اب لاہور میرے خیال و نظر کی رسایؑ تک لاہور تھا۔یہاں یہ بتادوں کہ انڈیا میں اس وقت بھی ریلوے سرکار کے زیر انتظام تھی لیکن پورے انڈیا میں ایک مرکزی سروس نہیں تھی۔لاہور کیطرف نارتھ ویسٹرن ریلوے آتی تھی۔ مختصرا" این ڈبلو آر۔ یہ ہی بعد میں پی ڈبلو آر بنی اور اب پی آر ہے اس وقت وہ ایک نمبر پلٹ فارم تھا جس پر ہزاروں انسان ڈیرہ ڈالے پڑے تھے جیسے اب اور کہیں نہیں جانا، بس یہ اپنا گھر ہے۔جو بات میں بھولنا چاہوں تو بھی نہیں بھلا سکتا وہ میزبانوں کا مدد اور ہمدردی کا بے پناہ جذبہ تھا۔ دوسرے تیسرے دن ایک نوجوان لڑکا ور ایک لڑکی گرم ناشتہ اور چاےؑ لے کر پہنچےنام کیااب تو یاد میں ان کی صورت کا دھندلا سا نقش بھی نہیں۔ کویؑ دبلی پتلی سی ہنس مکھ لڑکی تھی اور متین صورت جھینپو سا نوجوان تھاوہ یوں اپناییؑت اور عزت سے ملے جیسے پرانے شناسا ہیں۔ انکل انٹی کہنے کا دستور نہ تھا۔ اماں ابا کو خالہ اور خالو کہنے لگے وہ غالبا" گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وہ ہمارے میزبان ہیں ہمارےعلاوہ انہوں نے کتنوں کی ذمے داری اٹھا رکھی تھی یہ نہیں معلوم لیکن وہ وقت پر ناشتا۔ پھر دوپہر کا کھانا اور پھر رات کا کھانا لاتے رہے ہمیشہ گرم اور تازہ جو ضرور ان کے گھر کا ہوگا۔ انہوں نے کپڑے اور نقد رقم بھی پیش کی تھی لیکن ابانے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔۔تقریبا" پندہ دن یہ معمول جاری رہا۔ پھر ایک دن انہوں نے کہا کہ چلےؑ آپ کی رہایش کا بندوبست ہوگیا ہے۔ہمارا سباب ایک تانگے پر لادا گیا،وہ لڑکا اور لڑکی ساییؑکلوں پر ساتھ چلے۔۔ جی حیرانی کیسی۔۔ اس وقت بلکہ ضیا کے دور تک لیڈیزساییؑکلیں عام استعمال ہوتی تھیں جو پاکستان کی سہراب کمپنی بناتی تھی۔ 70 سال پرانی دقیانوسی دنیا میں ایک ایسافراخدلی کا ماحول تھا جس میں نہ اخلاقیات مسلط کرنےوالے تھے اور نہ مذہب کی خود ساختہ صورت کوجبر و تشدد سے "راہ راست" بناکے بزور بازو نافذ کرنے والے۔۔ لاہور کے پرانے باسی اس وقت کو بھولے نہیں ہیں جب صبح اسکول کالج اور یونیورسٹی کی لڑکیاں رنگین آنچل لہراتی سڑک کے کنارے کنارے چلتی جاتی تھیں۔۔ رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام تھا کیونکہ اس وقت یونیفارم نہیں تھی اور فلم نگری لاہور سے فیشن شروع ہوتے تھے۔ ماں باپ کو اطمینان حاصل تھا کہ بیٹیاں سڑک پر محفوظ ہیں ورنہ وہ ان کوا یسے پھرنے کی آزادی دیتے
