یہ تب کی کہانی ہے جب خدا پہ جوانی تھی اور وہ پتھر کا ہوا کرتا تھا.. جی میں آیا تو آدم کو بنا دیا، پھر آدم کی جی پشوری کو حوا بنا ڈالی.. دونوں کی دل پشوری کو جنت میں "جو مانگو ملے گا" کی بنیاد رکھ ڈالی.. انعامات، خواہشات سے بڑھ کے… خادمین، طلب سے کہیں زیادہ… بس منع کر دیا کہ جو بھی کرنا ہے کرو، بس وہ والا سیب مت کھائیو… اب اشارہ کر کے بتایا بھی دیا کہ وہ والا نہیں کھانا، سو آدم نے وہی چکھنے کی جسارت کی.. جنت نکالا دے دیا، زمین پہ پٹخ دیا…
جوانی تھی خدا پہ، پتھر دلی سے حوا کو عرب کے صحراؤں میں اور آدم کو سری لنکا کے جنگلوں میں پھینک دیا.. شرمندگی سے آدم کے پاؤں من من بھر کے ہو گئے، مگر بھری پری دنیا میں یہ دو ہی تو انسان تھے، مل گئے کہیں دوبارہ…
پھر وہی سیب کی لذت چکھی اور پھر اولاد بھی ہو گئی… بڑے بیٹے کو چھوٹے نے خود اپنے ہاتھوں سے مار دیا.. صبح پیدا ہوئے بیٹے کی شادی شام کو پیدا ہوئی بیٹی سے کی جاتی تھی… اولاد بڑھی، نسل بڑھی.. خدا کا دل نہ پسیجا… بستیوں کی بستیاں کبھی سمندروں کی لہروں کی نذر کر دیں، کبھی بارش ایسی برسائی کہ ملک کے ملک بہہ گئے… کبھی بجلی ایسی گرائی کہ نشیمن کیا، پورے پورے شہر خاکستر کر دئیے…
کروڑوں سال گزر گئے… آدم کی نسل نے اپنا بدلہ لے لیا.. دنیا کو ہی جنت بنا ڈالا..جہاں چاہا باغات بنا ڈالے، پہاڑوں پہ رونقیں لگا دیں.. جن ہواؤں پہ کبھی صرف جنات چٹائی پہ سفر کرتے تھے، انسان آرام دہ سیٹوں پہ کرنے لگے.. جن سمندروں میں کبھی صرف عذاب کے لیے طوفان اٹھا کرتے تھے یا مچھلیاں کھانے کی جدوجہد کی جاتی تھی ، انسان نے وہاں پہاڑوں جیسے بحری جہاز چلا دئیے.. پتھروں سے بنی عمارتیں آسمان کی چھاتی چھیلنے لگی.. ترقی ہوتی رہی.. چاند فتح کر لیا گیا.. باقی سیاروں کی طرف مارچ جاری ہے… مریخ پہ پانی تلاشا جا رہا ہے…ہر بیماری ڈھونڈ لی بیماری کا علاج بھی.. زلزلے سے سونامی تک سبھی کی وجوہات روز روشن کی طرح سامنے رکھ دی گئیں ..جو کبھی مذہبی و جذباتی ایمان افروز واقعات تھے، اب قصے کہانیاں لگنے لگے …زمین تنگ پڑنے لگی ہے اور آسمان، اچھلو تو ہاتھ لگا لو…
ابھی انسان مسلسل سفر میں ہے… یہ اب کی بات ہے جب خدا کہیں بھی نہیں ہے اور ہر طرف پتھر ہی پتھر ہیں…