گو کہ خدا کی عمر کا تعین کرنا ممکن ہی نہیں.. مگر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عمر کے کس موڑ پہ ہے..
ایک وقت تھا کہ کچھ بھی نہیں تھا… خدا تھا اور فرشتے تھے… فرشتے قطعی دوست میٹیریل نہیں ہوتے، انھیں صرف جی حضوری سے مطلب ہے، سر جھکائے تسبیح پہ تسبیح پھینکتے جاتے ہیں.. سو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خدا کے لیے ہاؤ بورنگ واز دیٹ..
اسی بورنگ میں بیٹھے بیٹھے خدا نے مٹی کے پُتلے بنانے شروع کر دئیے.. پھونک مارتا اور پتلے پھدک کے چلنا شروع کر دیتے… خدا کو یہ گیم انٹرسٹنگ لگی.. اور پھر لاتعداد پتلے بنا ڈالے… اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ وقت خدا کا بچپن تھا….
پھر خدا پہ آئی جوانی بھی زمین و آسمان نے دیکھی، وہ قہر کہ جائے پناہ نہ ملے، وہ مہر کہ ارض و سماں تمہارے…ذرا غصہ آیا تو زمین پلٹ کے رکھ دی، سمندر مٹھی میں بھرا اور خشکی پہ انڈیل دیا..آسمان سے قہر بھری نگاہ ڈالی اور سب جلا کے خاکستر کر دیا..
ذرا پیار جاگا تو اپنے ہی بنائے مٹی کے پتلے سے گپیں بھی لگائیں، ملاقاتیں بھی کر ڈالیں… جان لے لی اور کسی پیارے کے لیے دل چاہا تو جان واپس بھی کر دی… وہ ذہنی صلاحیتیں بھی بخش دیں کہ زمین چھوٹی پڑنے لگی، اور مٹی کا پتلا آسمان کو اڑانیں بھرنے لگا….
اور اب یہ وقت ہے کہ مٹی کا پتلا وہی ہے، وہی زمین و آسماں.. وہی اس کی تخیل کی اڑانیں.. مگر خدا اب نہ کسی سے بات کرتا ہے، نہ ملاقات کے سَدّے دیتا ہے، نہ کسی پیارے کی خاطر لی ہوئی جان واپس کرتا ہے، نہ وہ قہر اس کی نگاہ میں، نہ وہ مہر اس کی چاہ میں..
اب بس لیٹ کے سب دیکھتا ہے اور پھر دایاں بازو آنکھوں پہ رکھ کے سستانے لگتا ہے…
خدا اب بوڑھا ہو گیا ہے…..