راہوار تخیل کو پھرلگام دے کر وقت کی قید میں لاتا ہوں۔۔ ہمارے قیام کابندوبست گڑھی شاہو کی میں روڈ پر ایک تنگ گلی کے آخری گھر میں کیا گیا تھا۔ گلی آگے سے بند تھی اور اس کی نچلی منزل پر ہمیں ملنے والا خاصا کشادہ کمرہ قدرے تاریک تھا۔بعد میں اس گلی کا سراغ لگانے کی میں نے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ایک اندازہ تھا کہ وہ کہاں تھی لیکن ظاہر ہے وہ غلط تھا ورنہ گلی تو آج بھی بند ہی ہوگی اور ننیؑ تعمیر کے باوجود داییںؑ ہاتھ کا اخری گھر آخری ہی ہوگا۔ اللہ اس فراخدل شخص پر رحمت کے سب در کھلے رکھے جس نے دوسرے ملک سے آنے والے بے گھراجنبی خاندان کو اپنے گھر میں جگہ دی۔ محلے کے عام لوگوں کا رویہ بھی انتہایؑ ہمدردانہ اور ہر قسم کے تعصب سے پاک تھا۔وہ ہمارے لےؑ اتنا سامان خور دو نوش اور کپڑے آتے تھے کہ ہم قبول نہیں کر سکتے تھے۔ میٰں اور چھوٹا بھایؑ مختصر گلی عبور کرکے سڑک پر آجاتے تھے اور"بے پناہ" ٹریفک کودیکھتے رہتے تھے ھالانکہ اس زمانے میں نہ گاڑیاں تھیں نہ موٹر ساییؑکلیں۔ جس چیز نے ہمیں دم بخود کر دیا وہ ڈھایؑ انے پاو کے انگور تھے۔ اس وقت بکری کا گوشت بھی اسی بھاو ملتا تھا۔ سمجھ لیں 15 پیسے پاو ۔۔جب کویؑ بیمار ہوتا تھا تو دہلی سے انگور 4 روپے پاو لاےؑ جاتے تھے اور مریض کو دانے گن کر دےؑ جاتے تھے۔۔ میں اور بھایؑ توخوشی سے نہال ہوگےؑ۔ ہر وقت انگور کھاتے نظر آتے تھے
ایک اور بات کی یاد بہت واضح ہے۔۔ ایک دن اعلان ہونے لگا کہ "چلو چلو اسٹیشن چلو" وہان سے سکھوں کی اسپیشل مہاجر ٹرین جانے والی تھی۔ ان کو جہنم رسید کرکے ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے قتل کا حساب برابر کرنا ہے۔ہم ایک دکان کے تھڑے پر کھڑے جلوس بنتا دیکھتے رہے جو نعرے لگا رہا تھا اور سڑک پر ہزاروں نہ سہی سینکڑوں لوگ ضرور تھے۔ جلوس چلا گیا اور پتا نہیں اسٹیشن پر کیا ہوا۔ انہوں نے وہاں قتل عام کیا یا آگے کہیں۔۔ لیکن شاید چار لوگ مارے گےؑ۔ ان شہیدوں کی میت بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ لایؑ گیؑ اور وہیں گڑھی شاہو کی میو روڈ۔۔اب علامہ اقبال روڈ پر ان کی نماز جنازہ ہویؑ جس میں پوری سڑک پر خلقت تھی
ابا کی انڈیا سے سروس کی تصدیق نہیں ہورہی تھی۔ وہ روز دفتر جاکے کینٹ اسٹیشن کے سامنےحاضری لگاتے اور مایوس لوٹ آتے۔ ہمارا نقد اثاثہ احتیاط کے باوجود کم ہوتا جارہا تھا۔ تقریبا" تین ماہ اسی طرح گزرے۔آخری دن ہمارےپاس 5 آنے رہ گےؑ تھے۔اسی دن "لاسٹ پے سرٹیفکٹ" آگیا جو تصدیق کرتا تھا کہ سرکاری ملازم کہاں تھا کس عہدے پر تھا ور اس کوآخری تنخواۃ کب اور کیا دی گیؑ تھی۔ اب اس دور میں تعاون اور ایمانداری کا جزبہ دیکھےؑ کہ ابا کو تیں ماہ کی تنخواہ کی اداییؑگی اسی دن کردی گیؑ۔ یہ بل بنانے سے پاس کرنے اور چیک ملنے تک کا وہ عمل تھا جو اب مہینوں پورا نہیں ہوتا ۔ ریٹایؑر ہونے والے بوڑھے بھی ملنے والی پنشن کی رقم کا ایک حصہ نذرانہ پیشگی نہ دیں تو دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ میری ایک بچپن کےدوست بڑے اچھے عہدے پر تھے۔ ریٹایڑ ہوےؑ تو کاروبار کرلیا۔ ان سے زیادہ انکم ٹیکس کاٹ لیا گیا،اس کی واپسی کے لےؑ کویؑ سفارش کام آیؑ نہ ہایؑ کورٹ کے آرڈر۔۔ سیدھا سودا یہ تھا کہ آدھے دے دو آدھے لے لو۔فوجی آدمی مانا نہیں اور پورا نقصان اٹھایا
