ہر ملک میں خود کُشی کرنے کے مختلف مہینے ہیں ۔۔ ایک دور میں موسم خزاں میں سویڈن میں بہت خود کشیاں ہوتی تھین ،، اگر آپ سویڈن میں خزاں کے موسم میں جنگلوں مین جائیں تو پہلے اور سرخ پتوں نے وہ آگ لگائی ہوتی ہے کہ کچھ لوگ اس سحر میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ وہ سوچھتے کہ بس اب اور کچھ دیکھنے کا نہں بچا اور وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتے۔۔
پاکستان میں بہت عرصہ ہوا لوگ طبعی موت مرنا بھول گئے ہیں ۔۔ یہاں یا تو لوگ ہلاک ہوتے ہیں یا خود کُشی کرتے ہیں
کوئی آنتڑیوں سے بنے گھی سے تلے پکوڑے ، مچھلی کھا کر ہلاک ہو رہا ہے ، کوئی ، چوہوں کے قیمے سے بنے سموسے کھا کر ہلاک ہو رہا ہے ۔۔
کوئی ہسپتال میں دوائیوں کے نہ ہونے کی وجہ ہلاک ہو رہا ہے ، کوئی جعلی دوائیوں کے ملنے کی وجہ سے ہلاک ہو رہا ہے ۔ کوئی آکسیجن کے خالی سیلنڈر کی وجہ سے ہلاک ہو رہا ہے ۔ کوئی ملاوٹ اور بیمار خون لگنے کی وجہ سے ہلاک ہو رہا ہے
کوئی ہر روز خود کو اور اپنے بچوں کو تین وقت کی روٹی نہ دینے کی وجہ سے بچوں سمیت خود کو ہلاک کر رہا ہے
اور جو باقی بچ جاتے ہیں ان کو طلبان ہلاک کر رہے ہیں ،، اور ریاست میڑو بس اور اورینج ٹرینوں کا جال بچا رہی ہے
مگر میں یہان ایک اور قسم کی خود کُشیوں کی بات کرنا چاہتا ہوں ،، پاکستان میں یہ جولائی یا اگست کے مہینے میں ہوتی ہیں ۔۔
پاکستان میں جولائی اور اگست کے مہینے سکولوں میں امتحانی نیتیجوں کا اعلان ہوتا ہے ۔۔ آج کا تو مجھے علم نہیں مگر میں جب دوسری تیسری جماعت میں پڑھتا تھا تو نتیجے کے دن سب بچے دھلے ہوئے کپڑے پہن کر ہاتھوں میں گلاب کے ہار اور جیب میں ایک یا دو روپے ڈالے سکول میں داخل ہوتے تھے ۔۔اسمبلی کے کے بعد سب بچے اپنی اپنی کلاسوں میں جا کر بیٹھ جاتے ، سکول کا ہلپیر ہر کلاس میں ایک لفافہ کلاس میں استاد جی کے ہاتھ میں تھماتا جاتا اور جب تمام کلاسوں میں لفافے پہنچ جاتے تو وہ جا کر گھنٹی بجاتا اور کلاس کا اُستاد لفافے کو چاک کرتا تو تمام بچوں کے دل چاک ہوجاتے ، اور استاد جی کہتے
رول نمبر ۱۲ ، ۱۹ ، ۵۰ ، اور ۵۵ کھڑے ہو جائیں اور جب اس رول نمبر کے بچے کھڑے ہو جاتے تو اُستاد جی کہتے ،، ان کے علاوہ باقی سب پاس ہیں ،، باقی بچے گلاب کے ہار استاد جی کے گلے میں اور دو روپے ان کی جیب میں ڈالتے بلبلیاں مارتے اپنے اپنے گھروں کو دوڑ پڑتے اور رول نمبر ۱۲ ، ۱۹ ، ۵۰ اور ۵۵ روتے منہ چھپاتے کھیتوں اور جھاڑوں میں چھپتے پھرتے ،، ان بچوں کی جتنی تذلیل اس دن ساری کلاس کے سامنے کی جاتی وہ اس کو ساری عمر بھلا نہ پاتے ۔۔ اور پھر ان کی مائین جو ان کے انتظار میں گُڑ کے چاول بنا کر بیٹھی ان کا انتظار کر رہی ہوتی چادر اُڑا کر ان کی تلاش میں نکل جاتی ،، یہ بچے ابھی اتنے باشعور نہیں ہوئے ہوتے کہ خود کُشی کو سمجھ سکتے لہذا مائین ان کو زندہ ہی واپس گھر لے اتیں اور پھر رہی سہی تذلیل کرنے کی کثر ان کو گھر بیٹھا کر سارے خاندان کے سامنے کی جاتی ،، جن چاچاوں ، ماموں ، اور باپوں کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا تھا کہ بچہ کس کلاس میں جاتا ہے وہ بھی اسے ا کر یہ کہتے ڈانٹتے کہ ،، ہن رون دا کی فائدہ ، ہر ویلے گلی ڈانڈا نئی سے کھیڑنا ، پڑھنا سی ،، او ویکھ چاچے ماجھے دا منڈا تیرے نال ای پڑھدا دا سی ، او وی تے پاس ہو گیا اے ،، اس طرح سارے گھر والے اس کے ارد گرد ہوتے اور طعنوں کے لیتر اس پہ پڑ رہے ہوتے
میں نے کہا ناں کہ یہ بچے ابھی چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں ابھی یہ اتنے باشعور نہیں ہوئے ہوتے کہ خود کُشی کے بارے سوچھتے ،، ہاں اگر ان میں سے کوئی دسویں تک پہنچ جاتے تو ان میں سے اکثر خود کُشی کا مفہوم سمجھ چکے ہوتے
اج تو تمام نتیجے اپ کمپیوٹر پہ دیکھ سکتے ہیں مگر اس دور میں ایک ضمیمہ چھپتا تھا اور دسویں کے بچے اپنی یا کرا ئے کی سائیکل لے شہر جاتے اور ضمیمہ خرید کر اپنا رول نمبر دیکھتے اور اپنا رول نمبر نہ نظر انے پہ ان کی سائیکل کسی ریل کی پٹڑی کے قریب کھڑی ملتی اور گھر ، رشتے داروں اور دوستوں سے شرمندگی کی ٹریں ان کے جسموں سے گزر جاتے ، یا پھر کسی کی لاش ضمیمہ سمیت کسی دریا کے پا نی پہ تیرتی نظرآتی ۔۔
اج کل میڈیا کی وجہ سے جو بچے ۱۰۰۰ میں سے ۹۰۰ سو نمبر لے تو سارے کیمرے اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں وزیر ان کے گلوں میں ہار پہنا رہے ہوتے مگر میں نے ایسی کو ئی تقریب نہیں دیکھی جس مین ان بچوں سے بھی مخاطب کیا گیا ہو جو فیل ہوگے یا جہنوں نے کم نمبر لیے ہیں ، کہ کوئی ان کی تذلیل نہ کرے اور ان کو کہہ کہ اپ بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے یہ بچے ہیں ،، اپ دل چھوٹا نہ کریں
فیل ہونا تو الگ بات ہے جن بچوں کے کم نمبر اتے ہیں ان بچوں کی بھی گھروں میں تذلیل کی جاتی ہے کہ تم نے ہزار میں سے نو سو نمبر کیوں نہیں لیے
میری پاکستان کے والدیں سے درخواست ہے کہ یہ ضد چھوڑ دیں کہ نچے نے ہزار میں سے ہزار ہی نمبر لئے تو اپ کا نام روشن ہو گا ۔ کہیں ایسا نہ ہو یہ بچے اپنئ زندگی کا چراغ ہی گل کر لیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154454732448390
“