وکڑکراسنوف کا جرم کیا تھا؟ اگر وہ امریکہ میں ہوتا یا مغربی یورپ کے کسی ملک میں‘ تو یہ جرم‘ جرم نہ ہوتا۔ اسے گرفتار کرنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا۔مگر یہ روس تھا! لینن‘ سٹالن اور خروشچیف کا روس! جہاں سٹالن نے کہا تھا۔ ’’ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کو زمین سے اور خدا کو آسمان سے نکال باہر کیا ہے۔‘‘جہاں لینن نے کہا تھا۔ ’’مذہب لوگوں کی افیون ہے! مارکس کا یہ قول مذہب کے بارے میں ہمارے نظریے کی بنیاد ہے!‘‘
جہاں مذہبی بنیاد پر مارے جانے والے عیسائیوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ اور دو کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ کمیونسٹوں کا انقلاب آیا تو مذہب کی مخالفت اس انقلاب کا ضروری جزو تھا۔ پہلا رسالہ جو اس سلسلے میں جاری کیا گیا اس کا عنوان ’’انقلاب اور چرچ‘‘ تھا۔ اندازہ یہی لگایا گیا تھا کہ مذہب ختم ہو جائے گا اور بہت جلد مذہب کی جگہ الحاد لے لے گا۔ مگر جلد ہی معلوم ہو گیا کہ مذہب خودبخود ختم ہونے والا نہیں۔ ریاست کو اس کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ 1921ء کے عشرے میں یوکرائن میں 28 بشپ اور پونے سات ہزار پادریوں کو قتل کیا گیا۔ 1935ء تک ایک لاکھ تیس ہزار پادری گرفتار کیے جا چکے تھے۔ ان میں سے پچانوے ہزار کو گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے کھڑا کرکے مار دیا گیا۔ اس اثنا میں روس میں قحط پڑا تو ریاست نے چرچ کی دولت اور جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی پالیسی اپنائی‘ مذہبی رہنمائوں نے مزاحمت کی۔ ہزاروں پادری اس مزاحمت میں مارے گئے۔ 1940ء تک آرتھوڈکس چرچ تیس ہزار سے کم ہوکر صرف پانچ سو رہ گئے۔ سالہا سال کی کوششوں کے بعد بھی سرکاری اعدادوشمار میں اعتراف کرنا پڑا کہ ایک تہائی شہری اور دوتہائی دیہاتی آبادی اب بھی مذہب کے ’’شکنجے‘‘ میں ہے! ہاں! یہ ضرور ہوا تھا کہ قیدوبند اور قتل و غارت کی سرکاری پالیسی کے ڈر سے پبلک اجتماعات میں مذہب کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔ تمام مذہبی سرگرمیاں چھپ کر انجام دی جاتی تھیں یا چار دیواریوں کے اندر!
منافقت کا یہ عالم تھا کہ 1941ء میں ہٹلر نے حملہ کیا تو سٹالن نے مذہب کو ختم کرنے کی پالیسی میں یوٹرن لیا۔ جو چرچ حکماً بند کر دیے گئے تھے‘ کھلنے لگے۔ اب عوامی حمایت کی ضرورت تھی! اور عوامی حمایت کے لیے پادریوں اور گرجائوں کی اہمیت سے انکار ناممکن تھا! مگر جیسے ہی جرمن واپس ہوئے‘ مذہب کے خلاف مہم دوبارہ شروع ہوگئی۔ یوکرائن سے سینکڑوں پادری گرفتار کرکے سائبیریا کے لیبر کیمپوں میں بھیج دیے گئے۔
پھر خروشچیف کا عہد شروع ہوا۔ 1959ء سے 1964ء تک کے پانچ برسوں کے درمیان پندرہ ہزار چرچ مقفل کیے گئے۔ خانقاہوں اور مسیحی مدرسوں کو ہزاروں کی تعداد میں بند کردیا گیا۔ شادیوں‘ جنازوں اور بپتسمہ کے لیے جو گھرانے پادریوں کو بلاتے تھے‘ ان کے نام ریکارڈ میں درج ہونا شروع ہوگئے۔ اس سے چاروں طرف خوف کی فضا پھیل گئی اور لوگ جان بچانے کے لیے مذہبی رسوم سے اجتناب برتنے لگے۔ پھر والدین سے بچوں کو مذہبی تعلیم دلانے کا حق قانوناً چھین لیا گیا۔ دہریت پر تنقید کرنے والے پادریوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ مذہب کے حوالے سے خیراتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ کچھ علاقوں میں ’’کام‘‘ کے دوران چرچ کی گھنٹیاں بجانے سے منع کردیا گیا۔ جرمنوں کے حملے کے بعد سٹالن نے چرچ کو جو آزادی دی تھی‘ خروشچیف نے اس کی خوب خوب مذمت کی۔