آمدم بر سر مطلب۔۔ہم اس دن دولت مند ہوگےؑ۔ ابا نے واپس آکے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا کہ اب ہم ضرورت مند نہیں رہے۔وہ دس روپے مہینہ پر پرانی انار کلی میں ایک کراےؑ کا مکان دیکھ آےؑ تھے، ہم اسی دن وہاں منتقل ہوےؑ۔ ابا نے دفتر آنے جانے کیلےؑ فلپس کی سایکل 120 روپے میں خریدی جو انگلینڈ کی بنی ہویؑ تھی۔۔ہرکولیس اس سےاچھی اور 150 کی تھی اور 'ریلے'کی شان تھی مرسیڈیز کی طرح جو 200 میں ملتی تھی۔ اس گھر میں شاید ہم 3 یا 4 ماہ رہے اس دوران ہی لوگوں نے کہا کہ آپ مہاجر ہیں تو کلیم داخل کریں۔ ابا کے پاس نہ کاغذات نہ ملکیت کا کویؑ ثبوت۔۔ ہمدردوں نے اکسایا کہ ہمت کریں تو سب ہو جاےؑ گا۔ دستاویزات بنانے والے سارے کام کر دیتے ہیں لیکن ابا ڈرتے تھے کہ پاکستان میں کویؑ آگے نہ پیچھے۔ میں پکڑا گیا تو فیملی کا کیا بنے گا۔ پاکستان میں لوٹ مار۔ رشوت اور کرپشن کا آغاز ہی مہاجروں کی آباد کاری والے محکمے سے ہوا۔
اب اس مرحلے پرآگے بڑھنے سے پہہلے میں تھوڑا سا لاہورکے پس منظر کے بارے میں بتادوں جو اس وقت مجھے بھی معلوم نہیں تھا۔وقت کے ساتھ سب پتا چلا ۔ لاہور تقسیم کے وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم شہر تھا۔انڈیا میں تین فلم سنٹر تھے بمبیؑ مدراس اور کلکتہ۔۔۔پاکستان میں صرف لاہور تھا ۔ یہ سٹی اف کالجز بھی کہلاتا تھا اور سٹی اف گارڈن بھی ۔ پاکستان کا پہلا ریڈیو اسٹیشن یہاں 1937 میں بنا جہاں سے دس سال بعد 14 اگست 1947 کو شکیل احمد نے رات بارہ بجے پہلی بار کہا" یہ ریڈیو پاکستان ہے؟ اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ یہ آل انڈیا ریڈیو لاہور ہے یہ شملہ پہاڑی کے پیچھے ایک پرانی کوٹھی میں تھا جو غالبا" خضر حیات خان کی تھی۔اردواخبارات کے علاوہ لاہور سے عورتوں بچوں کے متعدد رسالے شایعؑ ہوتے تھے۔ جچنانچہ رفتہ رفتہ اس نے فلم اور فیشن کے ساتھ۔ ادبی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل کر لی تھی ۔ علامہ اقبال کا گھر گڑھی شاہو میں بوہڑھ والا چوک کے پاس یا میو روڈ پر تھا جو اب علامہ اقبال روڈ کہلاتی ہے وہ خستہ حال پیلی کوٹھی اب ویران نظر آنے والا اقبال میوزیم ہے جہاں میں نے کسی کو جاتا نہیں دیکھا۔ اب وہ زمانہ دیدہ ہر طرف پھیلا برگد کا بوڑھا درخت بھی نہیں ہے جس کا سایہ چوک پر تھا شاید کافی لوگ نہ جانتے ہوں کہ کرشن چندراجیسے ادیب۔