شوکت صدیقی 20 مارچ، 1923ء کو برطانوی ہندوستان کے علاقے لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ 1946ء میں سیاسیات میں ایم اے کرنے کے بعد 1950ء میں کراچی آگئے۔ کراچی میں 1952ء میں ثریا بیگم سے شادی ہوئی۔ ناولوں اور متعدد کہانیوں کے مجموعوں کے خالق کے علاوہ علاوہ وہ اردو کےایک ممتاز صحافی بھی تسلیم کئےجاتے تھےاور متعدد نامور صحافی ان سےصحافت سیکھنے کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ کئی ہفت روزہ اور روزنامہ اخبارات سے وابستہ رہے۔ تاہم عملی زندگی کا آغاز انیس سو چوالیس میں ماہنامہ ’ترکش‘ سے کیا۔ وہ روزنامہ ’مساوات‘ کراچی کے بانی ایڈیٹر اور روزنامہ "مساوات" لاہور اور روزنامہ "انجام" کےچیف ایڈیٹر بھی رہے۔ ایک عرصہ تک وہ ہفت روزہ ’الفتح‘ کراچی کےسربراہ بھی رہے جس اخبار میں کئی ادبی صحافیوں نے کام کیا جنہیں پاکستان کے بڑے صحافیوں میں شمار کیا جاتا تھا۔
"خدا کی بستی" کے 46 ایڈیشن شائع ہوئےاور یہ اردو کا واحد ناول ہے جس کا 42 دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔
’خدا کی بستی‘ کو حال میں تیسری مرتبہ قومی ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا جبکہ "جانگلوس" کے ٹی وی پروڈکشن کے حقوق بھی ایک نجی ٹی وی چینل خرید رہا تھا۔ ان کے ناول "چار دیواری" کو لکھنوی الف لیلیٰ کہا جاتاہے۔ لکھنؤ کے زوال پزیر معاشرے کی کہانی، جہاں ایک تہذیب ختم اور دوسری دنیا جنم لے رہی تھی۔لیکن یہاں کے لوگ پرانی یادوں اور عظمتوں کو سینوں سے لگائے ہوئے ہیں۔کراچی میں علالت کے بعد 16 دسمبر، 2006ء کو ان کا انتقال ہوا اور کراچی ہی میں دفن ہوئے۔
اردو زبان کے شعر و ادب کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ناول ایک ایسی صنف کے طور پر ابھری، جس نے اس زبان کو عالمی دنیا میں تخلیقی شناخت فراہم کی۔ اردو زبان میں لکھے گئے کچھ ناولوں میں سے چند تو ایسے ناول بھی ہیں، جن کو تخلیق ہوئے نصف صدی سے زائد زمانہ بیت گیا۔ شوکت صدیقی کا کلاسیکی اہمیت رکھنے والا ناول 'خدا کی بستی' بھی ایسی ہی طویل عمر رکھتا ہے۔
شوکت صدیقی کا شمار اردو زبان کے ایسے ناول نگاروں کی صف میں ہوتا ہے، جن کے ناولوں کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوئے۔ ان کا سب سے مشہور یہ ناول 'خدا کی بستی' دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا، جبکہ دوسرے مقبول ناول 'جانگلوس' کا بھی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ ان کے لکھے ہوئے دیگر ناول ’چار دیواری‘ اور 'کمین گاہ' بھی اہم نوعیت کے حامل ہیں۔ شوکت صدیقی ان چار ناولوں اور اپنی دیگر تخلیقات کی وجہ سے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
پاکستان میں اگر کسی ناول کے دو چار ایڈیشن بھی آجائیں تو اسے خوش قسمتی گردانا جاتا ہے، مگر اس ناول کے اب تک تقریباً 50 ایڈیشن مختلف ناشرین کے زیراہتمام شایع ہوچکے ہیں۔ اس ناول کو ڈرامائی تشکیل بھی دی گئی اور پاکستان ٹیلی وژن سے پانچ مرتبہ نشر ہوا۔
