The first revolution is when you change your mind about how you look at things, and see there might be another way to look at it that you have not been shown.
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی کتاب کامیاب زندگی کے راز سے انتخاب مسکان رومی اسلام آباد
میرا بس چلتا تو میں ان سب مانگنے والوں کو ایک گاڑی میں بیٹھاتا اور سمندر میں پھینک دیتا۔
اس کے یہ الفاظ میرے کانوں سے ٹکراۓ تو میری حیرت کی انتہا ٕ نہ رہی کہ ایک پڑھے لکھے انسان کی ایسی فکر ہو سکتی ہے۔ بہرحال دوست ہونے کے ناطے کوٸی ایسا حل نکالنا ضروری تھا کہ اسے با آسانی سمجھا پاوں ۔
سنو تمھاری تنخواہ کتنی ہے ۔ 55000
اور گھر اپنا ہے
نہیں تو کراۓ کا ہے
کوٸی زمین وغیرہ
نہیں
پیچھے گاوں میں کتنی زمین
نہیں ہے
لیکن تبسم آپ یہ سب باتیں کیوں پوچھ رہے ہیں
میں ہلکا سا مسکرایا اور کہا حساب لگا رہا ہوں ۔غریب ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے میرا مطلب شاید بھیک مانگنے کے لیے سڑک پر آنے میں کتنا وقت لگتا ہے ۔ میری یہ بات سن کر چونک گیا۔ ایک منٹ صرف دو اور سوالوں کا دے دو ۔ اب وہ کیا ہیں اس کا یہ جملہ بولنے کی دیر تھی کہ میں نے فورا سے سوال داغ ڈالا ۔
بھابھی کو کوٸی ہنر آتا ہے مثلا سلاٸی کڑاہاٸی
نہیں
اور سب سے بڑے بچے کی عمر کیا ہے
چار ساڑھے چار سال
تبسم بھاٸی یہ کیوں پوچھے جا رہے ہو کچھ مجھے بھی سمجھاو ۔ وہ پریشان ہو گیا دیکھو یار بس ابھی سمجھاتا ہوں ایک بات بتاو آج اگر تم گھر جا رہے ہو Ijp روڈ پر بہت رش ہے تمھارا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے تم ہسپتال میں زندگی موت سے لڑ رہے ہو ایسے میں ڈاکٹرز کی بھاری فیس اور ہسپتال کے اخراجات دینے کے لیے بھابھی کے پاس کتنی سیونگ ہے وہ سب لگا دیتی ہے پھر زیور بیچ ڈالتی ہیں لیکن ڈاکٹرز جواب دے دیتے ہیں اور میرے دوست آپ فوت ہو جاتے ہو ۔یہ کیا یار کیسی باتیں کر رہے ہو۔ اللہ کے بندے ایک منٹ سوچ اگر ایسا ہوتا ہے تو تیرے بعد گھر کا خرچا کون چلاۓ گا بچے چھوٹے مکان کراۓ کا زمین ہے نہیں اور مہنگاٸی ترے سامنے رشتے دار پہلے سگے نہیں بھابھی کو کوٸی ہنر نہیں آتا اب مجھے بتا دو ہی راستے ہیں یا کسی کے گھر کام کرنا یا سڑک کے کنارے ۔ میں نے منہ پھیر کر دیکھا تو وہ رو رہا تھا۔کیوں رو رہے ہو تبسم بھاٸی آپ نے میری آنکھیں کھول دی۔ سوری یار مجھے ویسے الفاظ نہیں کہنے چاہیے تھا۔ ارے میرے بھاٸی مجھ سے نہیں خدا سے سوری کرو۔ جب وہ اپنے بندوں کو بندوں کے ذریعے رزق دے رہا ہے تو ہم کیوں خدا بننے کی کوشش کرتے ہیں ہم کون ہیں اس کے بندوں کو سمندر میں پھینکنے والے ۔ اس کو اپنی تخلیقات سے بہت پیار ہے مگر اس کا نظام ہے کیوں ہے کیسا ہے کب سے ہے کب تک رہے گا ہمیں اس کا اختیار نہیں ۔ ہمیں جواب دے ہونا ہے اپنے اعمال کا ۔