(Last Updated On: )
انسان کی فطرت ہے کہ وہ جتنا بھی مضبوط کیوں نہ ہو اسے بات چیت کے لیے، مشورے، اور دکھ سکھ بانٹنے کے لیے کسی ساتھی، کسی رفیق کسی کندھے کسی سہارے کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے.
ایک انسان اپنے جیسے دوسرے انسان سے اپنے دکھ سکھ بول کر اپنا من ہلکا کرلیتا ہے.
حتیٰ کہ اپنا غم کسی کو بتانے کے بعد چاہے مسئلہ حل ہو یا نہ ہو بھی انسانی قلب کے اندر سے غبار اور بوجھ اتر جاتا ہے.
اب ہر کس و ناکس کو نہ ہی تو کندھا میسر ہوتا ہے اور نہ ہی رفیق، تو وہ پھر کیا کرے؟
اس کے لیے خالق نے کہہ دیا کہ مجھے پکارو، دل کے خفیہ گوشوں سے لیکر زبان کی انتہا تک جیسے من چاہے اور جیسے دل کرے مجھے پکارو میں تمھاری پکار سننے کے لیے پوری طرح متوجہ ہوں، تمھارے دل کے اردگرد ڈیرہ جمائے ہوئے ہوں.
یہ پکار یہ ندا خفی یو یا ظاہری یہ ایک دعا ہے اور دعا ہر مذہب میں عبادت کی روح اور مغز کا مقام رکھتی ہے.
کوئی بھی انسان کسی بھی حال میں دعا سے مستغنی نہیں ہوسکتا. خدا کے چنیدہ و برگزیدہ ہستیوں کے اوصاف حمیدہ میں دعا کرنا بھی شامل ہے. مومن کا ہتھیار، رب کی محبت و قربت کا حصول اور اسکی بارگاہ میں تحفہ دعا ہے، دعا سے ہی رب کا فضل مانگا جاسکتا ہے.
ﷲ کے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ مِنَ الدُّعَاءِ – دعا سے بڑھ کر ﷲ تعالیٰ کے ہاں کوئی چیز معزز یا باعث تکریم نہیں ہے.
دعا کیا ہے؟ دعا دراصل رب کے ساتھ کمیونیکیشن ہے، یہ اس کے وجود کا اقرار اور اپنی بےبسی کا اظہار ہے، دعا مانگ کر کسی کی طلب پوری ہوتی ہے یا نہیں، اس سے ہٹ کر دعا مانگنے کا جو سب سے پہلا فائدہ ہے وہ اپنی کتھارسس ہے. عجز و ندامت میں آنسوؤں کے قطرے مل کر دل پر جمی گرد و غبار و دھو ڈالتے ہیں، من کا بوجھ فوراً ہی ہلکا ہوجاتا ہے، انسان کے اندر سیلف ہیلنگ یا خودکار طریقہ علاج کا جو نظام ہے، جو قلب و روح کی بیماریوں کو بغیر دوا کے شفا دیتا ہے وہ اپنے من میں چپکے چپکے دل کے گرد ڈیرہ جمائے ہوئے سے راز و نیاز سے بھی فعال ہوجاتا ہے.
اب ہمیں جب کوئی رفیق کوئی محرم راز کوئی حبیب میسر نہ ہو تو ہم دعا کا سہارا لیتے ہیں اپنے دل کی باتیں دل کے حقیقی مالک کے سامنے رکھ دیتے ہیں، مگر پھر بھی من ہلکا نہیں ہوتا، بوجھ اترتا نہیں، زنگ دور نہیں ہوتا، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
میں بتاتا ہوں اسکی وجہ وہ پری پیڈ دعائیں اور دعاؤں کے کتابچے ہیں جو ہم نے ہر موقع کی مناسبت سے رٹے ہوئے ہیں، ہم وہ سب کچھ چاہے شکر کے کلمات ہوں یا توبہ کی طلب ہو، غم و خوشی کے مواقع کیوں نہ ہوں ہم وہ رٹی رٹائی چیزیں دہراتے ہیں، وہ تمام باتیں جن کی روح اور مطالب و معنی سے ہم انجان ہوتے ہیں وہ ہم اپنے تنہائی کے ساتھی اپنے رب کے سامنے کسی مشینی روبوٹ کی طرح دہرا دیتے ہیں.
