کتاب تبصرہ
خدا کی بستی مصنف: شوکت صدیقی۔
اردوادب میں بہت سے ناول نگاروں نے نام پیدا کیا ہے جن میں ایک بڑا نام شوکت صدیقی کا ہے۔ اردو زبان کے ساتھ بدقسمتی یہ رہی کہ اردو زبان کے بہترین ادب کا ترجمہ دوسری زبانوں میں نہ کیا جا سکا جس کی وجہ سے ہمارا ادب عالمی ادبی افق پر وہ مقام نہ بنا سکا جس کا یہ مستحق تھا اس سلسلے میں کس کو دوش دیں سمجھ نہیں آتا۔ خیر شوکت صدیقی صاحب کے اس ناول نے جو مقبولیت سمیٹی وہ اردو کے کسی اور ناول کے حصے میں نہیں آئی دنیا کی تقریبآ ہربڑی زبان میں ترجمہ ہو چکا جن میں انگلش، رشین،فرنچ،جرمن اور چائنیز زبانیں شامل ہیں اس ناول کے 42 ایڈیشن شائع ہوئے اورپاکستان ٹیلی ویژن نے اسی نام سے شاہکارڈرامہ بھی تخلیق کیا۔
ناول کی کہانی آزادی کے بعد لاہور کے مضافاتی علاقے میں رہنے والے چند خاندانوں کی کہانی ہے جس میں راجہ اور گوشہ نامی جوان کراچی بھاگ جاتے ہیں وہاں جا کر کیا کرتے ہیں پیچھے ان کے خاندانوں کا کیا حال ہے سماج میں مجبوری کس عفریت کا نام ہے ہمارا سیاسی نظام کس قدر بےحال ہے اور وہ بستی کے لوگ جسے ناول نگار نے خدا کی بستی کا نام دیا ہے کیسے سماجی خدمت کے نام سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتی ہے شوکت صاحب خود لکھتے ہیں کہ ایک موڑ پر آ کر کردار خودمیری گرفت سے باہر ہوتے گئے اور پھر انہوں نے اپنا راستہ خود بنایا یہی ایک بڑے ناول کی خوبی ہوتی ہے کہ اس میں کردار ہماری خواہش جذبات اور قاری کی پسند نا پسند سے ہٹ کر اپنے دور کے حالات کا نوحہ ہوتا ہے اور خدا کی بستی میں یہ خوبی موجود ہے کہ کردار قاری کواپنی گرفت میں ایسا لیتے ہیں کہ اختتام تک نہیں آزاد کرتے۔
کوئی بھی فنکار بہت سے شاہکار تخلیق کرتا ہے لیکن ایک کام اس کی پہچان بن جاتا ہے گویا اس ایک خاص کام کے لئے فنکار پیدا ہوتا ہے اور شوکت صدیقی صاحب کا یہ ناول ان کی پہچان بن گیا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