کسی کو زیادہ دے کر آزما رہا ہے کسی سے سب کچھ لے کر آزما رہا ہے ہم سب مٹی کی مورتیں ہیں اس سے زیادہ یہ کہ اس کے تابع فرمان بن جاٸیں ۔کہی سنی باتوں کو چھوڑ کر غورو فکر کی عادت ڈالیں ۔ کوٸی شوق سے سڑک کے کنارے نہیں آتا ۔ ہر گھر کی اپنی کہانی ہے ہر چھت کی اپنی کہانی ہے ہر انسان کی زندگی کٸی ہزار لفظوں فکروں سوچوں گمانوں کا اور مجبوریوں کا مجموعہ ہے ۔کسی کو شوق نہیں ایسے رسوا ہونے کا ۔ مانگنا بری بات ہے مگر poverty line پر کھڑے لوگوں کو دین نے اوپر لانے کے لیے زکوة کا نظام متعارف کروایا ۔ آج کتنے لوگ زکوة دیتے ہیں۔یہ نظام ٹھیک ہوتا تو سڑک کنارے کوٸی ماں اپنے لعل کے لیے دامن پھیلاۓ زندگی کی بھیک نہ مانگ رہی ہوتی ۔ہاں مصیبت آۓ تو صدقے اتارتے ہیں مال سے بر وقت زکوة نہیں نکالتے۔ صدقوں کے سہارے جینے والی اس قوم کو سمندر میں پھینکنے والے تم اور میں کون ہیں ۔کچھ صدقے دے کر جی رہے ہیں اور کچھ صدقے لے کر جی رہے ہیں دونوں کی مجبوریاں ہیں ۔ جب دیہاڑی دار کو چار دن سے کوٸی مزدوری پر لے جانے والا نہ ملے تو اک شام اسے کہنا پڑتا ہے صاحب مدد کر دیں کٸی دن سے بچوں نے کھانا نہیں کھایا ۔ جب ہسپتال کے کاونٹر پر بڑے مرض کے علاج کے لیے پیسے جمع کروانا پڑیں تو غریب بننا پڑتا ہے سڑک کنارے دواٸیوں کی پرچی لے کر کھڑے ہونا پڑتا ہے مسجد میں سلام پھیرتے ہی اپنی اولاد کی زندگی مانگنا پڑتی ہے کیونکہ جس ریاست میں زلزلہ کے فنڈ بھی نہ چھوڑے گٸے ہوں وہاں ایسی غربت چوکوں چوراہوں اور مساجد میں عام نظر آتی ہے ۔ جہاں رمضان میں دس والی چیز بیس کی بکنا شروع ہو جاۓ وہاں سفید پوش انسان کی سفید پوشی کا بھرم بھی ٹوٹنے لگتا ہے۔ جہاں دو کلو کے آٹے کی امداد دیتے ہوۓ دو سو کلو کے لوگ فوٹو سیشن کر رہے ہوں وہاں سفید پوشی کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے لوگ خاموشی سے مر جایا کرتے ہیں یا زہر پی لیتے ہیں ۔ ایسے میں کسی کو حقیر سمجھنا اللہ کی ناراضگی کو دعوت دینا ہوتا ہے بس خاموشی سے اس کے تابع فرمان بنو اپنے حصے کا چراغ جلاو ۔ جتنا ممکن ہو داٸیں ہاتھ سے بانٹو باٸیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے ۔ یہ زندگی سچا واقعہ ہے جب میرے ایک دوست اور میرے درمیان مکالمہ ہوا۔ بس اتنی سی بات یاد رکھیں خدا کو بڑا بول پسند نہیں عجز و انکساری والی پردے داری والی زندگی گزاریں اپنے حصے کی نیکیاں کیجیے وقت اور حالات کی بازی کبھی بھی پلٹ سکتی ہے غنی فقیر ہوسکتا ہے اور فقیر بادشاہ ۔ یہ نظام اس کا ہے وہ بہتر جانتا ہے ۔جہاں دل کا اطمینان ہو وہاں مدد کیجیے اور لازمی نہیں کوٸی دامن پھیلاۓ تو ہی دینا ہے ۔ نہ نہ بن مانگے بانٹیے آپ ضرورت مند کی ضرورت پوری کیجیے اللہ آپ کی ضرورتوں کا خیال رکھے گا ۔ کسی سے متعلق بلا تحقیق تدبر تفکر کیے کوٸی راۓ نہ قاٸم کریں.