خشونت سنگھ۔ دیوآنند ۔ بلراج ساہنی اور کامنی کوشل جیسے نامور اداکار گورنمنٹ کالج سے ایم اے/بی اے کرکے گےؑ تھے ،لاہور کی خوشحالی میں بڑا حصہ سکھوں کا بھی تھا۔ ان تمام وجوہ کی بنا پر اس بات کی اہمیت بہت تھی کہ لاہور بھارت میں شامل ہوتا ہے یا پاکستان میں۔۔ ہر سکھ کرپان لےؑ شیر بنا پھرتا تھا کہ فیصلہ بھارت کے حق میں ہی ہوگا ( سنگھ کا مطلب شیر ہی ہوتا ہے)۔ اچانک پانسہ پلٹ گیا۔ مسلمانوں نے سارےھساب برابر کردیے۔ سکھونںکے خوشحال محلے مثلا" شاہ عالمی گیٹ نذر اتش کر دےؑ گےؑ۔ جو جان بچاکے بھاگ سکے نکل گےؑ۔۔ یہاںمیں ایک بات کہہ دوں جو شاید بے محل لگے لیکن اس کا ذکر ضروری ہے۔ دیال سنگھ کالج روایت کے مطابق امرتسر کے ایک سکھ نے بنایا تھا جو اپنا سب کچھ اس کارخیرکیلےؑ بیچ آیا تھا، کالج کے ساتھ اس نے ہر کلاس کے طلبا کیلےؑ نصابی کتابوں کی لاییؑبریری بنایؑ تھی جہاں سے ہر ضرورت مند کو فری کتب دستیاب تھیں۔ ہواےؑ بغض و عداوت چلی تو لاییؑبریری بھی جلا دی گیؑ۔ پھر کسی کو یہاں ایسی لاییؑبریری بنانے کی توفیق نہ ہویؑ
لوٹ کر اصل موضوع پر آتا ہوں۔۔۔نہ جانے کس نے ابا کو مجبور کیا کہ وہ بحالیات والوں کے چکر مین پڑ گےؑ بھاگ جانے والون کی متروکہ جایؑداد میں تالے پڑے تھے لوگ بحالیات والوں کی جیب گرم کرتے تھے اور کسی دکان مکان کا الا ٹمنؐنٹ آرڈر حاصل کر لیتے تھے۔ایک شخص سے میں بعد میں ملا۔ اس نے کبھی ریڈیو نہیں دیکھا تھا۔ اسے ہال روڈ کی ایک دکان مل گیؑ جو آج لاہورکی الیکٹرانکس کی ہول سیل مارکٹ ہے کا۔ تالا توڑا تو اندر ریڈیو بھرے ہوےؑ تھے۔ اس نے یہ کاروبار شروع کیا اور اس کام میں مہارت بھی حاصل کرلی۔ظاہر ہے وہ کڑوڑ پتی مرا۔۔ ابا خالی ہاتھ بحالیات کے افسروں کے پیچھے پھرتے تھے اور اپنی رام کہانی سناتے تھے ۔۔۔ " میں شمیم نعمانی ہوں ۔ شاعر ہوں۔ گھر لتا کے آیا ہوں۔پاکستان میں کویؑ نہیں" اس دکھ بھری فریاد کو کانوں تک پہنچنے اور دل پر اثر کرنے کیےلےؑ مال یا سفارش کی ضرورت تھی۔ اس کے بغیر کون سنتا ہے فغان درویش۔اتفاق ایسا ہوا کہ ابا ایک ہی کے پیچھے پھرتے رہے۔اس نے جب دیکھا ابا موجور اور وہی ریکارڈ ۔۔۔۔۔کہ شاعر ہوں بے نوا ہوں بے آسرا پڑا ہوں۔۔۔۔ اس نے دیکھا کہ یہ شاعر کمال ڈھیٹ ہے ۔ ایک دن ہاتھ جوڑ دےؑ کہ" میرے باپ کیا چاہےؑ لے لو مگر میری جان بخش دو۔۔ بتاو یہ الاٹ کردوں؟" وہ پرانےشاہ عالم مارکیٹ کے نصف جلے ہوےؑ کھنڈر علاقے میں پھر رہا تھا۔ اس کا اشارہ ایک چار منزلہ عمارت کی طرف دیکھا تو ابا نے اقرار میں سر ہلادیا اور اس نے الاٹمنٹ آرڈر سایؑن کرکے ہاتھ میں تھمایا اور بھاگ گیا۔اب جناب بابوجی کی خوشی کا تو ٹھکانا نہیں رہا۔۔۔۔