دنیا بھر میں قارئین اور ادبی حلقوں کے علاوہ اس ناول کو پسند کرنے والوں میں سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو جیسی سیاسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ ناول اور ڈرامے دونوں صورتوں میں اس فن پارے نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔ اس ناول کو 1960 میں آدم جی ادبی ایوارڈ ملا۔
خدا کی بستی میں شوکت صدیقی نے قیام پاکستان کے بعد معاشرتی مسائل کی تفصیل سے منظرنگاری کی ہے۔ اس ناول کا مرکزی احساس ایک ایسا معاشرتی نظام ہے، جس میں شہری زندگی کے مصائب بیان کیے گئے ہیں۔ نئے ملک کے وجود میں آنے کے بعد مہاجرین کی آبادکاری، روزگار اور دیگر ضرورتوں کے تانے بانے سے کرداروں کو تخلیق کیا گیا ہے۔
اسی نظام میں جہاں زندگی کو گزارنے کی تگ و دو دکھائی گئی، وہیں ناانصافیوں، جرائم اور معاشرتی استحصال کے پہلو بھی کہانی کے کرداروں کے ذریعے قلم بند کیے گئے، جن کے بیانیے پر شوکت صدیقی نے اپنی لفظیات کے ذخیرے اور تخلیقی صلاحیت کو پوری طرح صرف کیا۔
خدا کی بستی کی مرکزی کہانی تین کرداروں کے اردگرد بنی گئی ہے جن کے نام راجہ، نوشہ اور شامی ہیں۔ ان تینوں کی عمریں زیادہ نہیں۔ ان میں عمر میں سب سے بڑا لڑکا راجہ ہے، جو تھوڑا سمجھدار ہے، ایک پیشہ ور گداگر کی گاڑی گھسیٹ کر اپنی روزی کمانے کی سعی کرتا ہے۔ دوسرا لڑکا نوشہ، جو عمر میں اس سے بھی کم ہے، ایک موٹرمکینک کے ہاں مزدوری کرتا ہے، جبکہ تیسرا لڑکا شامی بھی کم عمر ہے جو معاشی طور پر ایک تباہ حال خاندان کا فرد ہے اور اپنے والد کے غیض و غضب کا شکار رہتا ہے۔
اسی ناول کا ایک اہم کردار نیاز ہے، جو کباڑیہ ہے۔ وہ نوشہ کو گیراج میں سے پرزے چرانے کی ترغیب دیتا ہے، اور وعدہ کرتا ہے کہ اس کے بدلے وہ معاشی طور پر خوشحال ہوجائے گا، مگر یہ راستہ اس کو برباد کر دیتا ہے۔
مگر زمانے کی ستم ظریفی کی حد یہیں ختم نہیں ہوتی۔ خان بہادر فیاض علی کی صورت میں ایک سماجی کوڑھی نوشہ کی بہن سلطانہ کو تباہ کرنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے سماج کے پاکیزہ کرداروں کے کالے کرتوت کو بخوبی پہچانا جاسکتا ہے، جو دیکھنے میں سماج کے اعلیٰ عہدوں اور معاشرتی اقدار کے حامل ہیں مگر ان کی ذات بدبودار اور ضمیر کے قبرستان کی مانند ہے۔
خدا کی بستی معصوم زندگیوں کی حالات کے ہاتھوں جہنم ہونے کا نوحہ ہے، جس کو شوکت صدیقی نے نہایت مہارت سے لکھا۔ کرداروں کی بنت میں ترتیب اور واقعات کا تسلسل بڑی کاریگری سے تخلیق کیا۔ معاشرے کی حقیقتوں اور حقیقی کرداروں سے مماثلت بنا کر اپنے کرداروں کی زبان، نفسیات اور چال ڈھال بنائی، جس کی وجہ سے یہ ناول آج بھی ہمارے حالات کی عکاسی کرتا محسوس ہوتا ہے۔
ناول کے ان کرداروں کے درمیان ہونے والے مکالموں میں زندگی کی معنویت اور تلخیاں موجود ہیں، جن کو قاری پڑھتے ہوئے محسوس کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس ناول کو لکھے ہوئے 6 دہائیاں گزر گئیں، پھر بھی عہدِ حاضر میں اس ناول کو پڑھتے ہوئے، اس کے کردار، مکالمے، کہانی اور منظرنامہ دل کو زخمی کیے دیتا ہے۔