اس روداد سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ کمیونسٹ صرف عیسائی مذہب کے خلاف تھے۔ مسلمانوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ کریمیا‘ تاتارستان‘ چیچنیا اور دوسرے مسلمان علاقوں سے مسلمانوں کو نکال کر دور افتادہ مقامات پر بھیج دیا گیا۔ آج تاتاری مسلمان‘ تاتارستان میں کم اور تاتارستان سے باہر زیادہ ہیں۔ کریمیا کے مسلمان تیس ہزار کے قریب جلاوطنی کے دوران شہید ہوگئے۔ لاکھوں بیگار کیمپوں میں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 1922ء میں تاتاری مسلمانوں کے علاقوں میں قحط کی مصیبت آئی۔ اس قحط میں ریاست نے کوئی مثبت کردار ادا نہ کیا۔ قحط کے بعد تاتارستان‘ وولگا اور اورال کے علاقوں میں روسیوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہوگئی۔ تاتاری مسلمانوں کی عالمی تنظیم نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہوا ہے کہ 1922ء کے قحط کو مسلمانوں کی نسل کشی قرار دے کر اس کی مذمت کی جائے!
اس سارے پس منظر میں وکٹرکراسنوف کا جرم کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ اس نے انٹرنیٹ کی ایک بحث میں لکھا کہ ’’خدا نہیں ہے‘‘۔ ساتھ ہی اس نے بائبل کو یہودیوں کی گھڑی ہوئی پریوں کی کہانیوں کا مجموعہ قرار دیا۔ مذہبی جذبات مجروح کرنے کے جرم میں اسے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ ایک سال قید کی سزا ہو سکتی ہے یا تین لاکھ روبل جرمانہ!یہ بھی خدا ہی کی قدرت ہے کہ جس روس میں سٹالن نے خدا کو آسمان سے نکال دیا تھا اور خروشچیف اور برزنیف نے خدا کے وجود پر یقین رکھنے والوں کو دماغی مریض قرار دے کر پاگل خانوں میں بند کردیا تھا۔ اُس روس میں آج صدر پیوٹن مذہب کے دفاع میں آگے آگے ہیں! کریمیا پر قبضہ کرتے ہوئے پیوٹن نے اعلان کیا کہ ’’کریمیا ہی وہ جگہ ہے جہاں شہزادے ولادی میر کو بپتسمہ دیا گیا تھا۔ یہیں اس نے دقیانوسی عیسائیت (آرتھوڈکس) کو گلے لگایا تھا۔ اسی وجہ سے روس‘ یوکرائن اور بیلارس ایک رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔‘‘
اُسی روس کو آج پیوٹن نے مسیحی ملک قرار دیا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آج روس الزام لگا رہا ہے کہ امریکی مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دسمبر میں پیوٹن نے علی الاعلان کیا۔ ’’آج یورپی اور امریکی اپنی اصل سے یعنی عیسائی قدروں سے دور ہو رہے ہیں۔ ان ملکوں میں ایسی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں جن میں ہم جنسی کی شادی اور شیطان پر ایمان لانے کو باعزت خاندانوں اور خدا پر ایمان لانے کے برابر سمجھا جا رہا ہے! پھر جب کہا گیا کہ کیونسٹ لیڈروں نے خود ہی کریمیا کو یوکرائن کے حوالے کیا تھا تو پیوٹن نے ایک پادری کے لہجے میں جواب دیا کہ ان سے خدا حساب لے گا!