خدا کی دین کا موسےٰ سے پوچھےؑ احوال۔۔ کہ آگ لینے کو جاییؑں پیمبری مل جاےؑ۔کویؑ چھوٹا موٹا سر چھپانے کا آسرا چاہا تھا۔ محلوں کا خواب دیکھنے والی آنکھیں کہاں سے لاتے۔ دس روپے مہینہ کرایہ بچانے سے زیادہ فکر تھی کہ میں نہ رہوں تو بچے بے گھر تو نہ ہوں۔اچانک مل گیا خوابوں کا محل۔۔ افتاں و خیزاں گھر پہنچے اور چلا کے کہا "خانم۔۔ مبارک ہو۔۔ گھر مل گیا۔۔چارمنزلہ۔۔ لو مٹھایؑ کھاو"
اب خانم ہونق کھڑی منہ تک رہی ہیں کہ کیا بول رہے ہیں" چار منزلہ؟ کیا کریں گےہم چار آدمی چار منزلوں کا؟ اس کےتو کراےؑ میں تمہاری تنخواہ بھی نا کافی ہوگی۔۔"
ابا نے خوش خوش ہنستے ہنستے کہا" کرایہ ؟ ارے بھیؑی ہم سے کون کرایہ لےگااب اندر سے تو میں نے بھی نہیں دیکھا کیسا ہے کتنا بڑا ہے مگر ہم مالک ہی۔۔پہلے کسی سکھ کا ہوگا جلنے سے بچ گیا ۔ باہر سے پوری حویلی ہےنؑیے وضع کی۔ہر منزل پر چار کمرے تو ہوں گے۔ہم اوپر کی منزل پر رہیں گے ۔ ہوادار ہوتی ہے۔۔نیچے کا کرایہ آےؑ گا اضافی آمدنی۔۔ دیکھ لو ہجرت کی برکت۔۔ پاکستان نے وہ دے دیا جو باپ دادا نے اڑادیا تھا ۔۔۔۔ہم پھر حویلی کے مالک ہیں"
وہ نہ جانے کب تک بولتے رہتے ۔ہم دس سال اور سات سال کے دو بھایؑ کیا سمجھتے ۔ چپکےبیٹھے لڈو کھاتے رہے ۔ نہ جانے کتنے عرصے بعد ہم نے والدین کو اتنا خوش دیکھا تھا۔بس اس کے بعد گویا شاعر نے پھر باندھا رخت سفر۔۔ مالک مکان کی مبارکباد لے کر اس سے گلے ملے کہ۔۔ پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔۔بستر لپیٹا۔بوری میں گنتی کے چند برتن بھرے ٹین کا کپڑوں والا بکس اٹھایا اور تانگہ چلا پرانی انار کلی سے اندرون شاہ عالمی گیٹ۔ لٹھے کےشٹل کاک برقعے میں اماں پیچھے دھری۔ میں اور بھایؑ آگے ۔ ابا پیچھے موج میں سایکل پر کرتب دکھاتے۔کبھی آگے نکلتے کبھی ساتھ چلتےہاتھ چھوڑ کے ساییکل چلاتے۔ ایک بار پیر ہینڈل پر بھی رکھے، انارکلی سے گزرے بھاٹی گیٹ سے تانگہ داییؑں طرف مڑ گیا، آگے سے پھر باییںؑ۔خیال رہے اس وقت ان سڑکوں پر نہ کاریں موٹرسایکلیں تھیں نہ وہ ہجوم کہ لگے جلوس گذر رہا ہے۔شام ہوتے "ذاتی حویلی" کے سامنے جا اترے۔آس پاس ویرانی تھی۔گھرخالی یا جلے پڑے تھے۔ چابی کہاںتھی ابا نے چور نظروں سے ہر طرف دیکھتےہوےؑ شاید زندگی میں پہلی بار قفل شکن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔بر وزن بت شکن۔۔کسی نے نہیں دیکھا یا دیکھاتو حیران پریشان ہونا لا حاصل سمجھا۔اب اندر قدم رنجہ فرمایا تو عجیب سی بو اور گھپ اندھیرا۔ابا نے تسلی دی کہ نچلی منزلوں پر ہوتا ہے اور عمارت نہ جانے کب سے بند پڑی تھی"۔ راستہ ٹٹولتے اوپر دوسری منزل پر گےؑ ۔اندھیرا اور بو وہاں بھی رہے۔تیسری روشن تھی اور ہوادار۔۔ ابا چلتے ہوےؑ چوتھی منزل پر جاپہنچے جس کا آدھا حصہ کشادہ صحن تھا۔ فی زمانہ ٹیرس۔۔ اس پر خوب روشنی اور ہوا تھی۔ کمرے دوہی تھے۔صحن میں گرد تھی اور کٹی پتنگیں تحیں۔ سامان اہپر چھوڑ کر اماں ابا پانی لینے نیچے گےؑ۔ ان کی بھی جوانی کے دن تھے۔میں اور بھایؑ پتنگوں سے کھیلتے رہے،اڑانا جو نہیں آتا تھا۔ لٹو پھرانا۔کنکوے بازی۔کنچے کھیلنا ۔گلی ڈنڈاشریفوں کے کھیل نہ تھے چنانچہ ممنوع تھے۔ بعد میں گلی ڈنڈا بہت کھیلا لیکن دیگر فنون لطیفہ سے محرومی کا اھساس ہمیشہ رہا ۔ہمیں ایک ڈھولک ملی جس پر ہمنے انتظار کا وقت گذارنے کیلےؑ ہاتھ مارے میں گلی میں عین مقابل کے ایک گھر میںکچن کو دیکھتا رہا جس کا چولہا تو بجھا ہوا تھا لیکن اس پرتوا تھا۔ چمٹا پھونکنی وہیں پڑے تھے پرات میں آٹا دکھایؑ دیتا تھا، چکلہ بیلن رکھا تھا، روٹی کی چنگیر تھی۔ لگتا تھا کویؑ عورت روٹی پکانا چھوڑ اٹھ کے اندر گیؑ ہے۔ مجھے یقین تھا وہ جلد آ جاےؑ گی تو اسے سلام کروں گا۔۔۔ لیکن وہ نہیں آیؑ۔۔آج میں سوچتا ہوں اس عورت پر کیا بیتی کہ اسے روٹی چھوڑ جان بچا کے ایک دم بھاگنا پڑا؟ وہ کہاں گیؑ کس کے ساتھ گیؑ:یقینا" اس محلے میں وہ بھی سکھ ہوگی۔ کیا سے اٹھالیا گیا؟ اس کے گھر کے مردوں پر کیا بیتی؟ اب وہ کہاں ہوگی؟ یہ سب ایک جیسے سوالات ہیں جن کا کسی مذہب یا ملک سے تعلق نہیں۔۔ یہ " سیاہ حاشیے"ہیں۔۔باونڈری لایؑن کے دونو طرف۔۔ریڈ کلف کے بناےؑ ہوےؑ۔۔ ان باتوں کو اب سمجھنے کہنے کا فایڈہ
اماں ابا جب پانی نیچے سے پانی کی بالٹی لاےؑ تو ابا ہانپ رہے تھے اور اماں زار و قطار رو رہی تھیں۔" میں مر کے بھی اس آسیب میں نہیں رہونگی۔۔غضب خدا کا۔۔ہم دو تو بڑے ہمارے ساتھ یہ دو بچے۔۔۔اور اتنا بڑا ڈھنڈار۔۔ پتا نہییں اندر سے کیا نکل آےؑ۔۔۔کویؑ چھپا سکھ ۔۔ اس کی بد روح۔۔"
ابا نے حوصلہ دلایا " کچھ نہیں نکلتا۔۔خدا پر بھروسہ رکھو۔۔جگہ ویران پڑی تھی۔۔ہم صاف کرلیں گے ۔۔آباد ہوگی تو۔۔۔"
مجھے رہنا ہی نہیں یہاں۔۔تمہارا کیا ہے ۔۔صبح دفتر چلے جاوگے۔۔پیچھے سے کویؑ آ کے کاٹ گیا ہمیں تو۔۔۔""''
خانم میری بات تو سنو۔۔۔۔""
لیکن ان کو نہ سننا تھی نہ سنی۔بالاخر ابا ہی کو ہتھیار ڈالناپڑے۔بہ مشکل تمام دو گھنٹے کسی سکھ کی حویلی کی ملکیت کے غرور کا مزا لینے کے بعد اس خاندان نے واپسی کا رخت سفر باندھا اور پھر بے گھر مہاجر کا ارفع واعلیٰ مقام حاصل کر لیا۔بے گھری کا یہ سلسلہ 1971 میں اس وقت ختم ہوا جب ابا ریٹایؑر ہوےؑ اور ان کو سرکار نے 375 روپے ماہانہ کے علاوہ 25000 ہکمشت ادا کیےؑ۔ اس میں سے 24000 میں 120 گز کا وہ گھر بنا جو اپنا تھا لیکن ان کو اس میں ایک دن بھی رہنا نصیب نہ ہوا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