شوکت صدیقی کے اس ناول پر مختلف جامعات میں تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے جن میں جامعہ کراچی کی طالبہ مریم حسین کا پی ایچ ڈی کے لیے لکھا گیا تحقیقی مقالہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، انہوں نے یہ تحقیق اپنے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد حنیف فوق کی زیرِ نگرانی مکمل کی۔ وہ اس ناول کے متعلق لکھتی ہیں، ’’خدا کی بستی شوکت صدیقی کا وہ ناول ہے جس میں پاکستان کی شہری زندگی اور نئے معاشرے میں جڑ پکڑنے والی خامیوں اور اونچے طبقے کی مفاد پرستی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب پاکستانی معاشرہ تشکیل کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔
''مہاجرین کی آبادکاری بھی ایک سنگین مسئلہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا ناول ہے جس میں پاکستان کی شہری اور صنعتی زندگی، اس کی زیریں دنیا اوراس دنیا کے جرائم اور اندھیرے کو تین بچوں راجہ، شامی اور نوشا کے توسط سے پیش کیا گیا ہے۔
''یہ صرف تین بچوں کی کہانی نہیں بلکہ شوکت صدیقی نے ان تین بچوں کو بنیاد بنا کر پاکستان کے ہر طبقے کے اعمال اور افعال کا تجزیہ سماجی حقیقت نگاری کی طرح کیا ہے۔ اس ناول کو شوکت صدیقی کے تصور زندگی اور تصور فن کا نمائندہ ناول کہا جاسکتا ہے۔‘‘
پاکستان کے موجودہ حالات میں ہمیں پھر کسی شوکت صدیقی کی ضرورت ہے جو ہمیں سماج کی حقیقی صورت حال سے آگاہ کرے تاکہ اس کی بہتری کے لیے کوئی تگ و دو ہوسکے، کوئی صاحب اختیار معاشرے کے رِستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ سکے، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ہونے والے دھوکے، فریب اور ناانصافیوں کی تاریخ لکھ سکے۔ اس خدا کی بستی کی داستان رقم کرے، جہاں ہم اورآپ رہتے ہیں، جہاں سیاست دان دولت چھپانے کے لیے خفیہ حربے اختیار کرتے ہیں، جہاں اونچے طبقے کے افراد بہتی گنگاؤں میں ہاتھ دھوتے ہیں؛ انہی رویوں اور خامیوں کو شوکت صدیقی نے اپنے اس ناول کا موضوع بنایا تھا۔
شوکت صدیقی خدا کی بستی پاکستانی سماج کے محسن تھے مگر افسوس ہم انہیں بھی شاید فراموش کر بیٹھے۔ کسی ادبی میلے میں اس شاندار ناول کا تذکرہ نہیں ملتا، کوئی اس بہترین ناول نگار کو یاد نہیں کرتا۔ یہ بے حسی کی حد ہے۔
کیسی طلسمی نثر ہے شوکت صدیقی کی، اس ناول کے اختتامیہ سے یہ چند سطورملاحظہ کیجیے۔ یہ اس ناول کا نکتہ عروج ہے اور سماج، سرکار اور باشعور اذہان کے لیے سوالات کی گٹھڑی بھی، جس کا بوجھ تب محسوس ہوتا ہے جب انسان کا ضمیر زندہ ہو۔
’’نوشہ ملزموں کے کٹہرے میں سر جھکائے خاموش کھڑا تھا۔ اس کے رخساروں پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی۔ داڑھی کے بھورے بھورے سنہری بالوں میں اس کا چہرہ بحریہ کے نوعمر ملاحوں کی طرح خوبصورت نظر آ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی معصوم بچہ اپنی ماں سے روٹھا ہوا کھڑا ہے۔
عدالت میں موت کی سی گہری خاموشی تھی۔ پھر اسی خاموشی میں ایک بھاری بھرکم آواز ابھری۔ یہ جج کی آواز تھی۔ وہ فیصلہ سنا رہا تھا۔
نوشہ قاتل تھا۔ قانون کا یہی فیصلہ تھا۔
انصاف نے اپنا تقاضا پورا کر دیا۔
نوشہ کو ملزموں کے کٹہرے سے نکالا گیا اور جن ہاتھوں کو قلم کی ضرورت تھی، ان میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں، ہتھکڑیاں پہن کر نوشہ پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔
’’مجھے پھانسی دے دو۔‘‘
’’مجھے گولی ماردو۔‘‘
’’میں زندہ نہیں رہنا چاہتا۔‘‘
’’میں اب جینا نہیں چاہتا۔‘‘
وہ موت چاہتا تھا، وہ بلک بلک کر پھانسی کی درخواست کر رہا تھا مگر عدالت اسے پھانسی دینے کے حق میں نہیں تھی۔ انصاف کا یہی تقاضا تھا۔‘'
خدا کی بستی میں ایک مفلوک الحال مگر باعزت خاندان کے شب و روز کو موضوع بنایا گیا ہے جو قیام پاکستان کے بعد ایک بستی میں آباد ہو جاتا ہے۔ یہاں اس کا ہر طرح کے معاشرتی، معاشی مسائل اور با اختیار لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس ڈرامے میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، کمزوروں کی بے بسی، طاقتوروں کے استحصالی رویے، مذہب کے ٹھیکیداروں کی من مانیاں، غرض ہمارے معاشرے کا ہر رخ موجود تھا۔ اسی لیے یہ ڈراما اپنے دور کا مقبول ترین ڈراما تھا۔
شوکت صدیقی کا سب سے اہم ناول ”خدا کی بستی “ اس رجحان کا حامل ناو ل ہے۔ اس ناول میں مصنف نہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ خدا کے نام پر بننے والے اس ملک میں کس قسم کا معاشرہ تشکیل پایا۔ ان کی نظر میں 47 کے بعد کا معاشرہ جرائم کا معاشرہ ہے ۔ جہاں جرائم پروان چڑھ رہے ہیں۔ مسائل ہیں غربت ہے افلاس ہے۔ بے روزگاری ہے ، پیشہ چند خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جس کی عام آدمی کے پاس جرائم کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ ناول میں شامی ، نوشا ایسے کردار ہیں جو مجبوراً جرائم کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ خود برے نہیں لیکن حالات نے انہیں برا بنا دیا ہے ۔
روبینہ الماس اپنے مضمون " اردو ناول میں طبقاتی شعور" میں اس ناول کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں ،
"اس مخصوص رجحان کی عکاسی شوکت صدیقی کے ناول خدا کی بستی ‘‘ سے ہوتی ہے۔جس میں زندگی اپنی تمام ترسماجی بدصورتیوں کے ساتھ چلتی پھرتی اور انسانی زندگی پر اپنے اثرات ثبت کرتی نظر آتی ہے۔
شوکت صدیقی کے ہاں گردوپیش کی زندگی ہے، راجہ ، نوشہ ، سلطانہ ، سلمان ، ڈاکٹر موٹو (خیرات محمد) سب ایسے انسان ہیں جنھیں عام زندگی کے اندر دیکھتے ہیں۔ معاشرے کی بدلتی ہوئی اقدار نے زرپرستی اور خود غرضی کے جوراستے کھول دئیے ہیں یہ کردار کہیں تو اس دھارے میں بہتے اور کہیں اس کے خلاف ناکام جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شوکت صدیقی نے حقیقت کو صنعتی دور کی (سماجی ) طبقاتی کشمکش میں دریافت کیا ہے۔ صنعتی دور کے لائے ہوئے نظام نے انسان اور انسان کے روابط کو جس طرح متاثر کیا ہے۔ اس کی عکاسی اس میں کامیابی سے کی گئی ہے۔ معاشرت کو صنعتانے(Industrialization ) میں اقدار کی تبدیلی نے کچھ ایسے روح فرسا ناظر کو ہمارے تمدن کا حصہ بنادیا ہے کہ جن کا تصور بھی بڑا اذیت ناک ہے لیکن یہ واقعات اپنی ساری دہشت ناکی اور ناقابلِ یقین کیفیت کے باوجود اپنی پشت پر صنعتی عہد میں ’’ سماجی مرتبے کی خواہش ‘‘ ، ’’ دولت کے حصول کی اندھی طلب ‘‘ ، ’’ مستقبل کا خوف ‘‘ بھوک اور بوالہوسی ‘‘ کی کچھ حقیقی اور منطقی صداقتیں رکھتے ہیں۔ "