صرف یہی نہیں‘ 2013ء میں روسی حکومت نے ہم جنسی کے پروپیگنڈے اور حمل ضائع کرنے کے اشتہارات پر پابندی لگا دی۔ ماں کے پیٹ میں بچہ بارہ ہفتوں کا ہو جائے تو اسقاط سے منع کردیا۔ یعنی سارے کام جو پوپ صاحب نے کرنے تھے‘ بھائی پیوٹن کر رہے ہیں! سٹالن نے خدا کو آسمانوں سے نکال دیا تھا مگر آج روس کی زمین خدا کے ماننے والوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ روسی ‘امریکی معاشرے کے بگاڑ اور خاندانی انتشار کا مقابلہ کرنے کے لیے باہر نکل آئے ہیں۔ 2013ء کے دوران جن دس بہترین رجحانات کی عالمی فہرست بنائی گئی‘ اس میں سرفہرست روس میں خاندان پرستی کا رجحان تھا۔
روایت ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کی ایک ملحد سے وجودِ باری تعالیٰ کے اثبات پر بحث طے ہوئی۔ امام صاحب تاخیر سے پہنچے۔ ملحد نے شکوہ کیا۔ امام صاحب نے کہا کہ دریا پار کرنا تھا۔ کوئی ذریعہ ہی نہیں تھا۔ کوئی کشتی تھی نہ ملاح نہ پُل! اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت نیچے آ رہا! پھر اس کی لکڑی خود ہی تختوں میں تبدیل ہونے لگی۔ پھر وہ تختے خودبخود جُڑنے لگے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے خودبخود کشتی بن گئی۔ میں اُسی کشتی سے دریا پار کرکے آیا ہوں۔ ملحد ہنسا اور کہنے لگا‘ امام صاحب! کیا کہہ رہے ہیں؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ اگر چھوٹی سی کشتی‘ بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتی‘ نہ ہی تم مان رہے ہو‘ تو پھر اتنی بڑی کائنات خالق کے بغیر کیسے بن سکتی ہے؟
نہیں معلوم! وہ ملحد ایمان لایا یا نہیں! مگر امام ابوحنیفہؒ نے اُس ملحد پر فتویٰ لگایا نہ اسے گردن زدنی قرار دیا‘ نہ ہی بحث کے لیے کلام پاک کی آیات پیش کیں کیونکہ کلام پاک کو وہ مانتا ہی نہیں تھا! امام صاحب نے عقلی دلائل دیے۔ بدقسمتی سے آج ہمارے مذہبی رہنما یا تو فتویٰ دینے پر اتر آتے ہیں یا نقلی دلائل دیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ عقلی دلائل دینے کے لیے جدید فلسفہ‘ تاریخ‘ فلکیات اور دیگر عصری علوم پر دسترس ضروری ہے۔
تاہم شعرا یہ کام کر رہے ہیں اور خوب کر رہے ہیں۔ جوش کا یہ شعر تو زبان زدِ خاص و عام ہے ؎
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
عبدالحمید عدم نے تو عجیب و غریب نکتہ نکالا ؎
انکار کس کا کرتے ہو تم وہ اگر نہیں
انکار جس کا کرتے ہو تم وہ خدا تو ہے!!
مقابلے کا امتحان جس زمانے میں پاس کرکے مرکزی ملازمت کا آغاز کیا‘ اُسی وقت سول سروسز کی تربیت کا ایک حصہ کراچی میں منعقد ہوتا تھا! ہمارے ساتھ ایک صاحب تھے۔ دنیا سے رخصت ہو چکے اس لیے نام لینا مناسب نہیں! خدا ان کے ساتھ معاملہ نرم کرے اور انہیں عافیت اور بخشش نصیب ہو! خدا کے وجود کا انکار کرتے تھے اور بہت بحث کرتے تھے۔ سارتر سے لے کر برٹرنڈ رسل تک کے حوالے زبانی یاد تھے۔ اس اثنا میں 1971ء کی مشرقی پاکستان کی جنگ چھڑ گئی۔ ایک رات کراچی پر بمباری ہوئی۔ دوسرے دن دفتر پہنچے تو ان صاحب کے ساتھ‘ کمرے میں جو دوسرے رفیق کار رہ رہے تھے‘ ہنس ہنس کر بتا رہے تھے کہ سائرن بجتا تھا تو موصوف بلند آواز سے کلمہ پڑھ کر گڑگڑاتے تھے کہ ’’یااللہ بچا! میں خیریت سے گھر پہنچنا چاہتا ہوں!‘‘ ایک بار ان کی جیب سے چھوٹے سائز کا پنج سورہ بھی برآمد ہوا۔ معلوم ہوا کہ کسی انٹرویو کی ’’تیاری‘‘ کے لیے رکھا ہوا ہے! احسان دانش نے کہا تھا ؎
آ جائو گے حالات کی زد میں جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“