خود پر بھی یقین تھا اور اپنے ببنانے والے پر بھی کہ وہ کبھی زندگی میں گرنے نہیں دے گا ،کوٸی غیبی ہاتھ آۓ گا اور جلتی آگ کو گلزار میں بدل دے گا ،کرامتوں پر بھی یقین تھا اندھیری راتوں میں کسی جگنو کی آمد بھی کبھی ذہین میں بستی تھی مگر کیسے یقین ٹوٹتے ہیں انسان کو کبھی خبر ہی نہیں ہوا کرتی کیسے ایک قدم زمین پراور دوسرا ہوا میں لٹکارہ جاتا ہے تجربے سے پتہ چلا، پھر سوچتی ہوں وہ جو گھر سے دہی لینے نکلتے ہیں اور بم دھماکہ میں پرخچے اڑا بیٹھتے ہیں یاسڑک پار کرتے ہوے کسی انجان گاڑی کی زد میں آکر ٹکڑوں میں بدل جاتے ہیں وہ بھی تو خالق کی مخلوق ہیں وہ بھی یقین کی کسی نہ کسی منزل کے مسافر ضرور ہوں گے اور ان کے گھر والے منتظر ہوں گے دعاٶں کے کشکول بھر بھر کر ،پھرایمان میں ایسی کیا کمی رہ جاتی ہے کہ ریزہ ریزہ ہونا ضروری ہے ؟ سمجھ نہیں سکی تو چھوڑ ہی دیا اس موضوع کو سمجھنا