"خدا کی بستی" کے بارے میں فکر شائستہ حمید اپنے مضمون " اردو ناول کے رنگا رنگ موضوعات " میں کچھ اس طرح لکھتی ہیں۔۔۔
"شوکت صدیقی کے ناول ''خدا کی بستی'' میں غربت اور ہوس زر کی آویزش کو سماجی جرائم اور اخلاق باختہ کرداروں سے نمایاں کیا گیا کیونکہ ان کا موضوع ہی ۱۹۴۷ء کے بعد کی کراچی کی معاشرتی زندگی کے آشوب کو سامنے لانا ۔"
روزنامہ نوائے وقت کی 17 مارچ 2015 کی اشاعت میں مطلوب وڑائچ اس ناول کے بارے میں لکھتے ہیں ،
"کئی برس قبل شوکت صدیقی نے شہرئہ آفاق ناول ’’خدا کی بستی‘‘ تحریر کیا تھا،جس میں انہوں نے ایک مخصوص بستی کے مسائل کا احاطہ کیا تھا۔ آج اگر شوکت صدیقی زندہ ہوتے تو میں ان سے پوچھتا کہ پاکستان کا ہر شہر، قصبہ، گائوں،خدا کی بستی کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ اب ایک خاص مائنڈ سیٹ اپنے ہی ہم وطنوں کو جو دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں انکی عبادت گاہوں کو دھماکوں سے اڑایا، جلایااور ان کو کشت و خون میں نہلایا جا رہا ہے"
”خدا کی بستی“ ان کا ایسا ناول ہے جس کے کردار آپ کو اپنے اردگردمل جائیں گے، خدا کی بستی کے جرائم پیشہ افراد ان کی حقیقی زندگی میں اس وقت آئے جب وہ 1950ء میں ہندوستان سے کراچی آئے اور ہجرت کے بعد کی تکلیفیں اْٹھائیں۔خدا کی بستی کو اردو ادب میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے اب تک دنیا کی 26 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، یہ نہ صرف فروخت کے لحاظ سے قابل ذکر ہے، بلکہ جب 70 کی دہائی میں پی ٹی وی نے اس کا سیریل بنایا تو اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ڈرامے کی شام شہروں میں گلیاں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔اس ناول میں ایک جوان عورت سلطانہ اور اس کا بھائی انو، مرکزی کردار ہیں، دونوں غربت کے ہاتھوں تنگ اور ایک کے بعد ایک مصیبت میں گرفتار نظر آتے ہیں، ”خدا کی بستی“ میں غربت کے ہاتھوں بچوں پر ظلم دکھایا گیا ہے کہ کس طرح جرائم پیشہ افراد انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔اس سیریل کو پاکستان کی تاریخ کا پسندیدہ ترین ڈرامہ سیریل کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے مشہور ڈراما نویس و افسانہ نگار اشفاق احمد ڈراما سیریل خدا کی بستی کے بارے میں کہتے ہیں:
” جب (پاکستان ٹیلی وژن) کراچی اسٹیشن سے خدا کی بستی کا سلسلہ شروع ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دنیا کے مشہور سلسلہ وار پروگراموں کی طرح پاکستان کا یہ سیریل شہرتِ عام حاصل کر کے فنا کے چکروں سے نکل کر لازوال ہوجائے گا، لوگوں کو اس کے مکالمے حفظ ہوجائیں گے اور جس روز اس کی قسط چلا کرے گی بڑے شہروں کی سڑکیں سنسان اور چھوٹے قصبوں کی زندگی سکوت میں تبدیل ہوجایا کرے گی۔ سینما گھروں کی روشنیاں ماند اور ٹی وی سیٹس کے گرد چہروں کی ضیائیں روشن تر ہوجایا کریں گی۔ محض اس سیریل کے زور پر (پی ٹی وی مرکز) کراچی اپنے پورے زور سے اُبھرا اور مختصر وقفے میں لمبی جست لگا کر بامِ عروج پر پہنچ گیا۔ اس سیریل نے (پی ٹی وی مرکز) کراچی کو بہت پیچھے سے بہت آگے کھڑا کیا۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...