میں نے کعبہ کے گرد طواف کرتے ہوئے گروہوں کے گروہ دیکھے جو دعاؤں کی کتابیں اٹھائے ہوئے تھے، ان کتابوں میں لکھا ہوا سب کچھ پڑھتے جارہے تھے، لیکن وہ لکھی ہوئی عربی زبان سمجھنے سے قاصر تھے. ( خدا پکارے اور پکارے بغیر بھی سننے اور عطا کرنے پر قادر ہے مگر قانون فطرت میں ظاہری اسباب کی اہمیت ہے)
حالانکہ دعا محبوب سے محبت جیسی ہوتی ہے یہ ہمیشہ سے نیا پن مانگتی ہے، یہ اپنے دل کی گہرائیوں سے جذبات مانگتی ہے.
نہ ہی محبت کا کوئی نصاب مقرر ہے کہ جیسی کوئی کرچکا ہو ویسی کی جائے اور نہ ہی دعا کا کوئی نصاب طے شدہ ہے کہ بس وہی مانگی جائے یا وہی الفاظ دہراتے رہیں جو زمانہ قدیم سے لوگ دہراتے آرہے ہیں.
فرض کیجئے ایک گھپ اندھیری رات میں آپ کسی گھنے خوفناک جنگل میں ہیں، جہاں درندوں اور وحشیوں سے جان و مال کا خطرہ ہے، تو آپ وہاں کیا کریں گے؟ کیا اسوقت سوچیں گے کہ فلاں موقعے کے لیے کونسی دعا ہے؟ یا فلاں نے اس موقع پر کیا کیا تھا؟
میں اپنا بتاؤں تو میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا، میں اس صورتحال کو اپنے نئے الفاظ و جذبات کے ساتھ دعا کی صورت میں پکاروں گا. میں اپنے اندر سے ایک نیی ندا ایجاد کروں گا، تو دعا کرنا بھی یہی ہے کہ وہ زبان جس پر آپ کاملیت و قدرت رکھتے ہوں، وہ زبان جس میں ادا کیے گئے الفاظ کے معانی و مطالب اور مفہوم سے آپ بخوبی آگاہ ہوں، اسی زبان میں دعا کیجئے، چاہے کعبہ کے گرد ہوں یا سجدے میں ہوں، رب کو اس زبان اور ان الفاظ سے پکاریے جو پہلے آپ خود سمجھ سکتے ہوں.
قرآن و حدیث کی دعائیں تعلیم کے لئے ہیں، سکھانے کے لئے ہیں کہ اگر دعا مانگی جائے تو کس سے اور کیسے مانگی جائے، وہ دعائیں ان ہستیوں کی اپنی زبان اور اپنے حالات و واقعات کے مطابق تھیں، آپ اپنے حالات و واقعات کے مطابق اپنے اندر سے اپنی دعا کو ایجاد کیجیے، دعا رب کے ساتھ ایک مکالمہ ہے اور اس مکالمے کو بہترین طریقے سے کیجیے.
دعا کا حیاتِ انسانی سے گہرا تعلق ہے اور اپنے اثرات کے لحاظ سے ایک مسلمہ تاریخ ہے اور ربِ کریم کے نادیدہ خزانوں سے بھی اس کا عظیم ربط وتعلق ہے
قدیم آسمانی صحیفوں اور مذاہب میں دعا کا ایک خاص اور اہم حصہ ہے، ان کے مطابق خدا تمھارے تصور اور گمان سے بھی بڑھ کر تمھارے قریب ہے ، اس لیے بہتر تصور کیجیے، خوبصورت گمان رکھیے اور بہترین الفاظ سے پکار کر دیکھیے. دعا مخصوص اوقات میں محدود مقامات پر ایک خاص قسم کی پر تکلف کیفیت پیدا کرنے کانام نہیں ہے، بلکہ یہ خشیتِ اور محبت الٰہی سے عبارت ہے.
دور موسیٰ علیہ السلام کے اس گڈریے یا چرواہے کی مانند جو کہتا تھا کہ رب اگر مجھے مل جائے تو میں اسے نہلاؤں دھلاؤں اسے کنگھی کروں.
اسی طرح خدا آپکے دل سے نکلے ہوئے پرسوز الفاظ و جذبات سے محبت اور قدر کرتا ہے، وہ معصوم لہجوں والی سادہ نداؤں کو شرف قبولیت بخشنے پر خوش ہوتا ہے.
آپ اپنے گھر سے دعاؤں کی کتابیں اٹھوا کر مسجد و مدرسوں میں تقسیم کردیں، خود کو اور اپنے بچوں کو ہر وقت اور ہر موقع کے لیے اپنے اندر سے، امید سے بھرپور دلی اخلاص و محبت سے لبریز الفاظ میں دعائیں ایجاد کرنے کی تعلیم دیجیے. پھر ان الفاظ پر یقین، اعتماد اور بھر پور بھروسہ رکھیے. کیونکہ آپ جس کے سپرد اپنے معاملات کررہے ہیں وہی شب کو روشن دن میں بدلتا ہے.